جب نئی صبح مسکرائی ہے
تارے تارے کی موت آئی ہے
جس جگہ پر جلیں فرشتوں کے
عیدِ جلوہ وہاں منائی ہے
یہ کہاں آگیا ہوں اب کہ مجھے
آرزوئے شکستہ پائی ہے
اُن کو منزل سلام کیوں بھیجے
جن کو رستے میں نیند آئی ہے
آدمی ایک مشتِ خاک سہی
فرش سے عرش تک رسائی ہے
مرنے والوں نے تیرے کوچہ میں
زندگی کی ہنسی اڑائی ہے
میری منزل کا اک نشاں کہیے
مہر و مہ کی جہاں رسائی ہے
بارگاہِ جمال میں چپ ہوں
یہ رسائی بھی نارسائی ہے
جن کو نامِ غزل سے ضد تھی عروجؔ
اُن کو شوقِ غزل سرائی ہے