خیال میں گر نہیں لطافت بیان جو پراثر نہیں ہے
تو بس وہی شوق دل بری ہے متاع سوزِ جگر نہیں ہے
جو چیز ہے جس جگہ پہ کھوئی،اسے وہیں ڈھونڈھئے گا صاحب
سکون دل کا دھرا ہے دل میں اُدھر نہیں ہے اِدھر نہیں ہے
وہ اور ہوں گے کوئی ہنرور جو جی رہے ہیں خرد کے بل پر
یہ میرے دل کی ہے بے بساطی کہ مجھ میں کوئی ہنر نہیں ہے
جو خود کو سمجھا بڑا قد آور، ہے جس کو زعم سکندری بھی
ملا ہوا ہے یہ تاج کس کو، وہ جس کے کاندھوں پہ سر نہیں ہے
وہ عشق ہی کیا جو بوالہوس ہے وہ حسن ہی کیا جو بے حیا ہے
وہ دل ہی کیا ہے جو غم نہ جانے، وہ آنکھ ہی کیا جو تر نہیں ہے
یہ شوق و وارفتگی نے خالدؔ کہاں پہ پہنچادیا جنوں کو
تمہیں بھی اپنا پتہ نہیں ہے، انہیں بھی اپنی خبر نہیں ہے