کوئی بھی فن ہو وہ ماحول صاف چاہتا ہے
عجب ہنر ہے مرا، اختلاف چاہتا ہے
روایتوں کا ضروری ہے احترام بجا!
ہر ایک تجربہ، کچھ انحراف چاہتا ہے
میں چاہتا ہوں نہ رشتوں میں آئے رخنہ کوئی
نیا یہ عہد، دلوں میں شگاف چاہتا ہے
میسر آئی نہ اک پل بھی ہم کو یکسوئی
ہمارا ذہن بھی اب اعتکاف چاہتا ہے
علامتیں ہیں نئے دور کی برہنہ سب
مگر مزاج غزل کا، غلاف چاہتا ہے
مطالعہ ہے ضروری رموزِ فطرت کا
ہر ایک زندہ ادب انکشاف چاہتا ہے
ذرا تو گردشِ فکر و خیال دم لے قمرؔ
دماغ کعبۂ دل کا طواف چاہتا ہے