تیرے کف پر کششِ رنگِ حنا اور ہی تھی
ہاں مگر سرخیِ خونِ شہدا اور ہی تھی
ہر طرف آج ملی کم نگہی کم نظری
کل جو آئے تھے تو محفل کی فضا اور ہی تھی
نہ وہ خوشبو ، نہ وہ لہک اور نہ وہ اندازِ خرام
تیرے کوچے سے جو نکلی تو صبا اور ہی تھی
اپنے تکیے پہ عجب شیریں بیاں تھا درویش
کوئے قاتل میں جو پہنچا تو صدا اور ہی تھی
اب سیاہ پوش ہوا گردشِ دوراں کے طفیل
کل مِری طرفگیِ رنگِ قُبا اور ہی تھی
رات کٹتی ہی نہ تھی اور نہ تھا منزل کا سراغ
مجھ سے کچھ کہتی مگر لغزش پا اور ہی تھی