عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے
آفتیں برستی ہیں دل سکون پاتا ہے
آزمائشیں اے دل سخت ہی سہی لیکن
یہ نصیب کیا کم ہے، کوئی آزماتا ہے
عمر جتنی بڑھتی ہے اور گھٹتی جاتی ہے
سانس جو بھی آتا ہے لاش بن کے جاتا ہے
آبلوں کا شکوہ کیا ٹھوکروں کا غم کیسا
آدمی محبت میں سب کو بھول جاتا ہے
کارزارِ ہستی میں عزّوجاہ کی دولت
بھیک میں نہیں ملتی آدمی کماتا ہے
اپنی قبر میں تنہا آج تک گیا ہے کون
دفترِ عمل عامرؔ ساتھ ساتھ جاتا ہے