غزل

عامرؔ عثمانی

عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے

آفتیں برستی ہیں دل سکون پاتا ہے

آزمائشیں اے دل سخت ہی سہی لیکن

یہ نصیب کیا کم ہے، کوئی آزماتا ہے

عمر جتنی بڑھتی ہے اور گھٹتی جاتی ہے

سانس جو بھی آتا ہے لاش بن کے جاتا ہے

آبلوں کا شکوہ کیا ٹھوکروں کا غم کیسا

آدمی محبت میں سب کو بھول جاتا ہے

کارزارِ ہستی میں عزّوجاہ کی دولت

بھیک میں نہیں ملتی آدمی کماتا ہے

اپنی قبر میں تنہا آج تک گیا ہے کون

دفترِ عمل عامرؔ ساتھ ساتھ جاتا ہے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں