یوں آئنوں سے عیب سب اپنے چھپائے ہیں
چہرے پہ اور بھی کئی چہرے لگائے ہیں
جن میں نہ کوئی رنگ، نہ خوشبو، نہ کچھ مٹھاس
ایسے میں پھول پھل مرے حصے میں آئے ہیں
ہے کیا جو آفتاب پہ نازاں ہے آسماں
اپنی زمیں پہ ہم نے بھی سورج اگائے ہیں
اے موجِ بے قرار ذرا احتیاط سے
بچوں نے ساحلوں پہ گھروندے بنائے ہیں
جب بھی کبھی وطن پہ کوئی برا وقت آپڑا
پانی کے مثل خون بھی ہم نے بہائے ہیں
اس کے کرم نے تھام لیا ہے مجھے شفیقؔ
جب جادئہ طلب میں قدم ڈگمگائے ہیں