محبت میں ستایا جارہا ہوں
مذاقِ دل اڑایا جارہا ہوں
سحر کی روشنی کو آج کیوں کر
اندھیروں میں چھپایا جارہا ہے
بجھائی جس نے شہرِ غم کی آتش
اسی کا گھر جلایا جارہا ہے
جو ہے معروف قاتل اور ستم گر
وہ پلکوں پر بٹھایا جارہا ہے
فریب اور سادگی سے جس نے لوٹا
اسے رہبر بنایا جارہا ہے
سرِ محفل نہ جانے مجھ کو کشفیؔ
رلا کر کیوں ہنسایا جارہا ہے