ہر چند بے کسی میں دن اپنے گزر گئے
اے زیست شکر ہے کہ تیرا قرض بھرگئے
اس کی ہے اور بات کہ پایا نہ کام جاں
ورنہ حضور یار میں ہم بیشتر گئے
لے کر کسی کے حسنِ تصور کا آسرا
ہم زندگی کی راہ سے آساں گزرگئے
کیا چیز تھیں کسی کی محبت نگاہیاں
کچھ اور تیرے حسن کے جلوے نکھر گئے
دن زندگی کے بار ہیں جن کے فراق میں
اللہ اب وہ عمر کے ساتھی کدھر گئے
اب تک وہی ہے رنگ مرے اضطراب کا
گو تیرے انتظار میں برسوں گزرگئے
شفقتؔ خوشی تو خیر مقدر نہ تھی مگر
دن اپنی زندگی کے بہرحال بھر گئے