غزہ کے خلاف اسرائیل کی ہمہ جہت جنگ کو اب(۱۳؍اگست کو) ایک ماہ کا عرصہ بیت گیا ہے۔ اس جنگ میں تاحال دوہزار سے زائد افراد زندگیاں گنواں چکے ہیں۔ کئی ہزار زخمی ہیں اور ہزاروں گھر، عبادت گاہیں، اسکول سرکاری وغیرہ سرکاری دفاتر وتجارتی مراکز، عالمی اداروں کے مراکز اور کارخانے تباہ کئے جاچکے ہیں۔ اس دوران کئی بار وقتی جنگ بندی اور امن مذاکرات کا دور بھی چلا لیکن وہ ناکام ہوگیا اور اسے ناکام ہونا ہی تھا۔
جنگ اور امن کی ان کوششوں کے درمیان یہ بات اب واضح ہوگئی ہے کہ اس جنگ میں کون کیا کردار ادا کررہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ یہاں تک وضاحت ہوگئی ہے کہ غزہ کے خلاف اس منصوبہ بندجنگ میں دوران جنگ اور بعداز جنگ کس کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی، پہلے ہی طے کرلیا گیا تھا۔ اور یہ طے کرنے والے اور جنگ کی منصوبہ بندی کرنے والے صرف مغرب کی اسلام دشمن طاقتیں نہیں تھیں(ہرچند کہ ان کی تائید کے بغیرپتہ بھی نہیںہل سکتا) بلکہ اسلام کی نام لیوا طاقتیں بھی تھیں جنھیں عالم اسلام میں معاشی ودینی اعتبار سے احترام کا درجہ حاصل ہے۔ اب غزہ کی اس جنگ کو دیکھ کر اور اس کے تانے بانے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلم دشمن طاقتوں کا شکوہ کیسے کیا جائے ہم تو خود بھی اسلام اور مسلم دشمنوں کی صف میں نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کی قیادت کررہے ہیں۔
ایک ہفت روزہ انگریزی رسالہ’DEBKANET’ نے واضح طورپر لکھا تھا کہ:
”The war on GAZA was planed and orchestrated by Isreal, Saudi and Egybt.”
اس نے مزید لکھا کہ سعودی عرب کے شہنشاہ عبداللہ، مصری فوجی آمرالسیسی اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو جنگ کے اگلے اقدامات کولے کر مسلسل رابطے میں تھے، روزانہ بلکہ بعض اوقات دن میں کئی بار ملک عبداللہ اور السیسی کے درمیان خاص ٹیلیفون لائن پر گفتگو ہوتی تھی۔ ان لیڈران نے اپنے اس غیر اعلانیہ اتحاد کو سیاسی اور مذہبی حساسیت کے سبب خفیہ رکھنے کی کوشش کی تھی۔ رسالہ نے مزید لکھا تھا کہ قاہرہ کے فوجی ہوائی اڈے پر اسرائیل کا ایک خصوصی طیارہ کھڑا رہتا تھا تاکہ السیسی اور نیتن یاہو کے درمیان جب بھی اہم خفیہ مراسلت کی ضرورت ہو تو یہ طیارہ پیغامات کی فوری ترسیل کے کام آسکے۔
غزہ کے خلاف جنگ کے منصوبہ سازوں نے درج ذیل سات نکات طے کئے تھے۔
۱۔ اسرائیل اورIDF (اسرائیل ڈیفنس فورسز) حماس کی فوجی طاقت اور سیاسی اثر کو ختم کرنے کے لئے لڑیں گے۔
۲۔ یہ فوجی آپریشن اسی وقت رکے گا جب اس کے جملہ اھداف حاصل کر لیے جائیں گے۔
۳۔ تینوں لیڈر ان کسی بھی باہری طاقت کو(بہ شمول امریکہ) جنگ کے سلسلہ کی ہدایات میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے۔
۴۔ تیل کی دولت سے مالامال سعودی مملکت اسرائیل کے ذریعہ لڑی جارہی جنگ کے اخراجات کا ایک حصہ برداشت کرے گی۔
۵۔ جنگ کے خاتمہ پر، سعودی عرب اور کچھ دیگر خلیجی ریاستیں UAEاور کویت کی قیادت میں غزہ میں جنگ سے ہونے والی تباہی پر تعمیر جدید کے لئے مالی امداد دیں گے۔
۶۔ سعودی، مصر اور اسرائیل کی مشترکہ سوچ یہ ہے کہ حماس کی فوجی طاقت کا خاتمہ وقت کا اہم تر تن تقاضہ ہے اور اسکے روکٹ اور بنکرس کو تباہ کیا جانا ضروری ہے۔
۷۔ جب IDFدہشت گرد طاقتوں کو تباہ کردے گا۔ تو مصر، سعودی عرب اور فلسطینی اٹھارتی ملکر غزہ میں نئی حکومت کی تشکیل کریں گے۔
عالمی حالات پر تبصرہ کرنے والے اور جائزہ پیش کرنے والے مذکورہ امریکی رسالے کی تحقیقات، جس کی تصدیق دیگر ذرائع اور سلسلہ واقعات سے بھی ہوتی ہے، صاف کردیتی ہیں کہ یہ جنگ کس کے اشاروں پر اور کن اہداف ومقاصد کے حصول کے لئے شروع کی گئی ہے۔ مذکورہ اطلاعات سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جنگ کب تک اور کہاں تک لڑی جائے گی۔ حالات اور واقعات کا تسلسل بتاتا ہے کہ اس جنگ میں مصری فوجی حکمراں، عرب مملکتیں اور اسرائیل سب برابر کے شریک ہیں۔ اور جب عالم اسلام کی معروف طاقتیں ہی اس میں لگی ہیں تو بقیہ دنیا کو کیا غرض ہے کہ وہ انصاف اور ناانصافی کے تقاضوں میں اپنا وقت ضائع کرتی پھرے سوائے اس کے کہ جوان کی ایمج اور سیاسی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہوں۔
مذکورہ رسالہ کے انکشافات کو دیکھتے ہوئے عبدالفتاح السیسی کا حالیہ دورہ سعودی عرب کافی اہم ہے اور وہاں اسے جس اعزاز اور اکرام سے نوازا گیا ہے وہ ایک اعتبار سے مصر اور غزہ میں ان کی خدمات کا اعتراف ہے۔ اور ان کی ان خدمات کا اعتراف سعودی عرب نے محض زبانی نہیں کیا بلکہ مملکت کا سب سے ممتاز تمغۂ تکریم بھی بیش کیا۔ اس دوران، شہنشاہ مملکت کے ساتھ انہوںنے’’مصر کے لئے عطیہ دہندگان کی کانفرنس‘‘ کے انتظامات پر بھی گفتگو کی۔ انہوںنے عراق میں ابھرتی قوت داعش جسے isisکے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کوکاؤنٹر کرنے کے لیے عرب دنیا کا ایک اتحادبنانے پر بھی غوروخوص کیا۔ حالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عرب ممالک اپنے ازلی اور فطری دشمن اسرائیل کو کاونٹر کرنے کے لئے تو کوئی اتحاد ساٹھ سالوں میں تشکیل نہ دے سکے لیکنisisسے لڑنے کے لئے اتحاد کی ضرورت پر غور کررہے ہیں جبکہ یہ بات اب معلوم ہوچکی ہے کہ مذکورہ isisمکمل طورپر ایران اور سعودی عرب کی سرپرستی میں پروان چڑھی ہے اور اس کے نظریات اور اس کا مستقبل کیا ہوگا ہنوز ایک معمہ ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ افغانستان میں اچانک ابھرنے والی طاقت طالبان کی طرح انہیں بھی کچھ طاقتوں نے اپنے خفیہایجنڈکے تحت آگے بڑھایا ہو اور وہ بعد میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام اور ہدف بنانے کے لئے انہیں استعمال کریں۔
جو کچھ بھی ہو اتنا طے ہے کہ اب عرب حکمرانوں کو اپنا مستقبل دھند لانظر آنے لگا ہے اور اس سلسلہ میں فکر مند بھی میں اور انہیں سب سے زیادہ خطرہ حماس سے ہے۔ وہ حماس جو محض360کلو میٹر مربع میں سات آٹھ سال سے اسرائیل کی قید میں جی رہی ہے۔ وجہ صاف ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کے بزعم خود خاتمہ کے بعد اب ان کا ہدف حماس ہے‘‘ کیونکہ اخوان تو صرف اسلام کے ماننے والے اور نظریاتی قوت سے لیس تھے اور حماس تو تو نظریاتی قوت سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ جنگی قوت سے بھی لیس نظرآتے ہیں۔ اور خطہ میں کسی بھی فوجی قوت کا عروج خواہ دہ حماس کی شکل میں ہو یا داعش کی شکل میں سب سے پہلے عرب حکمرانوں کی نیندیں اڑاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اخوان کے بعد حماس کے خلاف سازشوں میں متفقہ طور شریک ہیں اور غزہ میں جو خوں بہہ رہا ہے اس میں حماس کے دشمن ہی نہیں دوست بھی سوئمنگ کرتے نظر آتے ہیں۔
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کے سابق وزیر دفاع موفاز چینل ۱۰ کے ساتھ گفتگو میں یہ حقیقت چھپانہ سکے اور کہہ بیٹھے:
”Israel had to specify a role for Saudi Arabia and UAE in demilitarization of Hamas”.
اس پر اب اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیںکہ ’’فاعتبروا یا اولی الالباب‘‘