گذشتہ ۲۷؍دسمبر سے اسرائیلی افواج غزہ کے نہتے عوام پر مسلسل بمباری میں مصروف ہیں اور میڈیا کے ذریعے ملنے والی معلومات کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ لوگ یہودی افواج کی اس کھلی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ جن میں اسّی فیصد سے زیادہ عوام الناس ہیں اور ان میںبچے اورخواتین بھی شامل ہیں۔ اگرچہ اسرائیل کی اس جارحیت پر بلا تفریق پوری دنیا میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور عوام ہر خطے میں اس کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، مگر اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور ضد کا عجیب عالم ہے کہ وہ اپنی روش سے باز آنے کے لیے تیار نہیں۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ بڑی طاقتیں اس راز سے اچھی طرح واقف ہوگئی ہیں کہ عوامی احتجاج چاہے وہ ملکی ہو یا عالمی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اور یہ کہ بڑی طاقتوںکے مثلث اور مربعے کیونکہ اپنی طاقت کے نشے میں چور ہیں اور خوب اچھی طرح جانتی ہیں کہ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس لیے دنیا کے ساتھ من چاہا معاملہ کرتے ہیں۔
فلسطین اور غزہ کے معاملے میں اسرائیل اور اس کے حلیف امریکہ پر عالمِ اسلام اور عالمِ عرب کی بے وقعتی و سیاسی بے وزنی اچھی طرح نہ صرف واضح ہے بلکہ خواہی نہ خواہی اس کا بڑا حصہ اس کی سیاست کے خونی پنجوں میں مرغ بسمل کی طرح پھڑ پھڑا رہا ہے اور اسے کوئی راہ فرار اور امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کی وہ قابلِ ذکر مملکتیں جو فلسطینی عوام کے لیے دستِ تعاون دراز کرسکتی تھیں خود انہی طاقتوں کی حاشیہ بردار بن کر انہی کے مفاد کی زبان بولتی ہیں۔ خود فلسطینی حکمرانوں کا ٹولہ جس کی قیادت محمود عباس کے ہاتھوں میں ہے وہ وہی چاہتا ہے جو غزہ میںاسرائیلی حکومت چاہتی ہے۔ اسی طرح دوسری پڑوسی عرب مملکتیں جو اس وقت غزہ کے غم میں آنسو بہا رہی ہیں یہ کہتی تھیں کہ متحدہ فلسطین کی خاطر عرب ممالک کی متحدہ افواج کو غزہ پر فوجی چڑھائی کرکے حماس کو ختم کردینا چاہیے تاکہ متحدہ فلسطین کی راہ میں حائل طاقتوں کا خاتمہ ہوسکے۔
یہ عالم عرب کے حکمرانوں کی منافقانہ روش اور باہمی انتشار کی کیفیت ہی تو ہے جس نے اسرائیل کو اس قدر جری اور جارح بنادیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جو چاہے اور جب چاہے کرسکتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی جارحیت محض غزہ تک ہی محدود نہیں بلکہ لبنان، اردن اور مصر بھی اس کی زد میں ہیں اور کئی مرتبہ ان ممالک پر بھی اس دوران میزائل داغے گئے ہیں۔ اور تازہ ترین کیفیت یہ ہے کہ عین اس دن جب اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون اسرائیل میں موجود تھے، اسرائیلی فوج نے ہاسپٹل، میڈیا سنٹرس اور اقوام متحدہ کی ریلیف بلڈنگ تک کو نشانہ بنایا جہاں دسیوں ٹن سامان خوردونوش جنگ زدہ لوگوں میں تقسیم کے لیے رکھا ہوا تھا اور اقوام متحدہ کی بلڈنگ ہونے کے ناطے اسے محفوظ تصور کرکے لوگ اس میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ بان کی مون کی اب تک حملے روکنے کی تمام اپیلیں ردی کی ٹوکری میں پڑتی رہی ہیں اور اقوامِ متحدہ کی بلڈنگ کی تباہی کے بعد جب انھوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا تو اسرائیلی وزیرِ دفاع نے فرمایا: ’’ہم روز مرہ کی کارروائیوں کا خود ہی جائزہ لے رہے ہیں اور انہی جائزوں کی روشنی میں ہم فیصلہ کریں گے کہ حملے کب روکے جائیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں خاص طور پر اور فلسطین میں عام طور پر ایک ایسی جنگ میں گرفتار ہوگیا ہے جس میں کامیابی اس کا مقد رنہیںہے۔ اور اگر اس جنگ میں اسے جو کامیابی ملنی تھی ۱۹۶۷ء ہی میں مل گئی تھی۔ اس کے بعد اسرائیل کو مامون اورمطمئن ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر بسے یہودیوں کی قسمت میں امن و امان اور سکون و اطمینان سے رہنا شاید نہیں لکھا گیا ہے اور اب یہ احساس عام یہودی شہریوں کو ہونے بھی لگا ہے کہ کیا وہ دنیا بھر سے یہاں اسی لیے لائے گئے تھے کہ ان کی نسلیں قیامت تک جنگ ہی کرتی رہیں۔
برا ہو دنیائے سیاست کا یہاں اربابِ سیاست اپنی بقا اور استحکام کے لیے ایک دشمن کی موجودگی ضروری تصور کرتے ہیں۔ امریکہ کے لیے جس طرح اسامہ بن لادن کا چھلاوا ضروری ہے اسی طرح اسرائیل کے لیے فلسطین کی مقاومہ یا مزاحمتی فورس ہے۔ اور جب بھی اسرائیل میں انتخابات ہوئے ان کی بہت بڑی قیمت فلسطینی عوام کو چکانی پڑی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خواہ ایریل شیرون ہوں یا رابن سبھی نے فلسطینیوں کے خون سے ’ستارہ‘ بناکر الیکشن لڑا ہے۔ اور اب جبکہمزاحمتی قوتوں میں حماس سرفہرست اور مضبوط ترین ہے، اس کے خاتمہ کے ہدف کو حاصل کرکے یہودی ٹولہ اسرائیل کے یہودیوں کو امن و سکون کا خیالی تحفہ دے کر الیکشن کی سیاست کررہا ہے۔
اگر بغور دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل غزہ کی اس جنگ میں اربوں ڈالر خرچ کرکے اپنے سیکڑوں فوجی کھوکر اور لاکھوں میزائلوں و جوابی حملوں کے ذریعے بھی حقیقی کامیابی سے دور ہی رہے گا اور اس کا ہدف ’حماس کا خاتمہ‘ اس سے دور ہی رہے گا۔ اس کے برخلاف حماس سب کچھ کھوکر بھی کامیاب ہی رہے گا کیونکہ اسرائیل کی ان تمام کاررائیوں نے ہی اسے عوام کا ایسا اعتماد دلایا تھا کہ فلسطین کے گذشتہ انتخابات میں وہ دو تہائی اکثریت کے ہدف کو بھی پار کرگئی تھی۔ اور اب غزہ میں اس کی تباہی کا ہدف بھی اسرائیل کی توقعات کے برعکس نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ اسرائیل کو یہ بات سمجھنی چاہیے۔
سی آر پی سی کی دفعات میں ترمیم
بھارتی پارلیمنٹ نے حالیہ دنوں میں سی آر پی سی کی دفعہ ۳۰۹ اور دفعہ ۴۱ کا ترمیمی بل پاس کردیا ہے۔ اس بل کے پاس ہوجانے کے بعد سات سال تک کی سزا والے جرائم کی صورت میں ضمانت مقامی تھانے ہی سے ہوجایا کرے گی۔ اس طرح جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو اب ’جیل کی ہوا‘ نہیں کھانی پڑے گی اور صرف تھانے کے ’چکر کاٹ کر‘ ہی معاملہ تقریباً سلجھ جایا کرے گا۔ مذکورہ بل پارلیمنٹ میں صرف ۱۸؍منٹ میں ہی پاس ہوگیا۔ اس کی رو سے وہ تمام جرائم جن میں سات سال یا اس سے کم کی سزا کا ذکر ہے اب ضمانتی جرم بن جائیں گے۔ اور ضمانتی جرم بھی ایسا جس کے لیے مجرم کے اہلِ خانہ کو عدالتوں کے چکر نہیں کاٹنے پڑیں گے۔
دراصل اس وقت ہمارے عدالتی نظام پر بڑھتے جرائم اور تیزی سے پنپتے سیاسی قضیوں کا بوجھ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اگر اسی انداز سے عدالتی کارروائیاں جاری رہیں اور آئندہ کوئی بھی کیس عدالت میں نہ آئے (جو ناممکن ہے) تب بھی ان مقدمات کو فیصل کرنے کے لیے جو عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں آئندہ سو سال درکار ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں اربابِ سیاست کا یہ سوچنا کہ عدالتی نظام کے بوجھ کو تقسیم کرکے کچھ ہلکا کیا جائے نہ صرف بجا ہے بلکہ اس وقت عدالتی نظام میں لوگوں کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے ضروری بھی ہے۔ اور جس قدر عدالتی نظام کا بوجھ کم کرنا ضروری ہے اسی قدر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسا عدالتی نظام قائم ہو جس کی رفتار عمل تیز ہو، مراحل آسان اور اس تک رسائی ہر شخص کے لیے آسان ہو، اسی طرح وہ جرائم کے سدِباب اور خاتمے میں اور مجرمین کو قرار واقعی سزا دلانے میں مفید، کارگر اور معاون ثابت ہوسکے۔
مذکورہ ترمیمی بل کی عدالتی کارروائیوں کے اختیارات پولیس تھانوں کو سانپ دیے گئے ہیں۔ اس طرح عدالت کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے اس کا بوجھ پولیس کو دے دیا گیا ہے ، جو خود بھی پہلے ہی سے کافی بوجھل ہے۔ اورخا ص بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خصوصاً شمالی ہند کی ریاستوں اترپردیش، دہلی، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، اڑیسہ، بنگال وغیرہ میں پولیس نے اپنے کالے کرتوتوں کے سبب عوام میں اپنی صاف ستھری اور امن و انصاف پسندی کی شبیہ کو گم کردیا ہے۔ کسٹوڈیل کلنگس، رشوت ستانی، مجرموں اور مافیا سے تعلقات اور ان کی سرپرستی کے علاوہ بے گناہوں اور کمزوروں پر ظلم کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی میں امن و قانون کو بحال رکھنے میں ناکامی اور مختلف اقسام کے تعصبات کے سبب ہمارے اس اہم شعبے نے عوام کے اعتماد میں سے کھویا زیادہ ہے اور پایا کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ہمارے ملک کا باشعور طبقہ پولیس ریفارم کے مطالبے کو بڑی قوت کے ساتھ اٹھاتا رہاہے جسے حکومتوں کی طرف سے مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
اگر سات سال یا اس سے کم مدت کی سزا والے جرائم کی صورت میں ضمانت پولیس تھانوں ہی سے ملنے لگے گی تو جرائم کی کیا کیفیت ہوگی اس کا تصور بھی محال نظر آتا ہے۔ تیلگی اسٹامپ گھوٹالہ، ستیم کمپنی کی اپنے حصہ داروں کے ساتھ فریب دہی، بس میں چاقو مار کر جیب کاٹنا، خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جیسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے اب جیل جانے کے خوف سے بھی بے فکر ہوکر وارداتیں انجام دیا کریں گے۔
ہندوستانی سماج کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو چوری، ڈکیتی، فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا، عبادت گاہوں کو منہدم کرنا، سرکاری افسران کا رشوت لیتے ہوئے پکڑے جانا، جھوٹی گواہی دینا، نقلی کرنسی بنانا اور ملاوٹی اشیاء تیار کرنا یا بیچنا جیسے سیکڑوں جرائم اب اپنی سنگینی کھودیں گے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسی سے نوے فیصد جرائم ایسے ہی ہیں جن میں سات سال یا اس سے کم وقت کی سزادی جاتی ہے۔
پولیس کو ضمانت دینے کے حق کی صورت میں معاشرے میں جرائم کا سیلاب آجانے کے ساتھ پولیس کی رشوت ستانی اور بالادستی میں یقینا خطرناک اضافہ ہوگا، اور اس بات کا مکمل اندیشہ بڑھ جائے گا کہ ان جرائم کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہوجائے۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات قابلِ غور یہ ہے کہ عدالتی نظام سے تو بوجھ ہلکا ہوگا لیکن پولیس جو پہلے ہی سے ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، مزید بوجھ کا شکار ہوجائے گی۔ چنانچہ اگر حکومت واقعی عدالتی نظام کو زیادہ مؤثر اور فعال بنانا چاہتی ہے، تو اس کو چاہیے کہ اس معاملے میں پولیس کو مزید بالادستی دینے کے بجائے فیملی کورٹ اور نئی عدالتیں تشکیل دے اور تیز رفتار عدالتی نظام والی ایسی عدالتیں قائم کرے جہاں معاملات کا فوری حل ممکن ہوجائے اس لیے کہ عدل کا سب سے بنیادی پہلو یہی ہے کہ وہ سب کے لیے قابلِ حصول اور بروقت ملنے والی چیز ہو۔ جبکہ موجودہ دونوں صورتوں میں عدل عوام کے لیے دشوار ترین اور طویل ترین عمل بن گیا ہے اور ایسی صورت میں اس کی معنویت و افادیت یا تو کم ہوجاتی ہے یا یکسر بے کار ولغو محض۔
شمشاد حسین فلاحی