اسرائیل شام اور عراق میں جاری خانہ جنگی اور مصر میں اخوان حکومت کی برطرفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ پر بھرپور حملے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا، سو ایک ہفتے کی بمباری کے بعد 13 جولائی کی صبح شمالی غزہ پر فوج کشی کربیٹھا۔ جبکہ علاقے کے مکینوں کو بمباری کی دھمکی دے کر چار ہزار شہریوں کو فرار ہونے پر مجبور کردیا۔
8 جولائی سے لے کر اب تک صہیونی ریاست غزہ میں حماس جنگجوئوں کے 730 ٹھکانوں پر حملے کرنے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن زمینی حقائق اس کی تردید کرتے ہیں، کیونکہ صہیونی ریاست نے شہری بستیوں پر بمباری کرکے تادم تحریر 192 افراد کو جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے شامل ہیں، ہلاک کردیا۔ پچاس سے زائد گھروں کو زمین بوس، جب کہ 700 سے زائد مکانات کو بری طرح تباہ کردیا ہے۔ کیا یہ مکانات حماس جنگجوئوں کے اڈے یا اسلحہ خانے تھے؟
صہیونی حملہ آوروں نے اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بھی بمباری کی جس پر واشنگٹن میں قائم کمیٹی برائے تحفظِ صحافیاں (Committee To Protect Journalists) نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ شہر میں اس کے فوٹوگرافر کے گھر کے سامنے کھڑی ٹیلی ویژن چینل کی مخصوص گاڑی جس پر نمایاں حروف میں TV لکھا ہوا تھا صہیونی حملہ آوروں کا نشانہ بنی جس میں اس کا ڈرائیور حامد شہاب ہلاک ہو گیا۔ یہ صہیونی حملہ آوروں کا طریقہ واردات رہا ہے کہ میڈیا اور طبی امدادی ٹیموں اور اسپتالوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے 2008-09ء میں غزہ پر بھرپور حملوں کے دوران خود اسرائیل کے امدادی طبی عملہ بشمول نرسوں پر گولیاںچلائیں، جب کہ 2012ء میں حماس پر حملے کی آڑ میں دو عمارتوں کو نشانہ بنایا جن میں مقامی علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ادارے قائم تھے۔ C.P.J کی اطلاع کے مطابق اْس وقت 9 صحافی اسرائیلی بمباری کے باعث شدید زخمی ہوگئے تھے۔ (ڈان 8 جولائی 2014ء)
اس وقت اسرائیل نے غزہ پر بھرپور زمینی حملے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لیے اپنی فاضل افواج میں سے 33 ہزار کو طلب کرلیا ہے اور غزہ کی سرحد پر ٹینک اور بکتربند گاڑیاں کھڑی کردی ہیں۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جب تک حماس اسرائیل کی سرزمین پر گولہ باری بند نہیں کرے گی اسرائیل غزہ پر بمباری کرتا رہے گا۔ لیکن وہ دنیا کو یہ نہیں بتاتا کہ غزہ کے لوگ اسرائیل پر کیوں گولہ باری کررہے ہیں۔ اس کے چار اسباب ہیں:
(1) اسرائیل اوسلو معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مغربی کنارے بشمول یروشلم اور غزہ کا قبضہ خالی کرنے کے بجائے اس پر قابض ہے۔
(2) اس نے حماس کے زیرحراست اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے حماس کے 15 ارکان کو رہا کرنے کے بعد دوبارہ گرفتار کرلیا ہے۔
(3) اسرائیل مروان برعوتی سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو بلا اْن پر مقدمہ چلائے سالہا سال سے قید کیے ہوئے ہے جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کی رہائی کے لیے امریکہ اور یورپی یونین اسرائیل پر دبائو بھی نہیں ڈالتے، اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنا تو دور کی بات ہے۔
(4)اسرائیل نے نومبر 2012ء میں حماس سے کیے گئے جنگ بندی کے معاہدے کی رو سے غزہ کی ناکہ بندی نہیں اٹھائی، اس پر مستزاد اسرائیلی انتہا پسندوں نے ابوحضر کو زندہ جلا کر ہلاک کردیا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے 9 جولائی سے غزہ پر کی جانے والی فضائی بمباری میں شہریوں کے مکانات کو نشانہ بنانے پر صہیونی ریاست کے اقدام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل پر Facebook میں کسی پاکستانی نے یہ لکھا کہ اسرائیل پاگل تو نہیں ہوگیا جو حماس پر بمباری کررہا ہے!آخر حماس یہودی ریاست پر کیوں راکٹ باری کررہی ہے؟ اس کا جواب تو مندرجہ بالا سطور میں مَیں نے چار اسباب بیان کرکے دے دیا ہے۔ لیکن اسی چینل پر اہلِ مغرب نے اس کرائے کے فرد کی مذمت کی جو ظالم اور مظلوم میں تمیز کرنے سے قاصر ہے۔ ان کا یہ تبصرہ قابلِ غور ہے: ‘‘You dont have to be Muslim to feel for Gaza’’۔ کیا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل مسلمان یا عرب ارکان پر مشتمل ہے جو اس نے اسرائیل پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگایا!
لیکن دوسری جانب صہیونیت کے حامی باراک اوباما اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اسرائیل اور حماس کو ایک ہی سطح پر رکھتے ہوئے اسرائیل کی سرزنش کے بجائے دونوں کو ہاتھ روکنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا یہ عالم ہے کہ اگر گوجرہ میں کسی عیسائی بستی میں کسی شاتمِ رسولؐ کے خلاف کارروائی کے دوران تصادم ہوجائے تو پوپ سے لے کر باراک اوباما اور بان کی مون تک امن کی دہائی دینے لگتے ہیں اور انسدادِ بے حرمتیِ رسولؐ کے قانون کی تنسیخ کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ صلیبی صہیونی گٹھ جوڑ ہے کہ یہ دونوں مسلم ممالک میں اپنے کرائے کے دانشور چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ اسلام اور پاکستان کے خلاف لوگوں کو اکسائیں۔ اگر حماس اسرائیل پر راکٹ باری نہ کرے تو کیا کرے؟ یہ ایک مؤثر حربہ ہے جس کے ذریعے حماس اسرائیل کا سارا نظام مفلوج کرسکتی ہے۔8 جولائی سے جب اسرائیل نے غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کی تھی تو حماس نے جواباً راکٹ باری کی۔ اس دوران تل ابیب، یروشلم اور حیفہ (HAIFA) میں سائرن بجنے سے بھگدڑ مچ گئی، جبکہ تل ابیب کا ائیرپورٹ کچھ دیر کے لیے بند ہوگیا تھا، اور لبنان کی جانب سے راکٹ داغے جانے پر پولینڈ کا مسافر طیارہ یروشلم کے ہوائی اڈے پر اترنے کے بجائے قبرص میں اترنے پر مجبور ہوگیا (ڈان 12 جولائی 2014ء)۔ اسرائیلی حملوں کے بعد حماس نے اسرائیل پر 460 راکٹ داغے جن میں سے وہاں نصب امریکہ کے دیے ہوئے میزائل شکن نظام نے 121 راکٹوں کو ناکارہ بنادیا۔ (ڈان 12 جولائی 2014ء)
اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو غزہ تو تباہ ہو ہی چکا ہے، اسرائیل بھی مفلوج ہوجائے گا۔ یاد رہے اسی طرح حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں اسرائیل کے زیرقبضہ خطے پر قائم مارونی جنتا پر Katyusha راکٹ مار کر اسرائیل کو 2000ء میں جنوبی لبنان کا قبضہ خالی کرکے فرار ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ چار دن میں اسرائیل نے 105 شہریوں کو ہلاک کردیا جب کہ حماس کی گولہ باری سے ایک اسرائیلی بھی نہیں مرا البتہ دو افراد صرف زخمی ہوئے تھے۔
اگر سلامتی کونسل غزہ کی ناکہ بندی کا خاتمہ نہیں کرا سکتی تو وہاں کے باشندے اسرائیلی محاصرہ توڑنے اور اس کا قبضہ خالی کرانے کے لیے اقدام کرسکتے ہیں۔ پھر ہم یہ نہ سنیں کہ حماس نے اسرائیل پر راکٹ کیوں داغے اور خاموشی سے صہیونی ریاست کی بمباری برداشت کیوں نہیں کرتی رہی؟ یہ تاریخ کا فتویٰ ہے کہ خاموشی سے ظلم سہنے والا اپنی حالتِ زار کا خود ذمہ دار ہے۔ جو لوگ اسرائیل کے ہاتھوں مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، فلسطینی بستیوں سے مکینوں کی بے دخلی اور ان کی زمینوں پر غاصبانہ قبضے کے بعد غیر ملکی یہودیوں کی بستیوں کی تعمیر پر خاموش رہتے ہیں اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے وہ خود اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم کے ذمہ دار ہیں۔ اور وہ پاکستانی جو حماس پر اسرائیلی بستیوں پر راکٹ باری کا الزام عائد کرتے ہیں اور اس غاصب صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں وہ یا تو گمراہ ہیں یا صہیونیوں کے تنخواہ دار ایجنٹ ہیں۔ ظالم اور مظلوم، قابض طاقت اور مقبوضہ مفتوح آبادی کیوں کر برابر ہوسکتے ہیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اسرائیل نے ایسے موقع پر غزہ کی آبادی پر فوج کشی کا منصوبہ بنایا ہے جب:
اول……… وہ تنظیم آزادی فلسطین اور حماس کے ملاپ سے خائف ہے، کیوں کہ اس سے فلسطینیوں کی مزاحمتی قوت میں بڑا اضافہ ہوگیا ہے، لہٰذا وہ ان کی طاقت کو توڑنا چاہتا ہے۔
دوئم………محمد مرسی کی برطرفی کے بعد مصر پر اسرائیل کا حلیف غاصب فوجی آمر عبدالفتح السیسی مسلط ہے جو حماس اور اخوان کو دہشت گرد قرار دے چکا ہے اور کچھ عجب نہیں کہ اسی کے ایما پر صہیونی ریاست نے غزہ پر جارحیت کا ارتکاب کیا ہو۔
سوم……… ادھر امریکہ کے اشارے پر اور عوامی قوتوں سے خائف خلیجی ریاستوں کے الف لیلاوی سلاطین، امراء و شیوخ نے بھی اخوان اور حماس کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ سو وہ بھی حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، البتہ اس میں قطر ان کے ساتھ نہیں ہے۔
چہارم… شام اور عراق میں خانہ جنگی اور عوامی قوتوں کے ممکنہ غلبے کے اندیشے میں بڑی طاقتوں کی ساری توجہ ان دو ممالک پر مرکوز ہے۔ اس لیے سلامتی کونسل غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کا تھوڑا بہت سدباب کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صہیونی ریاست حماس کی طاقت کوکچلنے کے لیے اقدام کررہی ہے۔
ایسے میں حماس کو اپنی طاقت پر انحصار کرنا ہوگا جب کہ تنظیم آزادی فلسطین اگر حماس کے شانہ بشانہ صہیونی ریاست کا مقابلہ نہیں کرتی تو اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی۔
جس طرح حزب اللہ کے جنگجوئوں نے مغربی لبنان سے اسرائیل کا قبضہ خالی کرا لیا تھا اسی طرح حماس بھی غزہ کو صہیونیت کے قبضے سے ٓازاد کرا سکتی ہے۔
اس خطے میں اگر حماس کو کسی جانب سے سیاسی، سفارتی اور عملی مدد مل سکتی ہے تو وہ ترکی کے وزیراعظم اور ممکنہ صدر جناب طیب اردگان سے ہی مل سکتی ہے۔
باقی رہا OIC کا معاملہ، تو وہ 0=0+0+0 کے سوا کچھ بھی نہیں۔lll