غزہ کو دیوار میں چننے کی سازش

شمشاد حسین فلاحی

اہلِ غزہ کی زندگیوں کا گلا گھونٹ دینے والی چار سال سے جاری شدید ناکہ بندی پر عالمِ اسلام اور عالم عرب کی حکومتیں صرف چند بے حیثیت قرار دادیں پاس کرنے کے علاوہ کچھ نہ کرپانے کے عالم بے بسی میں پڑی ہیں۔ ادھر اہل غزہ کا عالم یہ ہے کہ وہ دوا علاج اور بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے بھی ترس رہے ہیں۔ اس دوران چار سو سے زیادہ ایسے افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جنھیں فوری طبی علاج و معالجہ درکار تھا، مگر انہیں غزہ سے نکلنے کی اجازت نہیں ملی۔ اسی طرح ایک ہزار پانچ سو سے زیادہ وہ افراد اپنے خالق سے جاملے جو اسرائیلی جنگ کے دوران بمباری کا شکار ہوئے اور ایسے پانچ ہزار افراد غزہ میں سسک رہے ہیں ، جو اس جنگ کے دوران اسرائیلی بربریت کا شکار ہوئے۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کے جسم کے بعض اعضاء اسرائیلی فاسفورس بموں سے مکمل طور پر ضائع ہوچکے ہیں۔

گزشتہ دسمبر میں برطانیہ، اٹلی، امریکہ، ترکی اور کئی عرب و ایشیائی ممالک کے ممبران پارلیمنٹ اور سرکردہ شخصیات کا ایک قافلہ برطانوی ممبر پارلیمنٹ مسٹر جارج کی قیادت میں جو سترہ ممالک کے پانچ سو سے زیادہ افراد پر مشتمل تھا، غزہ کی ناکہ بندی کو ختم کرانے کے لیے نکلا۔ یہ قافلہ ڈھائی سو سے زیادہ گاڑیوں اور بحری کشتیوں پر سوار تھا اور غذائی و طبی سازو سامان کے علاوہ انسانی ضروریات کا دیگر سامان لے کر غزہ کے لیے نکلا تھا، جہاں مصر کے راستے اسے غزہ پہنچنا تھا۔ مگر مصری حکومت نے نہ صرف اس عالمی انسانی جذبات کے نمائندہ قافلے کا خیر مقدم نہیںکیا بلکہ کئی روز تک عقبہ کی بندرگاہ پر ہی اسے محصور رکھا۔ یہی نہیں بلکہ مصر نے انسانی جذبات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس قافلے کے شرکاء پر اس وقت لاٹھیاں برسائیں، آنسو گیس چھوڑے اور پانی و ریت برسایا جب انھوں نے مصر کے اس رویہ پر احتجاج کیا۔ مصری حکومت کے اس تشدد میں کئی افراد کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور بہت سے زخمی ہوئے۔ بالآخر اس قافلے اور مصری حکومت کے درمیان گفت و شنید کے بعد محض ۱۳۹ گاڑیوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت ملی۔

مصری حکومت یہ رویہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ اہل غزہ کے لیے اس کا طرزِ فکر و عمل عین اسرائیلی پالیسیوں کے مطابق ہے۔ اور اب غزہ سے ملنے والی مصر کی واحد سرحد جو اسرائیل کے علاوہ کسی ملک سے ملتی ہے اسے مکمل طور پر سیل کرنے کی کارروائی شروع ہوگئی ہے۔ اس طرح اسرائیل ’غزہ کو دیوار میںچننے‘ کا جو کام گزشتہ چار سال سے کررہا ہے، اس دیوار میں آخری اینٹ مصر کے ہاتھوں غزہ کی سرحد پر فولادی دیوار تعمیر کرکے لگائی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ اہلِ غزہ مکمل ناکہ بندی کی حالت میں اپنی بنیادی ضروریات، دوا علاج ، کھانے پینے کی اشیا اور بچوں کے دودھ وغیرہ مصر سے ملنے والی سرحد سے ہی حاصل کرسکتے تھے۔ اور اب یہ راستہ بھی بند ہونے والا ہے۔ ایسے میں اہلِ غزہ کی زندگی ختم کرنے کا صہیونی منصوبہ شاید تکمیل کو پہنچ جائے۔

غزہ سے ملنے والی مصر کی سرحد پر مصری حکومت لوہے کی ایسی مضبوط دیوار تعمیر کررہی ہے جس کے ذریعے اہل غزہ کے لیے مصر میں داخل ہونے کا راستہ بند ہوجائے اور وہ حماس سے اپنے تعلق کے جرم میں اجتماعی موت کے منہ میں دھکیل دیے جائیں یا انہیں اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

مصر کی یہ دیوار اپنی نوعیت کی منفرد دیوار ہے جو دیوارِ چین سے زیادہ مضبوط اور جغرافیائی و ماحول پر ہونے والے نتائج کے اعتبار سے اس سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ دیوار پانچ سنٹی میٹر موٹی فولاد کی ایسی چادر سے بنائی جارہی ہے جو خاص اسی مقصد کے لیے امریکہ میں بنائی گئی ہے۔ امریکہ میں بنی یہ فولادی شیٹ ڈرل مشینوں کے ذریعہ بیس سے تیس میٹر گہرائی میں داخل کرکے بنائی جارہی ہے جس کا چار سے پانچ میٹر (تقریباً بارہ سے پندرہ فٹ) حصہ زمین کے اوپر ہے۔ اس طرح یہ دیوار ایک طرف زمین میں سرنگ کھودنے کا راستہ بند کررہی ہے دوسری طرف اپنی اونچائی کے سبب کود کر آنے کے امکانات کو بھی ختم کررہی ہے۔

مصر کے ذریعہ تعمیر کی جانے والی یہ فولادی دیوار ماحولیاتی اور جغرافیائی اعتبار سے بھی خطرناک نتائج کی حامل ہوگی۔ یہ دیوار فلسطینی آبی دخائر پر اثر انداز ہوگی اور وہاں کی قابلِ کاشت زمینوں پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح اس بات کا بھی اندیشہ ماہرین علم ارضیات ظاہر کررہے ہیں کہ اس دیوار سے زمین کے اندر کی تہیں پھٹ سکتی ہیں، جس کا براہِ راست اثر غزہ کی عمارتوں پر بھی پڑسکتا ہے۔

مستقبل میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ تو بعد میں سامنے آئے گا مگر قابلِ ذکر اور اہم بات یہ ہے کہ اب تک اس دیوار کی تعمیر کے دوران پچاس سے زیادہ غزہ کے ایسے لوگ جو اپنے بچوں کے لیے روٹی اور غذا کی تلاش میں مختلف سرنگوں کے ذریعہ مصر جارہے تھے ہلاک ہوچکے ہیں۔

اس دیوار سے نقصان اٹھانے والی پارٹی صرف اور صرف اہلِ غزہ ہیں۔ جن کے لیے مصر سے ملنے والی یہ دس کلومیٹر پر محیط سرحد سانس لینے کا واحد سوراخ تھی اور اسی سوراخ کے ذریعہ اہل غزہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو قائم رکھنے کی جدوجہد گزشتہ چار سالوں سے کررہے تھے۔ اب اس کارروائی کو دیکھتے ہوئے ان کی امیدیں ٹوٹ رہی ہیں اور وہ مستقبل کے تصور سے خوف زذہ ہیں۔ لیکن اس دیوار کے بعد اہلِ غزہ کا بڑا حصہ نئے عزم کا اظہار کررہا ہے اس کا خیال ہے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی اہلِ غزہ کے وقار اور ’کرامت‘ کو ترک کرکے حاصل نہیں کرنا چاہیں گے۔ اور یہی نہیں ان کا ارادہ پختہ ہے کہ وہ روٹی کے ٹکڑوں کے بدلے اپنے بنیادی حق ’انسانی وقار‘ سے دست بردار نہیں ہوں گے۔

ادھر مصر صہیونی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اہلِ غزہ کو دیوار میں چن رہا ہے مگر وہ اس پر بھی مطمئن اور خوش نہیں ہیں۔ باوجود اس کے کہ اس دیوار کا فائدہ اسرائیل اور صرف اسرائیل کو ہوگا، وہاں کے دانشوران اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دیوار اہلِ غزہ کو روک نہیںسکے گی۔ چنانچہ اسرائیلی ماہرِ علم ارضیات ’پوسی لانگوسکی‘ جو سرنگوں کی ٹکنالوجی کے ایکسپرٹ ہیں کہتے ہیں: ’’فولادی دیوار جو مصر غزہ سے ملنے والی اپنی سرحد پر تعمیر کررہا ہے وہ سرنگوں کے ذریعہ اسمگلنگ پر روک نہیں لگا سکے گی، اور یہ بھی اسی طرح ناکام ہوجائے گی جس طرح اسرائیل کی سابقہ تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔‘‘ انھوںنے مزید کہا کہ ’’بیس سے تیس میٹر گہری ٹھوس فولاد سے بنی اس دیوار کو کھودنا مشکل ہے مگر اس نے فلسطینیوں کے سامنے ایک نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے۔ اور وہ اپنی بھر پور کوششوں کے ذریعہ اس پر غلبہ حاصل کرلیں گے اور یقینا کامیاب ہوجائیںگے۔‘‘

مصر کی اس کاروائی پر پورا عالمِ اسلام احتجاج کررہا ہے۔ مختلف مسلم ممالک میں عوامی مظاہرے اور احتجاج ہورہے ہیں۔ سرکردہ سیاسی، سماجی اور دینی شخصیات مصری حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اس عمل سے باز آئے اور صہیونی کاررائیوں کا آلۂ کار نہ بنے۔

ادھر عالم عرب اور عالم اسلام کے معروف و معتبر عالم علامہ یوسف القرضاوی نے اس دیوار کی تعمیر کو شرعاً حرام قرار دیتے ہوئے اس کے اسباب واضح طور پر بیان کیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کیونکہ اس دیوار کے ذریعہ جو مطلوب ہے، وہ محصور اہلِ غزہ کے لیے تمام زندگی کے راستے بند کرنا ہے تاکہ ان کی ناکہ بندی کو شدید، بھک مری اور تذلیل کو اور زیادہ بڑھایا جاسکے اور انہیں اسرائیل کے سامنے جھکنے پر مجبور کیاجاسکے۔

انھوں نے مزید واضح کیا کہ مصر اپنے ملکی معاملات میں آزاد ہے۔ لیکن اسے اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنی قوم اپنے بھائی اور پڑوسی فلسطینیوں کے قتل میں اسرائیل کی معاونت کرے۔ اس کے لیے نہ عرب قومیت کی حیثیت سے یہ جائز ہے، نہ اسلامی اخوت کے سبب اور نہ ہی انسانی اخوت کے تحت یہ جائز ہوسکتا ہے۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ’’تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ ظالم کے حوالے کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل ہونے دیتا ہے۔‘‘

اسی طرح رسول کی تعلیم یہ ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ اللہ کے رسول نے یہ نہیں فرمایا کہ اپنے بھائی کی ناکہ بندی کرو، اسے بھوکا مارو اور اپنے دشمن کے فائدے کے لیے اپنے بھائی پر دباؤ بناؤ۔

انھوں نے اس کارروائی کو جریمہ (جرم) قرار دیتے ہوئے اہل مصر سے اپیل کی کہ وہ حکومت پر دباؤ بنائیں کہ حکومت مصر اس سے باز آجائے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں