میں کہے جارہی ہوں سورج سر پہ چڑھ چکا ہے ، سو بار کہہ چکی ہوں ، مگر کوئی بھی ہل کے نہیں دیتا، آج یہ اچانک کیسی سستی تم سب پر سوار ہوگئی ہے۔ تم ایسے تو کبھی نہ تھے، میرے بھائی جان ،میرا بیٹا ،میرے شوہرکوئی بھی ایسا نہیں تھا، یہ آج ان کو کیا ہوگیا ہے۔ یہ اٹھتے کیوں نہیں؟ تم لوگ بہت دیر سولئے ہو، ضرورت سے زیادہ، اب اٹھ جانا چاہیے۔ کم سے کم آج کاسورج تو دیکھ لو۔ میرے نکلنے سے پہلے ساتھ بیٹھ کر کچھ بات تو کرلو۔
میں کہتی ہوں چائے تیار ہے،ناشتہ بھی تیار ہے،جس ایشو پر آج بات کرنی ہے وہ بھی تیار ہے،کیونکہ میں زمانے سے اس کے بارے میں سوچتی رہی ہوں۔
خدایا یہ ان کو کیا ہوا،یہ کیسی سستی اچانک ان پر آپڑی؟اگر میرا دل تھوڑا اور سخت ہوتا،تھوڑا اور… تومیں تم پر پڑی چادریں کھینچ دیتی اور ہوا میں اڑادیتی۔ان سے آندھی بنادیتی،مگر میرا دل تیار نہیں ہے۔سدا کانرم دل۔
بھائی جان یہ بات آپ کے سوا اور کون مجھ سے کہتا تھا،مجھ سے زیادہ محبت کرنے والے بھائی جان،جب سب نے مجھے چھوڑدیا تب بھی آپ مجھے چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے،جب سب چلے گئے۔کوئی اردن کوئی شام اور کوئی تو سویڈن تک جاپہنچا۔
آپ کو یاد ہے، جب لوگ سمتیں تلاش کر رہے تھے اور وہاں سے آرہی آوازوں پر کان لگائے تھے،آپ نے ان سے کہا تھا:’’میں جانتا ہوں ہر سمت تم میںسے کسی کو بلارہی ہے،اور وہ صرف اسی سمت کی آواز سنے گا ،بقیہ کسی کی نہیں،اور اس آواز کا تعاقب کرتے کرتے اسی میں گم ہوجائے گا۔‘‘خدا کی پناہ آپ اس وقت کتنے فلسفی لگ رہے تھے،اور جب لوگوں نے مذاق کے لہجے میں تم سے کہا:’’استاذ مصطفی تم کو کون سی سمت آواز دے رہی ہے۔‘‘آپ نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے کہا: زمین سمت نہیں ہے،زمین تو جگہ ہے۔ سمتیں تو اس کے اوپر ہوتی ہیں۔
آپ نے کہا:’’ ساری سمتیں یہاں آکر ملتی ہیں اس کے اندر ،اور جو اس کا مالک ہوتا ہے وہ ساری سمتوں کا مالک ہوتا ہے۔ ‘‘
واللہ اس دن سے آپ کی وہ بات میرے کانوں میں رس گھول رہی تھی ،اس لئے نہیں کہ آپ میرے ساتھ رہیں گے۔ یہاں غزۃ میں،میری شادی کے بعد۔جب سب نے چاہا کہ میں یہاں اکیلی رہوں ،تنہا پیڑ کی طرح،بے سہارا،جب میں ماں بھی نہیں بنی تھی،نہیں وہ بات مجھے اچھی لگی اور اُسے رندہ کو بھی تو اچھی لگی تھی،رندہ کو،جب میں نے اسے بتایا تو وہ کہنے لگی، کیا اسے لکھ لینے کی اجازت ہے۔
میں نے کہا اجازت ہے،اور اس نے اپنی ڈائری میں لکھ لیا۔
میرے کتنے بھائی جان تھے،آہ بتائیے نا کتنے بھائی جان؛بھائی جان جنہوں نے اصرار کرکے مجھے یونیورسٹی سے گریجویشن کرایا،کیا مجھے ان کی بات سمجھ کر اس پر خوش ہونا نہیں چاہئے تھا۔
معاف کیجئے گا بھائی جان!مگر میں آپ سے کہوں گی،جسے اپنی اولاد کا ڈر یہاں سے کھینچ کر نہیں لے گیا،اسے اس کا خواب کھینچ لے گیا،کہ وہ غزہ سے دور یہاں کے آلام ومصائب سے بہت دور وہ ایک دنیا آباد کرسکے۔نہیں آپ میری بات کا غلط مطلب مت نکالئے،مجھے یقین ہے اگر آپ اس وقت شادی شدہ بھی ہوتے ،اور آپ کے بچے بھی ہوتے تب بھی آپ یہیں رہتے،میرے ساتھ،اگر بیس بچے بھی ہوتے تب بھی ان کے سلسلے میں ہر اندیشے کو بالائے طاق رکھ کر آپ یہیں رہتے،آپ نے خود کہا تھا۔آمنہ کو ہم کس کے سہارے چھوڑیں گے؟
میں جانتی ہوں کہ میں نے یہ نہیں سنا،لیکن یقینا آپ نے ان سے کہا تھا،اور وہ دل سے یہی چاہتے تھے کہ آپ میرے ساتھ یہاں رکنے کی کوئی اور وجہ بتائیں،آپ اپنی اکلوتی سمت کی طرف اشارہ کریں، آپ کی سمت جہاں ساری سمتیں آکر مل جاتی ہیں، تاکہ وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرسکیں،وہ ایک دوسرے کے کان میں سرگوشی کررہے تھے کہ کم ازکم کوئی یہاں ہے تو ہماری بہن کی رکھوالی کے لئے۔
اور آپ رک گئے۔بالکل رک گئے۔آپ نے انہیں ایک فلسطینی حکایت کا حوالہ دیا،کہ اللہ انسان کو دو مٹیوں سے بناتا ہے،ایک اس جگہ کی مٹی جہاں وہ پیدا ہوا اور ایک اس جگہ کی مٹی جہاں اس کو مرنا ہے۔ آپ کو پہلے سے معلوم ہوگیا تھاکہ ہم صرف اسی ایک مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں،اسی جگہ ہم پیدا ہوئے اور یہیں ہم مریں گے،شاید میرے بھائیوں کی مٹی ان کو پکار رہی تھی،ان کی موت کی مٹی،اور ہمیںہماری زندگی کی مٹی پکار رہی تھی ،شروع سے،اور اتنی صاف آواز بھلا کس کو سنائی نہیں دیتی۔
آپ کو ابوجزر شہید کا قصہ تو یاد ہی ہوگا،یقینا یاد ہوگا،اس سے تو آپ کی بات کی تائید ہوتی ہے،آپ ہی بتائیں،ایک آدمی چالیس سال وطن سے دور رہا،فلسطین کے باہر بیشمار معرکے سر کئے،اور پھر فلسطین واپس آکر رفح کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
آفریں بھائی جان ؛آفریں۔
مجھے اب وہ بات سمجھ میں آئی جو آپ نے اس وقت ان سے کہی تھی،اب سمجھ میں آیا آپ نے زمین کی طرف کیوں اشارہ کیا تھا۔آپ اس کی آواز سن رہے تھے،مگر آپ نے مجھے نہیں بتایا۔
وہ سب کیوں نہیں سمجھے۔
میں جانتی ہوں،آپ تو ہمیشہ ان سب سے دس قدم آگے رہتے تھے،میں مبالغہ نہیں کررہی ہوں، اور مبالغہ آرائی پسند بھی نہیں کرتی، زمانہ میرے ساتھ کافی سے بھی زیادہ مبالغہ آمیز ہوچکا ہے،آپ کم ازکم دس قدم ان سے آگے رہتے تھے، آپ کو یاد ہے؟ جب جمال میرا رشتہ مانگنے گھر آیا تھا،اور ابو جان سے اسے بات کرنی پڑی تھی،اس سے جب ابو نے پوچھا کہ لڑکی کو کس طرح جانتے ہو؟،تو وہ بدحواس ہوگیا تھا،وہ سوال کوئی غیرمتوقع تو نہیں تھا،ہر لڑکی والے یہ جاننا چاہیں گے۔
مگر وہ بیچارہ بدحواس ہوگیا،اس نے مجھے بتایاکہ آسمان میرے سر پر پھٹ پڑا تھا،اور تھوڑی دیر بعد انکشاف ہوا کہ آسمان میں گھنے بادل بھی تھے،وہ اس واقعہ کو یاد کرکے ہنس رہاتھا،آمنہ میں پانی میں ڈوب گیا تھا،نہیں وہ پسینہ نہیں تھا،اگر پسینہ ہوتا تو محسوس ہوجاتا کہ کپڑوں کے نیچے سے برآمد ہورہا ہے، وہ پانی تو ہر طرف سے امنڈ کر آرہا تھا۔
ابو جان نے پوچھا ؛تم اس سے محبت بھی کرتے ہو؟
درخواست گذارنے اس بار تھوڑی سی جرأت کی اور کہا: کیا آدمی کو ایسی لڑکی سے شادی کرنی چاہئے جس سے وہ نفرت کرتا ہو۔
تم میرا مذاق اڑاتے ہو۔
ہاں ابوجان چراغ پا ہوگئے،مجھے نہیں کرنی ہے اپنی لڑکی کی شادی۔
اس وقت صرف آپ میرے ساتھ کھڑے ہوئے،صرف آپ تھے جس نے سادہ سی بات کہہ کر مجھے ڈھارس دی،فکر مت کرو۔
میں فکر نہ کروں،میں کیسے فکر نہ کروں،آج اس سے شادی نہیں ہوگی تو کب ہوگی؛جب وہ مصر سے لوٹ کرآئے گا؛ابھی تو ڈگری ملنے میں چار سال ہیںاللہ بہتر جانتا ہے کہ چار سال میں کیا ہوگا۔
آپ نے پھر وہی بات دہرائی ،فکر مت کرو؛
میں نے سوچا کہ جب آپ بار بار یہی بات کہہ رہے ہیں تو اس کا مطلب بھی سمجھتے ہوں گے،پھر میں نے دوبارہ اس بات کو نہیں چھیڑا۔
ٓٓآپ نے مجھ سے کہا: اس کے گھر والوں سے تعلق ختم مت کرو،ان کے یہاں جایا کرو،وہ تمہیں چاہتے ہیں،ان کے ساتھ ایسے رہو کہ گویا تم فرد خانہ ہو،ان کے بیٹے کی منگیتر ہو،اور مستقبل کی دلہن ہو۔
یہ ٓٓآ پ کا مشورہ ہے؟
ظاہر ہے۔
مگر ابوجان تو دیکھ کر پاگل ہوجائیں گے۔
پاگل ہوجائیں گے؟نہیں، مجھے یقین ہے، ہاں اگر جمال غزہ میں ہوتے تو وہ پاگل ہوجاتے،مگر وہ تو مصر میں ہیں۔ آپ نے جو کہا تھا وہی سب کچھ ہوا،پہلے وہ بہت ناراض ہوئے،برا بھلا کہا،مگر جب آپ نے کہاکہ جمال تو مصر میں ہے ،وہ تو اس کی بہنوں سے ملنے جاتی ہے،اپنی سہیلیوں سے،انہوں نے کہا کچھ بھی ہو میں نے کہا اسے نہیں جانا چاہئے،یعنی نہیں جانا چاہئے۔
مگر میں ان طویل برسوں کے دوران اپنے گھر سے زیادہ انہی کے گھر رہی،دھیرے دھیرے انہوں نے پوچھنا بھی بند کردیا کہ تم کہاں تھیں،وہ دیکھتے تھے کہ میں جب تک وہاں رہتی ہوں خوش نظر آتی ہوں،اللہ ان پر رحمت کا سایہ کرے،وہ خود کو سخت گیر ظاہر کرنا کیوں ضروری سمجھتے تھے،اس کے سوا اور کیا وجہ تھی کہ وہ باپ تھے،اور یہ کہ ہماری فکریں پہاڑوں سے بھاری ہوتی ہیں۔
اور ایک دن انہوں نے مجھے بلایا اور کہا،بیٹی اس سے شادی کرلو،لڑکی کے لئے سب سے اچھا گھر وہ ہے جہاں شوہر کے گھر والے اسے اپنے بیٹے سے زیادہ مانتے ہوں،مجھے یقین ہوگیا کہ وہ سب تمہیں بہت چاہتے ہیں۔
پھر وہ دیر تک خاموش رہے،پھر بولے :لیکن یہ کہ وہ آکر کہے کہ میں ۔۔۔سے محبت کرتا ہوں تو یہ جائز نہیں ہے،سمجھی۔
میں نے کہا:جی
اور تب وہ ہنسنے لگے ،اور پھر ہنستے ہی ہنستے ہم سب کو الوداع کہہ گئے۔
اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
اور میں تو ہنستی ہی چلی جارہی ہوں ،مجھے لگتا ہے میری ہنسی تمام جائز حدوں کو پار کرچکی ہے۔
اب مجھے تھوڑی دیر رولینا چاہئے۔
ارے میں تو رونے لگی؛؛ مگر مجھے نہیں معلوم میں خوشی کے آنسو پونچھ رہی ہوں کہ غم کے آنسو؛بخدا تم لوگوں نے مجھے پاگل بنادیا۔
ارے اللہ کے بندو!
سورج سر پر آگیا ہے،آج یہ اچانک کیسی سستی تم سب پر سوار ہوگئی ہے ، تم ایسے تو کبھی نہ تھے، میرے بھا ئی جان! میرے شوہر!میرا بیٹا! کوئی بھی ایسا نہیں تھا، یہ آج ان کو کیا ہوگیا ہے، یہ اٹھتے کیوں نہیں، تم لوگ بہت دیر سولئے ہو، ضرورت سے زیادہ، اب اٹھ جانا چاہئے،کم سے کم آج کاسورج تو دیکھ لو، میرے نکلنے سے پہلے ساتھ بیٹھ کر کچھ بات تو کرلو۔
بھائی جان؛سنئے بھائی جان ؛یہ تو مت بھولئے کہ آپ کو میرے ساتھ چلنا ہے،آپ لڑکے کے ماموں ہیں،ارے بیٹا صالح،اٹھو،سورج دیکھ لو،یہ تمہارے نئے سال کا سورج ہے،تمہاری خوش نصیبی کا پیغام بر،ارے کاہل،بے وقوف،آج تو بدلی بھی نہیں ہے ، دھند بھی نہیں ہے ،تمہیں کیا پتہ آج کے سورج کا مجھے کب سے انتظار تھا۔
کب سے؟ مجھے بھی نہیں پتہ،میں انگلیوں پر دن گنتی تھی ،مگر میں حیران تھی کی میری انگلیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں،میں گنتی رہی دن رات گنتی رہی،پھر اچانک رک گئی،اس وقت مجھ پر انکشاف ہوا کہ تم بڑے ہوگئے ہو۔
اور اب میں تم سے راز کی بات کہہ رہی ہوں، مگر کسی کو بتانا مت،مٹی کو بھی مت بتانا،ہوا اس کے بھید جان لیتی ہے،میں نے دیر تک سوچا،بہت دیر تک سوچا،اس سے اچھا رشتہ میری نظر میں نہیں ہے،میں اسے دلہن بناکر لے آؤں گی۔
نہیں اٹھتے؛چلو تمہاری مرضی۔
چائے بھی ٹھنڈی ہوگئی،پتہ نہیں میں خود کو کیوں ہلکان کررہی ہوں۔
بھائی جان؛آپ نہیں اٹھتے تو ٹھیک ہے، میں اکیلے ہی پیغام لے جاؤں گی۔
نہیں اٹھیں گے۔
ٹھیک ہے۔
مگر سنئے،اگر صالح میرے آنے سے پہلے اٹھ گیا تو اسے بتائیے گا مت ؛بالکل مت بتائیے گا۔
میں اسے سرپرائز دینا چاہتی ہوں نا۔
——