الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسولہ اللہ، وعلی آلہ وصحبہ، ومن تبع ہداہ، أما بعد۔
یہ فتوی دراصل اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) اور یورپین افتاء کونسل کے علماء کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا،جنہوں نے اس کو میرے پاس ارسال کیا ہے۔
اسلامک کونسل برائے افتاء (فلسطین)کے ذمہ دارں کی جانب سے ارسال کردہ سوال میں نے دیکھا، میرا جواب درج ذیل ہے:
اول- طلاق بدعی کا حکم:
طلاق بدعی وہ ہے جو اپنے وقوع کے طریقہ کے لحاظ سے سنت کے خلاف ہو،اس طورپر کہ آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے اس سے ہمبستری کی ہو،یاحیض ونفاس کی حالت میں طلاق دے ،اورعلماء اس کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔
اور جمہور علماء ایسی حالت میں دی گئی طلاق کے وقوع کے قائل ہیں،اگرچہ یہ عمل حرام ہے،اور یہ علماء شوہر کے حق میں اس بات کو مستحب سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے بعد اپنی بیوی سے رجوع کرلے،اور بعض تو رجوع کو واجب قرار دیتے ہیں،جیسا کہ یہ امام مالک ؒ اور ایک روایت کے مطابق امام احمدؒ کا مسلک ہے،ان کا مستدل صحیحین میں منقول ابن عمر کی وہ حدیث ہے،جس میں آتا ہے کہ:’’انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، تو حضور ﷺ نے ان کو رجوع کرلینے کا حکم فرمایا۔[بخاری،حدیث نمبر:۵۲۵۸،مسلم،حدیث نمبر: ۱۴۷۱، دونوں میںکتاب الطلاق،نیز دیکھئے: ردالمحتار: ۳؍۲۳۳، حاشیۃ الدسوقی:جلد۲، ص ۲-۳۶۱ الفتاوی الکبری لابن تیمیہ:ج۳؍۵۲۲]، اور صیغہ امر بغیر کسی قرینہ کے ہو تو اکثر علماء کے نزدیک وجوب کے لئے آتاہے۔
علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ واقع نہیں ہوگی، چوںکہ یہ ایسی طلاق ہے جس کو اللہ نے مشروع نہیں کیا ہے، اور نہ اس کی اجازت دی ہے، لہٰذا وہ اللہ کی شریعت نہیں ہے، تو پھر اس کے صحیح ہونے اور اس کے نفاذ کی بات کیسے کہی جاسکتی ہے، جب کہ صحیح حدیث میں آیا ہے: ’’ترجمہ: جس نے بھی کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقہ کے خلاف ہووہ ناقابل قبول ہے‘‘ [بخاری،باب الصلح،حدیث نمبر:۲۶۹۷،مسلم،کتاب الاقضیہ،حدیث نمبر:۱۸۱۷، مسنداحمد، ابوداود، امام ابن قیمؒ کا بھی یہی مسلک ہے۔
جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اخیر والی رائے کو قوی ہونے کی بناء پر راجح قرار دیتا ہوں،اور اس وجہ سے بھی چونکہ خاندان کے تحفظ سے متعلق شریعت کے مقصد کی تکمیل کا یہی راستہ ہے،اور یہ شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔
دوم- غصہ کی طلاق کا حکم:
یہ مسئلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے،چونکہ غصہ ان اہم کیفیات وحالات میں سے ہے جو انسان پر طاری ہوتے ہیں،اور اس کا حکم معلوم کرنا نہایت اہم کام ہے۔ ہم اس کے حکم کو اپنے اس سے پہلے شائع ہونے والے فتاوی میں بیان کرچکے ہیں،اور اس موضوع پر ابن قیمؒ کا ایک رسالہ بھی ہے،اور کوئی حرج نہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کے لئے اپنی سابقہ تحریر کا خلاصہ پیش کردیں، ہم امید کرتے ہیں کہ اس کو یورپین افتاء کونسل اور اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کی تائید حاصل ہوگی۔
وقوع طلاق کے سلسلہ میں مختلف فقہاء کے نقطہ نظر میں توسع یا تنگی کے لحاظ سے غصہ کی طلاق سے متعلق بھی ان کی آراء مختلف ہیں،اور جب مسئلہ مختلف فیہ ہو تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم دونوں فریق کے دلائل پر غور کریں،تاکہ ان میں سے جو زیادہ راجح اور مقاصد شریعت سے قریب ہوہم اس کو اختیار کرسکیں۔
قبل اس کے کہ غصہ کی طلاق سے متعلق ہم راجح اور مختار مسلک بیان کریں ،ضروری سمجھتے ہیں کہ اس غصہ کی کیفیت کی مختصر وضاحت کردیں جس کے سلسلہ میں دونوں فریق کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے،علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
غصہ کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم:یہ کہ انسان پر غصہ کی ابتدائی کیفیات طاری ہوں ،اس طور پرکہ اس کے ذہن ودماغ پر اس کا کوئی اثر نہ پڑے،اور اپنی بات اور قصدوارادہ کو سمجھ سکتا ہو،تو ایسی صورت میں طلاق کے واقع ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے،کیونکہ ایسی صورت میں اس کا غلام کو آزاد کرنا اور عقد کرنا درست ہوجا تا ہے،بطور خاص اس وقت جب کہ اس کی جانب سے طلاق غوروفکر کے بعد دی گئی ہو۔
دوسری قسم:یہ ہے کہ غصہ اپنی انتہاء کوپہنچ جائے، حتی کہ اس کے قصدوارادہ اورجاننے کی صلاحیت جاتی رہے، اسے یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کیاکہہ رہا ہے اور اس کا قصد و ارادہ کیا ہے،تو اس صورت میں طلاق کے واقع نہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،جیسا کہ پہلے گزرا۔
اور غصہ مہلک عقل ہے،چنانچہ جب غصہ انسان کی عقل پر حملہ آور ہوتاہے تو اسے یہ معلوم نہیں رہتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، ایسے میں کوئی شک نہیں کہ ایسی حالت میں اس کے کسی قول کا اعتبار نہیں ہوگا،چونکہ مکلف کے اقوال کاا عتبار اس صورت میں ہوتا ہے جب کہ کہنے والے شخص کو اپنی زبان سے نکلنے والی بات کاعلم ہو ، اس کو یہ معلوم ہوکہ اس کے معنی کیا ہیں ،اور اس بات کو زبان سے نکالنے میں اس کے قصدوارادہ کا دخل ہونا بھی ضروری ہے ، اس سے درج ذیل قسم کے لوگ نکل گئے:
(۱) اس سے سویا ہواشخص ،مجنون ،بِرسام یعنی ذات الجنب کا مریض، نشہ میں مست اور یہ غصہ والا شخص نکل گیا۔
(۲):وہ شخص بھی نکل گیا جو اپنے بولے ہوئے لفظ کا سرے سے معنی ہی نہ جانتا ہو،تو ایسی حالت میں اس کا مفہوم ومقتضی لازم نہیں ہوگا۔
(۳):اسی طرح اس سے وہ شخص بھی نکل گیا جس سے کوئی بات زبردستی کہلائی گئی ہو،اگرچہ کہ وہ اس کا معنی سمجھ رہا ہو۔
تیسری قسم:ایسا شخص جو غصہ کی دونوں انتہائوں کے درمیان ہو،یعنی اس کے غصہ کی ابتدائی کیفیت میں شدت آجائے لیکن آخری انتہاء کو نہ پہنچے کہ مجنون ہی ہوجائے، یہی صورت مختلف فیہ اور محل نظر ہے،اور شرعی دلائل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی طلاق ،اس کا عتاق (غلام کوا ٓزاد کرنا) اور اس کا عقد نافذ نہ مانے جائیںکہ ان چیزوں میں اختیار اور رضامندی کا ہی اعتبار کیا جاتا ہے،اور یہ’’ اغلاق‘‘ کی ہی ایک قسم ہوئی، جیسا کہ ائمہ نے وضاحت کی ہے۔ [اغاثۃ اللہفان،ص:۴۱]
اور میں جس رائے کو ترجیح دیتا ہوں وہ یہ ہے کہ غصہ کی طلاق واقع نہیں ہوگی،اور میں ان لوگوں میں ہوں جن کے نزدیک وقوع طلاق کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں، طلاق غضبان بھی انھیں صورتوں میں ہے جن میں طلاق واقع نہیں ہوتی، اوراس کی تائید درج ذیل دلائل سے ہوتی ہے:
(الف)حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لا طلاق ولا عتاق فی اغلاق‘‘ یعنی (اغلاق میں طلاق اور عتاق معتبر نہیں)۔ [حاشیہ:مسند احمد، حدیث نمبر:۲۶۳۶۰،اس کی تخریج کرنے والوں نے اس کی سند کو ضعیف بتایا ہے،مزید حوالہ جات: ابو داود، حدیث نمبر:۲۱۹۳،ابن ماجہ،حدیث نمبر:۲۰۴۶، حاکم: جلد۲، ص۱۹۸۔ [کتاب الطلاق]،شیخ البانیؒ نے اس کو’’ صحیح ابوداود‘‘ میں حضرت عائشہ ؓ کی سند سے حسن بتایا ہے۔
اور امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:وہ غصہ ہے،اور بعض ماہرین لغت کا کہنا ہے کہ اغلاق کی دوقسمیں ہیں؛ایک اکراہ،اور دوسری یہ کہ انسان پر ایسی کیفیت طاری ہو کہ اس کی رائے مغلق ہوکررہ جائے۔
امام بخاریؒ کی تبویب کا بھی یہی تقاضہ ہے،چنانچہ وہ اپنی صحیح میں اس طرح باب باندھتے ہیں:’’باب الطلاق فی الاغلاق (الغضب) والکرہ (الاکراہ)، و السکران، والجنون‘‘ کہ اغلاق یعنی غصہ اوراکراہ اورنشہ اور جنون کی حالت میں طلاق دینے کا باب، انہوں نے اغلاق میں طلاق دینے اور ان دیگر حالتوں کے درمیان فرق کیاہے،جس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ ان کے نزدیک اغلاق سے مراد غصہ ہے۔
ابن قیم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہی دیگر ائمہ لغت کا بھی قول ہے۔
(ب) اللہ تعالی کا ارشاد ہے: لایؤاخذکم اللہ باللغو فی أیمانکم ولکن یؤاخذکم بما کسبت قلوبکم یعنی (جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھالیا کرتے ہو،ان پراللہ گرفت نہیں کرتا،مگر جوقسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو،ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا)۔ [البقرہ:۵۲۲]
میں (قرضاوی) نے کہا:یہ حدیث امام احمدؒ، ابوداودؒ، ابن ماجہ ؒ نے روایت کی ہے،اور حاکم ؒ نے مسلم ؒ کی شرط کے مطابق اس کو صحیح قرار دیا ہے۔
حاکم ؒ نے حضرت عائشہؓ کی سند سے اس کو دو طرق سے روایت کیا ہے،اور کہا : یہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے، حالانکہ امام ذہبی ؒ نے اس کے جواب میں کہا کہ اس کے ایک طریق میں محمد بن عبید بن ابی صالح ہے جس سے امام مسلم روایت نہیں لیتے،اور ابو حاتم نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے،اور دوسرے طریق میں نعیم بن حماد ہیں جو منکر روایتوں کو نقل کرتے ہیں۔
میں (قرضاوی)کہتا ہوں:جہاں تک محمد بن عبید کا تعلق ہے تو ابن حبان نے انھیں ثقات میں شمار کیا ہے جیسا کہ تہذیب میں بھی ہے،چنانچہ اس راوی کی تضعیف پر اجماع نہیں ہے،بطور خاص ابوحاتم نے تضعیف کی وجہ بیان نہیں کی ہے،اور جہاں تک نعیم بن حماد الخزاعی کا تعلق ہے تو ان کی روایتیں بخاری ،مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہیں،اور وہ ان رجال میں سے ہیں جن سے حدیثیں نقل کرنے پر بخاری پر بھی تنقید کی گئی ہے، فتح الباری کے مقدمہ میں ابن حجرؒ ان کے سلسلہ میں لکھتے ہیں: ’’بڑے حفاظ حدیث میں سے مشہور ہیں، بخاری نے ان سے ملاقات کی ہے،لیکن بخاری نے ان سے اپنی صحیح میں صرف ایک یا دوجگہ روایت نقل کی ہے، اور کچھ باتیں ان سے تعلیقا بھی نقل کی ہیں،اور مسلم نے ان سے اپنے مقدمہ میں ایک جگہ روایت کی ہے، اور نسائی کے علاوہ سنن کے مصنّفین نے بھی ان سے روایت کی ہے،امام احمد ان کی توثیق کیا کرتے تھے، ابن معین کا قول ہے:وہ اہل صدق میں سے تھے،ہاں کبھی کبھار بعض چیزوں میں انھیں وہم ہوجایا کرتا تھاجس کی وجہ سے غلطی بھی ہوجاتی تھی۔ عجلی نے ان کو ثقہ کہا ہے، ابوحاتم نے صدوق کہا ہے،اور نسائی نے ضعیف کہا ہے، اور ابوبشر الدولابی نے ان کی طرف وضع حدیث کی نسبت کی ہے،لیکن ابن عدی نے (ابوبشر الدولابی پر)نقد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دولابی ان کے سلسلہ میںمتعصب تھے،چونکہ وہ اہل الرائے کے حق میںسخت واقع ہوئے تھے،اور یہی درست بات ہے، واللہ اعلم‘‘ [ھدی الساری:۲؍۷۱۲]، اور بیہقی نے اپنی سنن میں اس حدیث کو حضرت عائشہؓ کی سند سے تیسرے طریق سے روایت کی ہے، [سنن البیہقی: ۷؍۳۵۷]، برخلاف اس کے جو ابن حجر نے تلخیص میں ذکر کیا ہے۔
اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس حدیث کے مختلف طرق کو جمع کیا جائے تو صحت کے اس درجہ سے نیچے نہیں جاتی جس کا حاکم نے دعوی کیا ہے،اور اس پر ابن قیم علیہ الرحمہ وغیرہ نے ان کی تائید کی ہے، اگر اس روایت کا درجہ اتنانہ ہوتب بھی وہ حسن درجہ کی ضرور ہے جس سے استدلال کیا جاسکتا ہے،ابوداود نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے۔بیہقی نے مذہب شافعی کے حق میں اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلاق مکرہ واقع نہیں ہوگی اگر اس کی بنیاد اغلاق کی اس تشریح پر ہو جس میں اس کا مفہوم اکراہ بتایا گیا ہے،اور یہ تشریح اس کے منافی نہیں ہے کہ اس کی تشریح غصہ سے کی جائے، ابودواد نے اغلاق کے بارے میں کہاہے:میرا گمان ہے کہ وہ غصہ ہے۔
ابن جریر طبریؒ نے ابن عباس ؓ کے جلیل القدر شاگردطاؤس کا قول نقل کیا ہے کہ :’’کوئی شخص اگر غصہ کی حالت میں قسم کھائے تو اس پر کفارہ نہیں ہے‘‘،اور انہوں نے اسی آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے۔ [تفسیرطبری:۴؍۴۳۸]
ابن قیمؒ فرماتے ہیں:’’امام مالک ؒ کے مسلک میں بھی ایک قول یہی ہے کہ غصہ کی حالت میں کھائی جانے والی قسم لغو ہے،اور یہی رائے سب سے جلیل القدر مالکی عالم اور فقیہ قاضی اسماعیل بن اسحاقؒ کی بھی ہے،اور میرا رجحان بھی اسی طرف ہے کہ جو شخص غصہ میں ہو اس کی قسم منعقد نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ [اغاثۃ اللہفان:۱؍۷۲-۱۳]
(ج) جب موسی ؑ اپنی قوم کی طرف غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے واپس آئے تو قرآن نے اس کو اس طرح بیان کیا ہے : ’’وألقی الألواح و أخذ برأس أخیہ یجرہ إلیہ‘‘ یعنی (تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر اسے کھینچنے لگے)۔ [الاعراف:۰۵۱]
اس آیت سے استدلال اس طرح ہے کہ موسی ؑ ایسے نہیں تھے کہ ان تختیوں کو پھینک دیں جن کو اللہ تعالیٰ نے لکھا تھا،اسی طرح وہ اپنے اس بھائی کے ساتھ سختی سے پیش آئیں جو خود ان ہی کے مثل نبی تھے،بلکہ اس پر تو انھیں ان کے غصہ نے آمادہ کیا تھا،اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو معذور سمجھتے ہوئے ان کے کئے پر ان سے عتاب کا معاملہ نہیں کیا،چونکہ اس کا بنیادی سبب ان کا وہ غصہ تھا جو ان کے دسترس اور اختیار سے باہرتھا،اور وہ غصہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی تھا۔
(د)اسی سورت کی ایک دوسری آیت سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے: ’’ولما سکت عن موسی الغضب أخذ الألواح‘‘ (اور جب موسی ؑ کا غصہ فرو ہواتو ان تختیوں کو اٹھالیا) [الاعراف:۴۵۱]، اس کو ’’سکت‘‘ یعنی خاموش ہونے سے تعبیر کیا،گویا کہ غصہ کو ایک حکم دینے والے منع کرنے والے بادشاہ کی حیثیت دی گئی، جو انسان سے کہتا ہے: فلاں کام کر یا فلاں کام نہ کر، چناںچہ انسان اپنے اوپر مسلط ہوچکے غصہ کی بات مان لیتا ہے، اس طرح تو وہ مکرہ سے بھی زیادہ اس بات کے لائق ہے کہ اس کو معذور سمجھاجائے۔
(ھ)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ولو یعجل اللہ للناس الشر استعجالہم بالخیر لقضی إلیہم أجلہم (اور اللہ تعالیٰ لوگوں پر (ان کے جلدی مچانے کے موافق)جلدی سے نقصان واقع کردیا کرتاجس طرح وہ فائدہ کے لئے جلدی مچاتے ہیں،تو ان کا وعدہ (عذاب) کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا)۔ [یونس:۱۱]۔
اس آیت کی تفسیر میں مجاہدؒ سے منقول ہے کہ :انسان جب اپنی اولاد سے غصہ ہوتا ہے توان کے اور ان کے مال سے متعلق یہ کہہ بیٹھتا ہے:اے اللہ !ان پر لعنت ہو، اور ان کے مال میں برکت نہ ہو [تفسیر طبری:۵۱؍۴۳]، تو اللہ تعالیٰ خیر کے سلسلہ میں جس طرح انسان کی دعا کو قبول کرلیتے ہیں،اگر اسی طرح یہ دعا بھی جلد از جلد قبول کرلے تو انھیں ہلاک ہی کردے،ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: ’’توغصہ سبب ِ دعا کے انعقاد سے مانع ہوگیا،جبکہ دعا کی قبولیت میں سبب دعا کے اثرانداز ہونے کی صلاحیت زیادہ تیز ہوتی ہے بہ مقابلہ ان اسباب کے جو اپنے احکام میں اثر انداز ہوتے ہیں،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی غصہ میں ہوتا ہے وہ اپنے دل سے کسی کام کاقصد نہیں کرتا‘‘ [اغاثۃ اللہفان،ص:۳۲]۔
(و)یقینا غصہ انسان کی سلامت فکر اور اس کے ادراک کی صلاحیت کو متاثر کردیتا ہے،اور معاملات کا سمجھنا اور چیزوں سے متعلق فیصلہ کرنا اس پر دشوار کردیتا ہے، اسی وجہ سے حدیث میں آیا ہے: لایقضی القاضی وہو غضبان یعنی (قاضی اس وقت فیصلہ نہ کرے جب وہ غصہ کی حالت میں ہو)۔ [بخاری:کتاب الاحکام، حدیث نمبر:۸۵۱۷،مسلم:،کتاب الاقضیہ، حدیث نمبر:۷۱۷۱]
اور طلاق بھی مرد کا اپنی بیوی کے خلاف ایک فیصلہ ہوتا ہے، تویہ جائز نہیں کہ یہ(فیصلہ)اس سے غصہ کی حالت میں صادر ہو،اور اگر صادر ہوہی جائے تو مناسب ہے کہ عورت اور خاندان کے تحفظ کی خاطر اس کو غیر معتبر تسلیم کیا جائے۔
(ز)نشہ کی طلاق کو واقع نہ ماننے کے اکثر دلائل غصہ کی طلاق پر بھی منطبق ہوتے ہیں،بلکہ دوسرا (یعنی غصہ میں بے قابو شخص)پہلے والے (یعنی نشہ میں بدمست شخص) سے بھی بدتر صورتحال میں ہوسکتا ہے، چوںکہ جو شخص نشہ میں دھت ہو وہ اپنی جان نہیں لے سکتا اور اپنے بچہ کو بلندی سے نہیں پھینک سکتا،اورغصہ میں بے قابو شخص ایسا کرسکتا ہے۔
(ح)ایک شرعی اصول ہے:انسان کے نفسیاتی عوارض کا اس کے قول پر اثر پڑتا ہے ،اس لحاظ سے کہ اس کے اس قول کا اعتبار کیا جائے یا لغو قراردیا جائے، مثلا نسیان، غلطی، اکراہ، نشہ، جنون، خوف، غم اور غفلت و ذہول جیسے عوارض۔ لہٰذا ان عوارض میں مبتلا اشخاص سے کسی سے بھی ایسی بات کا صدور ممکن ہے جو عام حالات میں دوسروں سے ممکن نہیں،اور ان معذورین کو اس کی وجہ سے ان چیزوں میں معذور سمجھا جاسکتا ہے جن میں دیگر لوگوں کو معذور نہیں سمجھا جائے گا،چونکہ ان میں قصدوارادہ نہیں پایا جاتا،اوران میں کسی بات پر آمادہ کرنے والاکوئی معقول سبب بھی موجود نہیں ہوتا ہے۔
اسی بناء پر جب کوئی صحابی ؓ کسی نذر ماننے والے سے پوچھتے کہ تم نے یہ بات خوشی (یعنی غصہ وغیرہ جیسے نفسیاتی دباؤکے علاوہ انسان کی عام حالت)میں کہی تھی یا غصہ میں؟ اگر وہ کہتا کہ میں نے غصہ میں کہی تھی،تو اسے کفارۂ یمین ادا کرنے کا حکم دیتے،چونکہ غصہ سے انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ اس کا مقصد کسی کام پر ابھاردینا یا اس سے روکنا ہے جیسا کہ قسم میں ہوتا ہے ،نہ کہ اس کا مقصد اللہ کاتقرب حاصل کرناہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے غصہ کو انسان کے اپنے آپ پر اور اپنے اہل وعیال پر بد دعا کے قبول ہونے سے مانع بنا دیا ہے، اور اس نے اکراہ کو کسی شخص کے کلمۂ کفر ادا کرنے کے باوجود اس کی تکفیر سے مانع بنادیا ہے،اسی طرح اس نے خطا اور نسیان کو کسی انسان کے قول یا فعل کی بناء پر مواخذہ کرنے سے مانع بنادیا ہے۔
اور غصہ کا عارضہ کبھی کبھی ان تمام عوارض سے زیادہ طاقت ور ہوسکتا ہے،تو اگر ان میں سے کسی عارضہ کی وجہ سے اس کے قول کے مقتضی کو قصدوارادہ کے نہ ہونے کی بناء پر لغو مانا جاسکتا ہے، تو جوشخص غصہ میں ہوتا ہے وہ بھی اپنے قول کاارادہ نہیں کرتا ہے، چناںچہ اگر وہ معذور سمجھے جانے کے لحاظ سے ان سے(یعنی مذکورہ بالادیگر عوارض میں مبتلااشخاص سے) بڑھا ہوا نہیں ہے تو ان سے کم بھی نہیں ہے۔
غصہ کا پیمانہ
دلائل وشواہد کی روشنی میں ہم نے جب غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق کے واقع نہ ہونے کو ترجیح دی ہے،تویہ ضروری ہے کہ ہم اس پیمانہ سے بھی اچھی طرح واقف ہوں جس کے ذریعہ سے ہم اس غصہ کی حالت کی حدبندی کرسکتے ہیں جس میں طلاق دی جاتی ہے، چوںکہ اس طرح کے معاملہ کو بغیرکسی ضابطہ اور قاعدہ کے یونہی چھوڑدینا سخت اضطراب وانتشار اور بے چینی کاسبب بن سکتا ہے۔
ہم امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور ان سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھتے ہیں کہ ان دونوں کا رجحان یہ ہے کہ غصہ کا پیمانہ قصدوارادہ اور علم کا مفقود ہونا ہے، تو جس شخص کو طلاق دیتے وقت اپنے قصد و ارادہ کا اختیار نہ رہے، نہ ہی اسے اپنی کہی ہوئی بات کا علم ہو تو وہ اغلاق (مجبوری اور دباؤ )کی حالت ہے جس میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔
لیکن علامۂ احناف شیخ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ اپنے مشہور حاشیہ ردالمحتار علی الدرالمختار میں ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی غصہ کے تین احوال کی تقسیم کے متعلق گفتگو نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں:
’’واضح رہے کہ غصہ میں مبتلا شخص(اوراسی طرح مدہوش وغیرہ)کی طلاق واقع نہ ہونے کے سلسلہ میں یہ ضروری نہیںکہ وہ ایسی حالت کو پہنچے جس میں اسے اپنی بات کا علم نہ رہے،بلکہ صرف ہذیان کا غلبہ، اور اس کے اقوال و افعال جو وہ عادتاً نہیں کیا کرتا میں خلل کا غلبہ ہونا اسی طرح اس کا سنجیدگی اور مذاق میں فرق نہ کرنا کافی مانا جائے گا، تو یہی اس حکم کی علت ہے جس پر اعتماد کیا جانا چاہئے،چناںچہ انسان جب تک ایسی حالت میں رہے کہ اس کے اقوال وافعال میں خلل کا غلبہ رہے اس وقت تک اس کے اقوال کااعتبار نہیں ہوگا،چاہے وہ اپنے ان اقوال کا علم رکھتاہو اور اس کا قصدوارادہ بھی شامل ہو،چونکہ اس طرح کا علم اور قصد صحیح ادراک نہ ہونے کی وجہ سے غیرمعتبر ہے،جیسا کہ صبی عاقل کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔‘‘ [حاشیہ ابن عابدین:۲؍۵۸۷]
میں سمجھتا ہوں کہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دقیق پیمانہ اور نہایت درست ضابطہ ذکر کیا ہے، چناںچہ غصہ(جس کا اس مسئلہ میں اعتبار ہے)وہ ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی گفتگو اور تصرفات میں توازن کھو بیٹھے، وہ یوں کہ وہ ایسی بات کہے یا ایسا کام کرے جو اس کے مزاج کے خلاف ہو اور اطمینان وسکون کی عام حالت میں وہ اس کی عادت میں بھی شامل نہ ہو۔
ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ یہاں ایک دوسری علامت کا اضافہ کریں جس کے ذریعہ ہم اس سلسلہ میں معتبر غصہ اور اس کے علاوہ غصہ کی دوسری حالتوں کے درمیان امتیاز کرسکیں،اس کی طرف ابن قیمؒ نے زادالمعاد میں توجہ دلائی ہے،اور وہ یہ ہے کہ انسان کو غصہ زائل ہونے کے بعد اپنے کئے پر ندامت ہو،توصرف غصہ کا اثر زائل ہونے کے بعد اس کا نادم اور شرمندہ ہونااس بات کی دلیل ہے کہ وہ طلاق دینا نہیں چاہتا تھا۔ [فقہاء کے اقوال سے مزید واقفیت حاصل کرنے کے لئے رجوع کریں:ردالمحتار ۳؍۳۴۲، حاشیۃ الدسوقی:۲؍۶۶۳،کشاف القناع: ۵؍۵۳۲، حاشیۃ الجمل: ۴؍۴۲۳، اغاثۃ اللہفان، ص:۸۳]
چند مزید باتیں:
(۱)اکثر فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ طلاق کے سلسلہ میں اصل حذریعنی ممانعت ہے،اور یہ ممانعت صرف کسی حاجت یا ضرورت کی بناء پر ہی ختم ہوسکتی ہے،اسی وجہ سے طلاق اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔ [ابوداود]
یہ حدیث رہنمائی کرتی ہے کہ زوجین کے درمیان کسی جانب سے بھی فساد انگیزی یا بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے، حدیث میں آتا ہے: ’’لیس منا من خبأامرأۃ علی زوجہا‘‘ (جس نے بھی کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف خراب کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے)۔ [مسند احمد]
اسی طرح حدیث میں عورت کو بغیر کسی وجہ کے طلاق مانگنے سے خوف دلایا گیا ہے: ’’جوعورت بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت حرام ہے۔‘‘ (مسند احمد)
ان نبوی ہدایات کی روشنی میں بہت سے فقہاء کے اجتہادات اور فتاوی سامنے آئے ہیں،جن میں خاندان کے تحفظ،اس کے ربط وضبط اور اتحادکو قائم رکھنے کی حتی الوسع گنجائش نکالی گئی ہے،چونکہ نکاح کا وجود یقینی ذریعہ سے ہوا تھا،اور یقین شک سے ختم نہیں ہوتا، بلکہ یقین صرف اپنے درجہ کے یقین سے ہی ختم ہوتا ہے،چنانچہ ضروری ہوا کہ طلاق یقینی طور پر واقع ہو تا اس وقت جب کہ اس سے متعلق حقوق وواجبات کا تحفظ ہوسکے۔
(۲)جس میں عموم بلوی ہو،کہ جس کی شکایت تمام لوگوں کو اکثر شہروں بلکہ مشرق ومغرب ہرجگہ ہو،جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے لوگوں کے دین کی کمزوری ،ان کی عدم بیداری اور خاندانی زندگی کے ساتھ ان کی بے حیثیتی اور بے توجہی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں،حتی کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جونشوونماپاتے ہیں ،بڑے ہوجاتے ہیں لیکن وہ نکاح کو صرف خواہش نفس کی تکمیل اور شہوت کی تسکین کا سامان سمجھتے ہیں،اور اس حقیقت سے ناآشنا رہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا مقدس بندھن ہے جس کی حفاظت کرنا ضروری ہے، اور یہ بندھن (جیسا کہ قرآن نے بھی اسے ’’عقدۃ النکاح‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے،یعنی نکاح کا بندھن)محض لفظ طلاق سے نہیںٹوٹ سکتا ،جب تک کہ اس سلسلہ میں اچھی طرح غور وفکر،باہمی مشورہ، تبادلۂ خیال اور عزم وارادہ نہ ہو،جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : ’’إنما الطلاق عن وطر‘‘ (طلاق تو صرف ضرورت کے وقت ہوتی ہے)۔ [بخاری نے اس کو صیغۂ جزم کے ساتھ تعلیقاً ذکر کیا ہے،کتاب الطلاق،باب الطلاق فی الاغلاق]
(۳) اس سلسلہ میں دینی اداروں کا رول ختم ہوچکا ہے یا کم از کم ماند پڑچکا ہے، جیسا کہ اس سلسلہ میں حکومتی تنظیموں کا رول اس سلسلہ میں ختم ہوچکا ہے کہ وہ لوگوں کی رہنمائی کریں، ان کے اندر بیداری پیدا کریں، چھوٹے سے ہی ان کی تربیت کریں اور بچپن ہی سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی آداب و ثقافت پر ان کی پرورش کی جائے، اور انسان کے اندر موجود ذاتی نگرانی اور دینی مانع کے عنصر کو فروغ دیں جو ا س کے تمام تر تصرفات پر کنٹرول کرسکے، لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ اس کو اپنی زندگی کا دستور بنالے اگرچہ کہ نظام حکومت غیر اسلامی ہو،اور اسے قانون کا درجہ دے اس کی پابندی کرے چاہے وہاں کوئی حکومتی قانونی نگرانی نہ ہوجو اسے اس کا پابند بناتا ہو۔
(۴)مسلک سے خروج کا مسئلہ: ایسی مناسب رائے کو اختیار کرنا شرعی حیثیت سے واجب ہے جو موجودہ دورکے لحاظ سے زیادہ بہتر ہو، اللہ تعالیٰ کی شریعت ان مسالک میں سے کسی ایک مسلک کا نام نہیں ہے، بلکہ ہروہ اجتہاد معتبر ہے جو مدلل ہو،تویہ اجتہاد اور فقہی مسالک شریعت کی طرف اپنے انتساب کے لحاظ سے برابرہیں،اور کسی امام کی رائے کو کسی دوسرے کے مقابلہ میں کوئی افضلیت حاصل نہیں ہے سوائے حجت ودلیل کی قوت و درستگی کے اور اس کی رائے لوگوں کی ضرورتوں اور زمانہ کے تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہو، اس لئے کہ اس کی حجت قوی اور اس کے دلائل زیادہ صحیح ہوں اور فقہی آراء کے درمیان انتخاب و اختیار اور ترجیح کے سلسلہ میںہمارے پیش نظر وہ چیز ہے جس سے مقاصد حق پورے ہوتے ہوں،اور مصالح خلق کا تحفظ ہوتا ہو۔
اور جب کوئی شخص فتوی کو کسی مخصوص مسلک یا مسالک اربعہ میں محدود کردیتا ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دی گئی گنجائش میں تنگی پیدا کرتا ہے۔
اور امام ابن قیم ؒ نے امت کے کسی فرد کے مسلک کی ایسی تقلید کو قبیح بدعت بتایا ہے کہ جس کے بعد اس امام کے اقوال کو لے لیا جائے اور اس کے علاوہ لوگوں کے تمام اقوال کو ترک کردیا جائے،یہ بدعت ہے جو امت میں پیدا ہوگئی،جس کا قائل ائمہ اسلام میں سے کوئی نہیں، وہ تو بہت جلیل القدر اور بلند رتبے والے لوگ تھے، اور اللہ اور اس کے رسول سے سب زیادہ واقف تھے، (وہ اس سے بری ہیں کہ)لوگوں کو اس کا پابند بنائیں۔ [اعلام الموقعین:۴؍۲۰۲]
اور یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ ہم صواب و صحت کو کسی مخصوص مسلک یا کسی مخصوص امام کے ساتھ محدود کردیں، یہ ایسی بات ہے جس کا دعوی کسی نے نہیں کیا،نہ اپنے حق میں اور نہ ہی کسی دوسرے کے بارے میں،امام احمد بن حنبل ؒکا قول ہے: ’’کون ہے جو ہرمعاملہ میں بالکل درست نتیجہ تک پہنچتا ہو؟‘‘۔ [مسائل الامام احمد بروایت ابوداود السجستانی، مسئلہ نمبر:۱۸۱۹]
اسی طرح ایک مسلک کے ماننے والوں میں بھی متقدمین اور متاخرین کے درمیان آپس میں اختلاف ہوتا ہے،اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی ایک مخصوص مسلک کی پابندی کی بات کہنا ناقابل قبول ہے،چونکہ ایک مسلک کے اندر پائے جانے والے فقہی اختلافات دیگرمعتبر فقہی مسالک کے درمیان پائے جانے والے آپسی اختلافات ہی کے مشابہ ہیں۔
شیخ محمود شلتوت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی شخص پر یہ لازم نہیں کیا کہ وہ کسی ایک متعین فقیہ کے مسلک کی ہی پابندی کرے،چنانچہ اس کو واجب قراردینا ایسا ہے گویا کہ ایک نئی شریعت بنائی جائے۔‘‘ [الاسلام عقیدۃ وشریعۃ،ص:۵۹۴]
اسی طرح شیخ حسنین مخلوفؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی شخص پر یہ لازم نہیں کیا کہ وہ کسی ایک مخصوص امام کے مسلک کو اختیار کرے،اور پھر دین میں اسی کے بتائے ہوئے طریقہ پرچلے۔‘‘ [فتاوی الشیخ مخلوف،ص:۷۳]
اور امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جو فقہ میں مسالک اربعہ ہی پر انحصار کرتا ہو، وہ کہتے ہیں:
’’ہائے رے تعجب! صحابہؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور تمام ائمہ اسلام کے مسالک ختم ہوگئے، اور سب کے سب بے کار ہوگئے سوائے انہی چار مسالک کے ،کیا ان میں سے کسی امام نے بھی یہ بات کہی یا اس کی دعوت دی ہے،ان کے کلام کا کیا ایک لفظ بھی اس پر دلالت کرتا ہے؟‘‘ [اعلام الموقعین:۴؍۲۰۳]
(۵)میری رائے یہ ہے کہ قاضیوں کا آپ حضرات سے رجوع کرنا اور اس مسئلہ میں آپ حضرات کی رائے معلوم کرنا اس مشکل سے نکلنے کا ایک اچھا ذریعہ اس وقت تک سمجھا جائیگا جب تک کہ آپ کا فتوی ان کے نزدیک قابل اعتماد ہوگا، اگر قانونی طور پر آپ کی رائے مسلک حنفی کے خلف ہو، چونکہ قاضی کا فیصلہ اختلاف کو ختم کردیتا ہے، اور جب تک قانون میں قاضی کو آپ کی طرف رجوع کرنے اور آپ کے فتووں کو قبول کرنے کی اجازت ہے، اگرچہ وہ مسلک حنفی کے خلاف ہی ہو، تو یہ اس قاعدہ کے تحت آجائے گا کہ قاضی کا حکم اختلاف کوختم کردیتا ہے، اس لئے کہ آپ سے فتوی طلب کرنے والا بھی قاضی ہی ہے۔
اور فقہاء احناف اس شرعی قانون سازی کی تبدیلی پر مجبور ہوئے جس پرسلطنت عثمانیہ اپنے آخری عہد میں عامل تھی، اور انہوں نے فقہ حنفی کی مرجوحات کواختیار کیا، جب کہ اس سے قبل وہ راجح کو اختیار کرتے تھے، اور وہ مذہب حنفی کے علاوہ دیگر مسالک سے بھی استفادہ پر مجبور ہوئے۔
(۶) اور جہاں تک سائل کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے یہاں اس طریقہ کار کی پابندی کی جاتی ہے کہ مذاہب اربعہ سے خروج نہیں کیا جاتا سوائے اس کے کہ کسی فقہ اکیڈمی کے کسی تجویز کی بناء پر ہو،تو اگر اس طریقہ کار سے آپ کی مراد یہ ہے کہ آپ لوگوں نے فلسطین کی اپنی مجلس علمی میں اس بات پر اتفاق کرلیا ہے تویہ آپ لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے،اور اس مخصوص نظام کی پابندی بھی کی جاسکتی ہے جب تک کہ اس کی پابندی سے کوئی سنگین مسئلہ نہ پیدا ہو، جیسا کہ آپ کے سوال کے مطابق آپ کے سماج میں مسلم خاندان طلاق جیسے مسئلہ سے اتنے بڑے پیمانہ پر دوچار ہیں کہ طلاق کے واقعات کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق ہزاروں تک پہنچتی ہے، اور اس وقت آپ کے یہاں فتوی احناف ،ائمہ اربعہ یا ان میں سے اکثر کے مسلک پر دیا جاتا ہے۔
لیکن معاصر فقہاء شرعی قانون سازی کے وقت جس چیز پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ کون سی چیز لوگوں اور ان کے حالات سے ہم آہنگ ہے،اور جس دور میں ہم جیتے ہیں اس کے اعتبار سے کون سی فقہی رائے زیادہ موزوں ہے جس کو اختیار کیا جائے،اگرچہ وہ رائے مذاہب اربعہ بلکہ ان اسلامی مذاہب میں سے کسی کی رائے نہ ہو جس کی اتباع کی جاتی ہے یا نہیں کی جاتی،اور یہاں کوئی رائے بھی کسی دوسری رائے سے افضل اور مقدم نہیں،اگر مقدم ہے تو اس بنیاد پر کہ کس رائے میں دلیل کی زیادہ رعایت کی گئی ہے اور احوال زمانہ سے کون زیادہ ہم آہنگ ہے، اور اسلام کے نظام جرم وسزا سے متعلق مشیر قانونی علی منصور کا پروجیکٹ بھی اسی نہج پر چل رہا ہے،اور جرم وسزا سے متعلق اپنے قانون سازی پروجیکٹ میں یہی طرز عمل ڈاکٹر اسماعیل معتوق کابھی ہے،اور مصروشام میں پرسنل لاء سے متعلق آئین سازی کے پروجیکٹ میں شیخ مصطفی زرقاء کا بھی یہی منہج رہا،اور رہا شعبۂ قضاء کے علاوہ عام مسلمانوں کے لئے انفرادی فتوی تو اس میں بھی اسی منہج کی رعایت کی جاتی ہے۔
(۷) علاج نہ کہ فتویٰ:آپ کے لئے اپنے کار قضاء کو جاری رکھنا اس وقت تک ممکن ہے جب تک کہ آپ سے (مقدمات میں)رجوع اور آپ کے فتوی پر اعتماد کیاجاتارہے،اور جب تک آپ کوسرکاری اور قانونی طور پریہ حیثیت حاصل رہے جس کی رو سے آپ اپنے ملک میں مسلم خاندانوں میں سماجی کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور آپ ان سے یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے خاندانی مسائل کو آپ کے سامنے آپ کی رائے حاصل کرنے کے لئے پیش کریں قبل اس کے کہ ان پر دارالقضاء میںباضابطہ غور کیا جائے،او ر اس طرح آپ شعبۂ قضاء سے ہٹ کر خاندان کے مختلف فریقوں کے مابین اتفاق اور صلح کرانے میں اپنی رائے اور کوشش کو کام میں لاسکتے ہیں،چوںکہ کتنے ایسے خاندانی مسائل ہیں جن میں محض فتوی کے ذریعہ مسئلہ حل کرنے سے قبل غور وفکر، رہ نمائی اور نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح آپ معاشرہ میں ایک مثبت رول ادا کرسکتے ہیں اور قاضیوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے میں حصہ لے سکتے ہیں اور یقینا ان کی طرف سے( آپ کے اس اقدام کا) خیر مقدم ہوگا، البتہ اگر صلح کرانا دشوار ہوجائے اور ہر راستہ بند ہوجائے اور مسئلہ ناقابل حل ہوجائے تو اس وقت صرف قضاء ہی اولیٰ اور افضل ہوگا۔ واللہ اعلم