پہنچا ساحل پر درونِ آب سے ہوتا ہوا
اک سفینہ وقت کے گرداب سے ہوتا ہوا
دیجیے اذنِ قدم بوسی خدارا اب مجھے
آگیا ہوں سرحدِ آداب سے ہوتا ہوا
یاد ہے اب تک گزرنا وہ جمالِ دوست کا
ایک شعلہ اس دل بیتاب سے ہوتا ہوا
روئے تاباں پر تمہارے یہ تجلی یہ جمال
آگیا ہے خاور و مہتاب سے ہوتا ہوا
کر گیا دل کو مرے زخمی ہمیشہ کے لیے
طنز کا خنجر لبِ احباب سے ہوتا ہوا
ہوگیا چپکے سے داخل میکدے میں دوستو
میرا تقویٰ منبر و محراب سے ہوتا ہوا
شومیٔ قسمت تو دیکھو ایک سلطاں خاک پر
آگیا ہے مخمل و کمخواب سے ہوتا ہوا
قتل کی میرے شہادت آج دینے آگیا
قطرئہ خوں دامنِ احباب سے ہوتا ہوا
لے کے انجم اک غزل جانِ غزل کے روبرو
آگیا شعر و سخن کے باب سے ہوتا ہوا