امتِ اسلامہ کے پاس جو مادی و روحانی وسائل ہیں، وہ امت کو ایک شاندار مستقبل کی خوش خبری دیتے ہیں اور اس خو شخبری کی طرف ہی قرآن مجید نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:
یریدون لیطفئوا نور اللّٰہ بافواہہم واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۔ (الصف:۸)
’’یہ لوگ اپنے منھ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘ مگر افسوس ہے کہ امت نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں اور تہذیبی و روحانی اور اقتصادی و انسانی قوتوں سے جس طرح کام لینے کی ضرورت تھی نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ روشن چراغ اس کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے۔ مصائب کا حل موجود ہے مگر وہ مسائل سے دوچار چلی آرہی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے امت کو غلبۂ اسلام کی کیا بشارتیں دی ہیں:
قرآنی بشارتیں
سنریہم اٰیٰتنا فی الآفاق و فی انفسہم حتی یتبین لہم انہ الحق۔ (حم السجدہ:۵۳)
’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔‘‘
ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ۔ (توبہ: ۳۳)
’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے۔‘‘
یہ بشارت قرآن مجید کی تین سورتوں التوبہ، الفتح اور الصف میں آئی ہے۔ علی الدین کلہ کا مفہوم تمام ادیان پر غلبے کا ہے۔ یہ غلبہ اس سے پہلے کثیر ادیان پر ہوچکا ہے۔ یعنی یہودیت، مجوسیت اور مشرقی نصرانیت پر۔ البتہ مغرب کی نصرانیت اور مشرق کی وثنیت (بت پرستی) منتظر ہے کہ اسلام اس پر غالب آئے۔
نبوی بشارتیں
نبی کریمﷺ کی دی ہوئی بشارتوں کے سلسلے میں حضرت تمیم داری کی روایت کردہ حدیث ہمارے لیے کافی ہے کہ ’’یہ اسلام وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن رات کا سلسلہ پہنچتا ہے۔ اللہ کسی شہری یا دیہاتی کا گھر نہیں چھوڑے گا جہاں باعزت کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ اسلام کو وہاں داخل نہ کردے۔ عزت اس کے لیے جسے اللہ دولتِ اسلام کے ذریعے اعزاز دے اور ذلت اس کے لیے جسے اللہ کفر میں رکھ کر ذلیل کرے۔‘‘ (احمد)
تاریخی بشارتیں
یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ اسلام مشکل ترین اور شدید ترین بحرانوں میں قوت کے لحاظ سے عظیم قوت اور اپنے وجود کی بقا کے لیے مزاحمت کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ صلیبیوں اور تاتاریوں کی جنگوں کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اسلام نے ان میں فتح کا پرچم لہرایا۔ ملحد نظریات اور استعمار کے خلاف تازہ جنگوں میں بھی اسلام کی قوت ثابت ہوچکی ہے جن میں اسلام نے استعمار اور ارتداد کا سامنا کیا اور مسلمانوں نے اپنی بے سروسامانی و کمزوری کے باوجود اپنے ممالک کو آزاد کرایا۔
روشن مستقبل
ہم اسلامی بیداری کی تازہ صورتِ حال کا مشاہدہ کرچکے ہیں جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اپنے دین کی طرف رجوع کیا ہے۔ نوجوانوں کو استقامت کا راستہ دکھایا ہے۔ عورتوں کو حجاب پہنا دیا ہے۔ بہت سی کمپنیوں اور بنکوں کو سود سے دور کردیا ہے۔ مشر ق ومغرب میں دعوتِ اسلام اورخدمتِ خلق کی تنظیمیں قائم ہوئی ہیں۔ خود ہم نے الاتحاد العلمی لعلماء المسلمین قائم کیا ہے، جس میں امتِ مسلمہ کے علمائے شریعت نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ اتحاد اسلام کے حقیقی موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس اتحاد کو کوئی لالچ اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، نہ کوئی دھمکی مرعوب کرسکتی ہے۔ تنظیم نے قرآنِ مجید کی اس آیت کو اپنا سلوگن قرار دے رکھا ہے:
الذین یبلغون رسالات اللّٰہ ویخشونہ ولا یخشون احدا الا اللّٰہ وکفی باللّٰہ حسیبا۔ (الاحزاب: ۳۹)
’’اور جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبے کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے۔‘‘
مغرب کی قائدانہ ناکامی
غلبۂ اسلام کی بشارتوں میں اس بشارت کا اضافہ بھی حقائق و واقعات نے کردیا ہے کہ مغرب نے جس کی تہذیب نے کئی صدیوں تک دنیا کی قیادت کی ہے لیکن اس قیادت کا حق ادا نہیں کیا۔ یہ روحانی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس نے بڑے بڑے بین الاقوامی مسائل پر دوہرے معیارات اپنا رکھے ہیں۔ قرآن کی زبان میں ایک چیز کو ایک سال حلال ٹھہراتے ہیں اور دوسرے سال حرام قرار دیتے ہیں۔ (التوبہ :۳۷) اس نے دنیا میں الحاد کا رجحان عام کیا ہے، جس کے نزدیک کائنات کا کوئی معبود نہیں اور انسان کے اندر کوئی روح نہیں، دنیا کے بعد کوئی آخرت نہیں۔ اسی طرح اس نے اباحیت کو رواج دیا ہے۔ جس نے مرد کی مرد کے ساتھ اورعورت کی عورت کے ساتھ شادی کو جائز قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ تمام ادیان اور انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ اگر انسانیت نے اس کو برقرار رکھا تو ایک دو نسلوں کے بعد وہ تباہ جائے گی۔ اسی طرح امریکہ جو مغرب کا سردار ہے پوری دنیا سے اس طرح معاملات کرتا ہے گویا وہ ایسا معبود ہے جو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے۔ اسرائیل جو اس کا بغل بچہ ہے، امریکہ اس کے ہر جائز و ناجائز اور ظلم و زیادتی بلکہ چنگھاڑتے ہوئے ظلم کی حمایت کررہا ہے۔ زمین پر ایسی ناحق، متکبر اور سرکش تہذیب کو زوال آہی جانا چاہیے اور اس کی جگہ کسی اور کو لینی چاہیے۔ کیونکہ یہ قانونِ الٰہی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثہا عبادی الصالحون۔ (الانبیا:۱۰۵)
’’ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے۔‘‘
دم توڑتی تہذیب کی جگہ لینے کے لیے جو قوم تیار ہے، وہ امتِ اسلامیہ ہی ہے۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب یہ امت اپنے آپ کو پہنچان لے، اپنے پیغام کی حامل بن جائے، اپنے رب کی طرف رجوع کرلے، اپنے ذاتی معاملات کو درست کرلے اور اپنے آپ کو تبدیل کرلے تاکہ اللہ بھی اس کو بدل دے کیونکہ یہ بھی قانونِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم۔ (الرعد:۱۱)
’’اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔‘‘
اگر امت اپنی بری حالت کے باوجود اس تہذیب کی وارث بننے اور انسانیت کی قیادت کرنے کی تمنا رکھتی ہے تو یہ کبھی ممکن نہیں! اللہ کا طریقِ کار کبھی تبدیل نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم۔ (محمد: ۳۸)
’’اگر تم منہ موڑوگے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔‘‘
——