ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں چھ خیالات لوگوں میں مشہور ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی ان خیالات نے نظریہ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ یہاں تک کہ لوگ سچ کا پتہ لگانے کی ضرورت محسوس کیے بنا ہی ان پر یقین کرلیتے ہیں۔ سی این این ، آئی بی این کے ایک قومی سروے میں کچھ اور ہی حقیقت سامنے آئی ہے۔ سی ایس ڈی ایس کے ذریعہ کیے گئے سروے میں 14115 لوگوں سے سوالات کیے گئے۔ اس کے علاوہ 1510مسلمانوں سے خاص سوال پوچھے گئے۔ ان میں46فیصد خواتین تھیں، خواتین میںبھی 64 فیصد دیہاتی علاقوں سے تھیں جبکہ 42فیصد خواتین شمالی ہندوستان کے ہندی بولنے والے علاقوں سے۔
(۱) مسلمان آبادی کا افسانہ: تازہ مردم شماری کے لحاظ سے ہندوستان کی کل آبادی میں 13.4فیصد مسلمان ہیں۔ لیکن لوگ ایسا نہیں سوچتے۔ جب ان سے مسلمان آبادی کے بارے میں اندازہ لگانے کو کہا جاتا ہے تو چھ میں سے ایک ہی شخص صحیح جواب کے قریب ہوتا ہے۔ تین چوتھائی لوگ مسلمان آبادی کو صحیح آبادی سے کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔ اس موضوع پر پڑھے لکھے لوگوں کی رائے بھی ان پڑھ لوگوں کی رائے سے الگ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ مسلمان بھی اس نظریہ پر عمل کرتے ہوئے غیر مسلموں کی طرح خود بھی اپنی آبادی کو بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں۔
(۲) دیش بھکتی کا نظریہ: اس نظریہ کے سلسلہ میں زیادہ بولا نہیں جاتا ہے۔ لیکن اشارتاً کریدا ضرور جاتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان وطن سے محبت نہیں کرتے۔ اس سروے میں ۲ فیصد مسلمانوں کو چھوڑ کر سبھی نے کہا انھیں ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔ زیادہ تر مسلمانوں کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہندوستانی ہیں بعد میں مسلمان۔
(۳) اسلام اور جمہوریت کا نظریہ: امریکی ظلم و زیادتی کی وجہ سے یہ نظریہ اب عالمی سطح پر آگیا ہے کہ اسلام کی جمہوریت کے ساتھ پٹری نہیں بیٹھتی۔ ہماری سروے نے ایک بار پھر وہی ثابت کیا ہے جو دنیا بھر میں کئی سروے بار بار ثابت کرچکے ہیں۔ تقریباً ہندوؤں کے برابر ہی تین چوتھائی مسلمانوں نے کسی بھی غیر جمہوری راستے کو سختی سے رد کردیا۔
(۴) مسلم پرسنل لا کا نظریہ: لوگ کہتے ہیں کہ پرسنل لا مسلمانوں کی سوچ میں سب سے اوپر ہے۔ اور وہ اس کا ہر قیمت پر بچاؤ کریں گے۔ لیکن جب مسلمانوںسے اس سب سے اہم مسئلہ پر بات کی گئی تو 69فیصد لوگوں نے جہاں چار فیصد لوگوں کے مقابلہ مذہبی بنیادوں پر زندگی گزارنے کو اپنی پسند بتایا وہیں مسلمانوں کی زبردست تعداد اور مردوں سے زیادہ خواتین نے ایک سے زیادہ شادیاں اور تین طلاق کو ماننے سے انکار کردیا۔
(۵) مسلمانوں کورجھانے کا معاملہ: ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مسلمان لاڈلی آبادی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایسا نہیں لگتا۔ اس بارے میں ہر پانچ مسلمانوں سے کیے گئے سوالوں میں ایک نے کہا کہ اس نے شخصی طور پر مذہبی بنیاد پر ہونے والے تعصب کو بھگتا ہے۔ زیادہ پڑھے لکھے اور قابل مسلمانوں نے اس کو زیادہ شدت سے جھیلا ہے۔ سیاست اور مذہبی معاملات کی بہ نسبت مسلمانوں کے ساتھ تعلیم اور روزگار میں زیادہ تعصب سے کام لیا جاتا ہے۔
(۶) ہندو مسلمانوں کے بیچ پڑی خلیج کا معاملہ: یہ مذہب پرست نظریہ ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا یقین ہے کہ گجرات فسادات نے ہندو مسلمانوں کے بیچ نہ پاٹی جانے والی کھائی پیدا کی ہے۔ ملک بھر میں کیے گئے سروے میں خوش خبری یہ ہے کہ صرف 13فیصد مسلمانوں نے اقرار کیا کہ کھائی کو پاٹا نہیںجاسکتا۔ اتنے ہی لوگوں نے مانا ہے۔ کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد مانتی ہے کہ گجرات حادثے سے گہرا تناؤ پیدا ہوا تھا۔ لیکن اب حالات معمولت پر آرہے ہیں۔