قرآن مجید کی سورہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اُن کے سوتیلے بھائیوں کے غلط سلوک کی وجہ سے وہ وقت آیا جب کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام بظاہر اپنے دو عزیز بیٹوں سے محروم ہوگئے۔ اس حادثے کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبان سے یہ دعائیہ کلمہ نکلا: اِنَّمَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَ حُزِّیْ اِلَی اللّٰہِ (12:86) یعنی میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں۔
پیغمبر کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ایک اہم حقیقت کو بتاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن جب کسی غم سے دوچار ہوتا ہے تو وہ عام انسان کی طرح آہ اور فریاد میں مبتلا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا ایمانی شعور اس کے غم کو دعا میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف رجوع ہوکر اس سے التجا کرنے لگتا ہے کہ وہ اس کے کھونے کو یافت میں بدل دے، وہ اس کی محرومی کی تلافی فرمائے۔ کسی انسان کے ساتھ جب غم اور محرومی کا تجربہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے ردعمل کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک انسانوں کی طرف دیکھنا، اور دوسرا ہے، خدا کی طرف دیکھنا۔ جو لوگ حادثہ کے وقت انسان کی طرف دیکھیں، وہ صرف یہ کرتے ہیں کہ انسان کے خلاف فریاد و فغاں میں مبتلا ہوجائیں۔ مگر جس شخص کا یہ حال ہو کہ وہ اس قسم کے تجربہ کے بعد خدا کو یاد کرنے لگے، وہ چھیننے والے کے بجائے دینے والے کو اپنا مرکز توجہ بنالے گا۔ اس کا ذہن مایوسی کے بجائے امید کا آشیانہ بن جائے گا۔
دعا ایک طاقت ہے۔نازک وقتوں میں دعا مومن کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ دعا اس اعتماد کا سرچشمہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی کھونا آخری نہیں، بلکہ ہر کھونے میں ازسرِ نو پانے کا راز چھپا ہوا ہے۔
ہر آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ ایسے لمحات میں خدا سے دعا کرنا آدمی کے دل کو سکون بخشتا ہے۔ دعا گویا کسی آدمی کے لیے کرائسس مینجمنٹ (Crisis management) کا بہترین ذریعہ ہے۔