غوروفکر کے چند پہلو!

ڈاکٹر نیلم غزالہ

گزشتہ دنوں اڑپی (کرناٹک) کے ایک کالج میں کلاس میں حجاب پہن کر داخل ہونے سے طالبات کو روک دیا گیا۔ وہ طالبات احتجاج کرتی رہیں۔ کالج جاتی رہیں لیکن کلاس کرنے کی اجازت نہیںملی۔ کالج کے مینیجنگ کمیٹی کے چیئرمین نے جو کہ بی جے پی کے ایم ایل اے ہیں اس فیصلے کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ یکسانیت (Unity)کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ لڑکیوں نے بہت کوشش کی D.C. کے پاس گئیں، پرنسپل سے بات چیت ہوئی ، والدین کے ساتھ پرنسپل کی میٹنگ ہوئی لیکن حجاب کے ساتھ کلاس میں جانے کی اجازت نہیں ملی۔

پومپئ کالج منگلور اور گورنمنٹ کالج (کوپا) چک منگلور میں بھی حجاب پہن کر کالج آنے پر پابندی لگائی گئی۔ 3 فروری کو کنڈا پاڑا گورنمنٹ پی یو کالج میں 100 سے زائد طلبا بھگوا (گیروا) پٹکا گلے میں ڈال کر کالج آگئے اور کالج میں لڑکیوں کو حجاب پہن کر آنے سے روکا۔

اسی سلسلے کی کڑی ہے مسکان خان کا واقعہ کہ وہ اپنے کالج اپنی فائل جمع کرنے گئی اور وہاں بھگوا طلبا نے اس کو زبردستی کہا کے حجاب اتادو، اس کے بعد کالج میں داخل ہو۔

ایک طالبہ آمنہ بنت بشیر نے سینٹرل بورڈ آف ایجوکیشن پر مقدمہ دائر کردیا اور کرناٹک ہائی کورٹ میں اس کیس کی شنوائی ہوئی۔ کورٹ کی کارروائی Live تھی، بہت سے لوگوں نے اس کو دیکھا۔ دونوں طرف کے وکلاء کی دلیلیں سب کے سامنے آئیں۔

سوال یہ ہے کہ جب ہمارا قانون ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے مذہب کی پیروی کریں اور تبلیغ بھی کرسکتے ہیں اور ہمارا دین یہ کہتا ہے کہ ہم مسلم خاتون جب بھی گھر سے باہر جائیں تو اپنے آپ کو ڈھک کر ہی جائیں تو پھر اتنا بڑا اشو کیوں کھڑا کیا گیا۔

اس تنازعے میں مسلم امت کی کئی کمزوریاں ابھر کر سامنے آئیں۔ جس طرح کی بحث کورٹ میں ہوئی اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان اس ملک میں اپنی دعوتی ذمہ داری کی ادائیگی میں کس قدر کوتاہی کرتے رہے ہیں کہ 1450 سال کے بعد بھی یہ ثابت کرنا پڑرہا ہے کہ پردہ مسلم عورت کے لیے فرض ہے یا اختیار؟

آخر ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ یقینی طور پر صد فیصد مسلم خواتین حجاب کا استعمال نہیں کرتیں۔ آج ہماری بچیاں جو انگلش میڈیم یا اردو میڈیم میں بھی پڑھ رہی ہیں، ان کی انتظامیہ بھی مسلم ہے، اس کے باوجود بہت سے اسکولوں کا ڈریس حجاب کے بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ اس سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے بچے بچیاں نصابی کتابوں ہی میں مصر وف رہتے ہیں اور ہم انہیں بنیادی اسلام کی معلومات بھی دینے میں ناکام ہیں۔ وہ دین سے اتنے دور ہیں کہ معلوم ہی نہیں کہ فرض کیا ہے اور سنت کیا ہے۔

ہمارے اپنے مسلم برادرانِ وطن اور مسلم خواتین یہ کہتی ہوئی نظر آرہی ہیں کہ چھوڑ دینا چاہیے۔ پردہ میں تو اسلام نہیں ہے۔ اصل پردہ تو آنکھ کا پردہ ہے۔ یعنی ہمارا ذہن صاف نہیں ہے کہ ’’پردہ فرض ہے‘‘ اور جو اس کو نہیں اختیار کرتا وہ گنہگار ہے اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہے۔ یہ بہت ہی افسوسناک صورتِ حال ہے امتِ مسلمہ کی۔

دوسری کمزوری جو امت کی بہت زیادہ عیاں ہوکر سامنے آئی ہے وہ یہ کہ بیس کروڑ امت میں کوئی ایسا مضبوط وکیل نہیں جو ہماری شریعت کے لیے ہائی کورٹ میں کھڑا ہو اور اپنی دلیلوں سے ان لوگوں کو قائل کرے جو شریعتِ اسلامی پر انگلی اٹھا رہے ہیں اور Unity کے نام پر اسلام کے ایک اہم معاشرتی حق کو مسخ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

تیسری کمزوری یہ کہ ہماری ’’ملی غیرت‘‘ کہاں چلی گئی کہ کمسن بچیاں حجاب کے لیے جدوجہد کررہی ہیں اور ہمارے اکابرین خاموش ہیں۔

سماجی سطح پر تو عام مسلمان بالکل غفلت کی نیند سورہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ میسج ویڈیو کو ادھر سے ادھر پوسٹ کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا دینی فریضہ پورا ہوگیا۔

مسئلہ شریعت اور دین کے حکم کا ہے اور عدالت میں ایک فرد بھی نہیں جو شریعت اسلامی کو سمجھا سکے یا اس کی نمائندگی کرسکے۔ یہاں بات وہ لوگ کررہے ہیں جن کا شریعت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ یہ عجیب صورت حال ہے جس پر مسلم قیادت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔

اس امت میں وحدت کی زبردست کمی منظر عام پر آئی اور یہ واقعی سخت تشویش کی بات ہے۔ ایک شہر، ایک علاقے کے لوگ ایک چھوٹے سے مسئلے کو حل کرنے کے لیے متحدہ کوشش نہیں کرسکے۔ یا ان کی متحدہ کوششوں کو کچھ جذباتی اور سیاسی مفاد پرستی کے خوگروں نے ناکام کردیا۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔

یہ سارا حجاب تنازعہ فسطائی طاقتوں کا منصوبہ بند طریقے سے پیدا کیا ہوا ہے جو اس طرح کے تنازعات سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ہر وقت کسی نہ کسی منفی چیز میں مسلمانوں کو الجھا کر رکھا جائے۔ کبھی بابری مسجد، کبھی طلاقِ ثلاثہ، سی اے اے ، این آر سی، کبھی لو جہاد، کبھی یو پی ایس سی جہاد کبھی کورنا جہاد اور اب یہ حجاب تنازعہ۔ ان کی کوشش ہے کہ مسلم امت کی ساری صلاحیتیں، سارے وسائل، سارے ذرائع ان سے جھگڑا کرنے اور ان کے لگائے ہوئے الزامات کو رد کرنے میںصرف ہوجائیں اور یہ قوم کوئی ’مثبت اقدام‘ نہ کرسکے۔

مسلم امت بھی لگاتار ان کے جال میں پھنسی جارہی ہے، ہمیں ان کی چالوں کو سمجھنا اور ناکام بنانا ہوگا۔ ایسا اسی وقت ممکن ہے جب اس امت میں اس بات کی سمجھ اور ’سیاسی شعور‘ موجود ہو۔

ہمیں اپنے اندر ’دینی شعور‘ بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دین صرف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ تک ہی محدود نہیں ہے یہ اس امت کو سمجھنا ہوگا۔ اپنی فکر کی تجدید اور تشکیل نو کرنی ہوگی اور ہندوستان میں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو منصوبہ بند بنانا ہوگا۔ ان چیزیں میں جہاں مسلم لیڈر شپ کواہم کردار ادا کرنا ہوگا وہیں ہمیں خود بہ حیثیت مسلمان اپنے مقام و منصب اور اپنی انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور انہیں ادا کرنا ہوگا۔

اس تنازعے کی صورت میں امتِ مسلمہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ابھر کر سامنےآتا ہے کہ وہ اس ملک اور یہاں کے سماج میں اسلام اور اس کی تعلیمات کی صحیح نمائندگی اور تفہیم کیسے کرسکتی ہے۔

ہندوستان میں اسلام، اسلام کی تعلیمات یہاں تک کہ قرآن کی آیات تک پر اعتراضات ہوتے رہے ہیں، ٹھیک اسی طرح اہلِ علم ان کے علمی جوابات بھی دیتے رہے ہیں۔ لیکن سماج و معاشرہ ہم سے عملی جواب کا طلبگار ہے۔ آپ حجاب ہی کے مسئلے کو لے لیں۔ کیا ہندوستان میں مسلم خواتین اسلام کی اس اہم تعلیم پر کاربند ہیں؟ اگر کاربند ہیں تو ان کی اور دیگر خواتین کی زندگیوں میں کوئی واضح فرق بھی نظر آتا ہے؟ یہ چیزیں معاشرہ پر ثابت کرنی ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ کہتے تھے کہ پردہ مسلم عورت کو تعلیم و ترقی کے میدان میں پیچھے کرنے کاسبب ہے۔ لیکن اب یہ سوچ ٹوٹ رہی ہے کیونکہ مسلم لڑکیوں نے حجاب کے ساتھ اس میدان میں اپنی مضبوط شناخت بنائی ہے اور مسلسل بنارہی ہیں۔ اسی طرح کے عملی ثبوت اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں عملی زندگی گزار کر ہمیں سماج کے سامنےپیش کرنے ہیں تاکہ اسلامی تعلیمات کی فوقیت عام طرزِ زندگی پر ثابت و قائم ہوسکے۔

یہ بات ہمیں ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان ایک داعی امت ہیں۔ جب تک ہم اسلام کی دعوت عام انسانوں تک نہیںپہنچائیںگے اور الٰہی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کے فوائد ان کے سامنے واضح نہیں کریں گے اور انہیں یہ نہیںبتائیں گے کے اسلام ہمارا دین نہیں بلکہ تمہارا بھی دین ہے، قرآن صرف ہمارے ہی لیے رہنما نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے آیا ہے، تب تک ان کے اور ہمارے درمیان کی خلیج نہیں پٹے گی اور نفرت قائم رہے گی بلکہ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ باطل طاقتیں نہیں چاہتی ہیں کہ مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ آپس میں مل بیٹھیں اور سننے سنانے کا ماحول بنے۔ ہمیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں