وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا۰ۭ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِہْتُمُوْہُ۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ۰ۭ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ۱۲
ترجمہ: اور غیبت نہ کرو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی، بھلا اچھا لگے گا تم میں سے کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو۔ کتنی گھن آتی ہے تم کو اس سے۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے۔ بیشک اللہ معاف کرنے والا ہے مہربان۔‘‘
سوچئے کہ غیبت کرنا کتنا برا اور گھناؤنا کام ہے۔ کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے اور وہ بھی مردہ بھائی کا۔ بھائی کا گوشت کھانے کی تشبیہ غیبت کرنے والے کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ کیسا تکلیف دہ یہ خیال ہے کہ انسان انسان کا گوشت کھائے اور وہ بھی اپنے مرے ہوئے بھائی کا۔ معاذ اللہ!
اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے بھی اس اخلاقی برائی سے بچنے کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’غیبت یہ ہے کہ تو پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کی برائی بیان کرے۔‘‘ عرض کیا گیا ’’اے اللہ کے رسولؐ! اگر اس میں وہ برائی موجود ہو تو؟‘ ‘آپؐ نے فرمایا: ’’اسی کو تو غیبت کہتے ہیں۔ کیونکہ کسی کی پیٹھ پیچھے اگر کوئی ایسی بات کہی جائے جو اس میں موجود نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے جو غیبت سے کہیں زیادہ بری بات ہے۔‘‘ غیبت کی گندگی اندازہ اس واقعے سے ہوسکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے حضرت صفیہؓ کے بارے میں حضورؐ کے سامنے کہہ دیا کہ وہ ٹھگنی (چھوٹے قد کی ہیں)۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’عائشہ! تم نے ایسی بات کہہ دی ہے جو اگر سمندر میں ملادی جائے تو اس کو گندہ کردے۔‘‘ یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھیے کہ غیبت کرنے والا انسان غیبت کرکے فضول اپنی نیکیاں برباد کرلیتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’آگ جو عمل سوکھی گھاس کے ساتھ کرتی ہے، غیبت اس سے زیادہ غیبت کرنے والے کی نیکیوں کے ساتھ کرتی ہے۔‘‘ یعنی نیکیوں کو برباد کردیتی ہے۔ حضرت مالک بن دینار بڑے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ ایک دن ان کے سامنے ایک کتا آبیٹھا۔ کسی نے اس کتے کو ہٹانا چاہا تو —— فرمایا: ’’رہنے دو، یہ کتا غیبت کرنے والے دوست سے اچھا ہے۔‘‘
غیبت کے متعلق مزید پڑھیں!
https://hijabislami.in/714/