غیبی مدد

اسامہ وحید

عامر کے والدین بے حد غریب تھے ۔وہ محنت مزدوری کرتے۔ اس کے باوجود گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے۔ عامر سے دو سال بڑی بہن سلمیٰ تھی جس نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اخراجات کی کمی کے باعث وہ شدید خواہش کے باوجود اپنا تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکی۔

عامر ساتویں جماعت پاس کرکے آٹھویں جماعت میں آیا تھا۔ گھر بھر کی امیدوں کا مرکز عامر ذہین اور محنتی بچہ تھا۔ اسے اس بات کا بھر پور احساس تھا کہ اس مہنگائی کے دور میں اس کے والدین کس مشکل سے اسے تعلیم دلوا رہے ہیں، اس لیے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھتا تھا۔ ساتھی اور اساتذہ اس کی تعریف کرتے تھے۔

عامر کو اپنی بہن سے بہت محبت تھی۔ وہ تھی بھی بہت اچھی! سارا دن گھر کے کام کاج کرنے میں ماں کا ہاتھ بٹاتی اور شام کو اسکول کا کام کرنے میں عامر کی مدد کرتی۔ بلکہ اس نے عامر کے سب کام اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ ہر روز اس کی ڈریس دھوکر استری کرتی۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتی۔ رات کو اس کا سبق سنتی اور امتحانوں کے دنوں میں رات بھر اس کے ساتھ جاگتی۔ سلمیٰ کی شدید خواہش تھی کہ عامر پڑھ لکھ کر ایک کامیاب انسان بنے تاکہ ان کے گھر کے حالات بھی سدھر جائیں۔

ایک دن عامر اسکول سے آیا تو اس نے سلمیٰ کو بتایا : ’’ہمارے اسکول میں دسویں جماعت کے طلبا کے درمیان تقریری مقابلے ہونے والے ہیں۔ صوبے کے کئی اسکولوں کے طلبا اس میں حصہ لیں گے۔میرے پرنسپل صاحب نے آج مجھے دفتر میں بلایا تھا۔ وہاں دو تین اساتذہ بھی موجود تھے۔ پرنسپل صاحب نے کہا کہ اس مرتبہ اسٹیج سکریٹری کے لیے میںنے تمہارا انتخاب کیا ہے۔ یہ استاد تمہارے معاون ہوں گے۔ ان سے اپنا کام سمجھ لو اور آج ہی سے تیاری شروع کردو۔‘‘

سلمیٰ یہ سن کی بہت خوش ہوئی۔ اس نے عامر کو شاباش دی، حوصلہ افزائی کی اور بھائی کو سمجھایا: ’’یہ ذمہ داری بہت خوش اسلوبی سے نبھانا اور ثابت کرنا کہ تمہارا انتخاب درست تھا۔‘‘

تقریب دو ہفتے بعد منعقد ہونی تھی۔ عامر اپنے اساتذہ کی نگرانی میں تیاری میں مصروف ہوگیا۔ اسے یہ سارا کام اور ذمہ داریاں بہت اچھی لگیں۔ یہ بہت مختلف اور دلچسپ تجربہ تھا۔ ہر روز گھر آکر وہ بہن کو دن بھر کی روداد سناتا۔ وہ خوش ہوتی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی۔ آخر خدا خدا کرکے وہ وقت آہی گیا جب اگلے روز تقریب منعقد ہونی تھی۔ شام کے وقت عامر کمرے میں بیٹھا اپنے کام میں مصروف تھا کہ اچانک صحن سے شور سنائی دیا۔ وہ جھٹ سے باہر آیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ سلمیٰ زمین پر پڑی کراہ رہی ہے۔ وہ سیڑھوں سے گر پڑی تھی۔ عامر اور اس کی ماں نے بڑی مشکل سے اسے اٹھا کر چارپائی پر لٹایا، نیم گرم دودھ پینے کو دیا مگر درد کسی طرح چین ہی نہیں لینے دے رہا تھا۔

عامر دوڑا گیا اور ڈاکٹر کو بلالایا۔ حادثے کی خبر سن کر عامر کا باپ بھی گھر کی جانب دوڑا۔ ڈاکٹر نے معائینہ کرنے کے بعد بتایا کہ سلمیٰ کی ٹانگ کی ہڈی پر سخت موچ آئی ہے اور علاج کے لیے اسے اسپتال کے جانا پڑے گا۔ پوچھنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ اسپتال کا خرچ کم از کم دو ہزار روپئے ہوگا۔ یہ سن کر عامر اور اس کے والدین فکر اور پریشانی سے نیم جان ہوگئے۔ ان کے پاس تو ایک سو روپئے بھی نہیں تھے، وہ دو ہزار روپئے کہاں سے لاتے؟ ڈاکٹر صاحب نے مہربانی کی کہ سلمیٰ کی ٹانگ سیدھی کرکے مضبوطی سے باندھ دی اور درد کا انجکشن بھی لگادیا۔

اب کہاں کی تقریب اور کون سااسکول … عامر بہن کی تکلیف او رپریشانی میں سب کچھ بھول گیا۔ اس کے دماغ میں رہ رہ کر یہ خیال آرہا تھا کہ بہن کو اسپتال لے جانا ہے۔ مگر دو ہزار روپئے کا بندوبست کیسے ہو؟ کیا ماں باپ کسی سے ادھار مانگیں گے؟ مگر ان کے اڑوس پڑوس والے بھی انہی کی طرح غریب تھے۔ پھر کون مدد کرے گا؟

گھر میں ایسی کوئی قیمتی شے بھی نہیں تھی جو اس مشکل وقت میں فروخت کردی جاتی؟ وہ خود بھی کچھ نہیں کرسکتا تھا؛ تو کیا اس پر جان نثار کرنے والی بہن علاج نہ ہونے کے باعث ساری زندگی کے لیے معذور ہوجائے گی؟ اپنی بے بسی پر عامر کا دل بھر آیا۔ اس نے آسمان کی جانب نگاہ اٹھائی تو آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے ہاتھ اٹھائے اور اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگنے لگا: ’’اے خدا!اس مشکل وقت میں ہماری مدد فرما۔‘‘ دوسری جانب اس کے والدین بھی ایسی ہی سوچوں میں گم بیٹی کے سرہانے بیٹھے تھے۔ سلمیٰ انجیکشن لگنے کے بعد سوگئی مگر اس کے ماں باپ اور عامر رات بھر جاگتے رہے۔

صبح جب سلمیٰ کی آنکھ کھلی تو وہ اپنی تکلیف بھول کر عامر کے لیے فکر مند ہوگئی۔ عامر بہن کی تیمار داری کے لیے اس کے پاس رہنا چاہتا تھا مگر سلمیٰ نے بہت ضد کرکے اسے اسکول بھیج دیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ عامر اس تقریب سے غیر حاضر ہو جس کے لیے خاص طور پر اس کاانتخاب کیا گیا تھا۔

اسکول میں خوب گہما گہمی تھی۔ شامیانے اور قناتیں لگاکر کرسیاں بھی ترتیب سے لگا دی گئی تھیں۔ اسٹیج کو خوبصورتی سے سجایا جارہا تھا۔ عامر بظاہر اپنے کام میں مصروف تھا مگر اس کا دھیان بارہا گھر کی طرف چلا جاتا۔ وہ یہی سوچ رہا تھا کہ نہ جانے سلمیٰ باجی کا کیا حال ہوگا؟ کاش! اس وقت وہ اسکول کے بجائے ان کے سرہانے اسپتال میں ہوتا۔ یہی سوچتا وہ پنڈال سے باہر آگیا۔

اچانک اسے لکڑی کے چرچرانے کی آواز آئی۔ نظر اٹھا کر جو دیکھا تو شامیانے کا رسہ جس ڈنڈے سے باندھا گیا تھا، وہ گرنے کے قریب تھا۔ وہ ڈنڈا ایسی جگہ نصب تھا کہ اس کے گرنے سے سارا شامیانہ نیچے گر پڑتا۔ اس وقت اندر کئی لوگ موجود تھے۔ شامیانے کے ڈنڈے لگنے سے یقینا وہ زخمی ہوجاتے۔ عامر ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ڈنڈے کی طرف لپکا اور اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ مگر یہ تدبیر عارضی تھی۔ شامیانے کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ڈنڈا کسی بھی وقت گر سکتا تھا۔ عامر بانس کو تھامے ہوئے زور زور سے مدد کے لیے پکارنے لگا۔ اس کی آواز سن کر پنڈال میں موجود لوگ دوڑے آئے اور بمشکل اس نازک صورتِ حال پر قابو پالیا۔

یوں عامر کی حاضر دماغی اور دلیری کے باعث نہ صرف کئی لوگ محفوظ رہے بلکہ تقریب بھی نہایت خوش اسلوبی سے اختتام کو پہنچی۔ عامر نے اپنی ذمہ داری بہت اچھی نبھائی اور سب نے اس کی تعریف کی۔ مہمانِ خصوصی نے نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبا میں انعامات تقسیم کیے۔ آخر میں پرنسپل صاحب نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح عامر کی بہادری اور معاملہ فہمی نے ہم سب کو بہت بڑے حادثہ بچالیا۔ اس موقع پر انھوں نے اعلان کیا کہ اسکول اور مہمان خصوصی کی جانب سے عامر کو دو ہزار روپئے نقد انعام دیا جارہا ہے۔ رقم وصول کرتے ہوئے عامر کی آنکھیں بھیک گئیں اور بے ساختہ اس کے لبوں سے یہ کلمہ جاری ہوگیا:

’’بے شک اللہ بڑا غفور الرحیم اور مہربان ہے۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں