غیر ذمہ دار میڈیا اور مسلمان

عمیر انس

مہا شویتا دیوی ایک مشہورخاتون سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے نندی گرام کے لوگوں کے حق میں آواز بلند کی اور نندی گرام کا دورہ بھی کیا۔ بنگال حکومت کے کچھ پولیس افسران نے انھیں اب ماؤوسٹ قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ نکسلائٹ تحریک سے بھی ہمدردی رکھتی ہیں۔ اس خبر کے شائع ہوتے ہی ہندی اخبارات میں مہاشویتا دیوی کے حق میں بڑی بڑی رپورٹیں شائع کی گئیں کہ وہ ایک اچھی خاتون ہیں اور یہ کہ وہ ماؤوسٹ نہیں ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک خاتون کی بگڑتی تصویر کے لیے میڈیا کی حساسیت قابل غور تھی اور حقیقت میں، کم از کم اس معاملہ میں، میڈیا نے ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔

اس کے برخلاف درجنوں بار میڈیا کے ذریعے مسلم نوجوانوں کی کردار کشی کی جاتی رہی، ان کی تحریک پر پولیس کارروائی کی جاتی رہی اور میڈیا ہی کی تحریک پر ان کے انکاؤنٹر ہوئے اورکچھ عدالتی کارروائی کے لیے زندہ بچے تو بری ہوگئے۔ لیکن اس موقعے پر میڈیا کی ایسی حساسیت شائد کسی بھی مسلم شہری نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ یہ دراصل ہندوستانی میڈیا کی حقیقی تصویر ہے۔

برطانیہ میں کچھ نوجوان دہشت گردی کے شک میں گرفتار کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کا’’میڈیا مارشل‘‘ کیا جارہاہے۔ پچھلے سال ہندوستان اخبار کے ایک غیر ذمہ دار صحافی نے ایک تصوراتی رپورٹ لگائی کہ ملک کی ایک طلبہ تنظیم اپنی سرگرمیاں نیپال سے چلارہی ہے اور اس کے تعلقات دوسرے ممالک کی خفیہ ایجنسیوں سے ہیں۔ مذکورہ تنظیم کی جانب سے لگاتار صفائی دی گئی، اخباری بیان جاری کیا گیا، لیگل نوٹس بھی ایشو کیا گیا لیکن ان کو مہاشویتا جیسا شہری نہیں سمجھا گیا۔

اسی لیے اب میڈیا کی تصویر اقلیتوں میں اس طرح ابھر رہی ہے جیسی ہندوستانی پولیس کی ہے۔ تصوراتی رپورٹوں کی بنیاد پر مسلم اداروں کو شک کے دائرے میں لانا ان کا پیشہ بنتا جارہا ہے۔ عدالت کے ذریعے بری قرار دے دیے جانے کے باوجود اخبارات میں اس کی صفائی کا موقع نہ دیا جانا اسی بات کی علامت ہے کہ ہندوستانی میڈیا میں فاشزم کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہیں۔

کرن تھاپر مشہور صحافی ہیں انھوں نے اپنے ایک کالم میں ہندوستانی میڈیا کی Immatority(ناپختگی) کا تذکرہ کیا تھا۔ انھوں نے سابق عراقی صدر صدام حسین کے حوالے سے لکھا تھا کہ ہندوستانی اخبارات اور چینل صدام کا نام ایسے لے رہے تھے جیسے کسی سڑک چھاپ لچّے لفنگے کا تذکرہ ہورہا ہو۔ بی بی سی کے ایک صحافی نے ہندوستانی میڈیا کی اسی ناپختگی کا تذکرہ بہت ہی اچھے انداز میں کیا تھا اور تجزیہ کیا تھا کہ ہندوستانی میڈیا میں جلد شہرت حاصل کرنے کی ہوس رکھنے والوں کا ایک ٹولہ داخل ہوگیا ہے جو سنسنی خیز رپورٹیں دے کر خود کو بھنانے کی کوشش کررہا ہے۔

مہاراشٹر کے خواجہ یونس کا معاملہ ابھی بھی چل رہا ہے مکہ مسجد سانحہ میں پولیس کی گولیاں بے گناہوں پر کیسے برسیں سب کو معلوم ہے۔ گوجر تحریک پر یہی ہوا۔ یہاں پر بھی میڈیا کی خاموشی سب محسوس کرسکتے ہیں۔ معاملہ صرف داخلی امور کا نہیں ہے بلکہ ملک کے اقتدارِ اعلیٰ اور اس کی سالمیت سے بھی جڑا ہے۔ گذشتہ دنوں امریکی سنیٹروں نے ایک آمرانہ اور حاکمانہ قسم کا مراسلہ ہمارے وزیر اعظم کے نام روانہ کیا، جس میں انھوں نے صاف الفاظ میں ہندوستان کو دھمکی دی تھی کہ وہ ایران سے اپنے تعلقات میں گرمجوشی کا مظاہرہ نہ کرے۔ اخبارات نے ایک بار اس کو اٹھایا اور اس کے بعد مکمل سکوت اختیار کرلیا۔ گویا کہ انھیں چپ رہنے کا ہی حکم دیا گیا ہو اور ایسا ہی ہوا ہوگا۔ سمجھوتا ایکسپریس میں ہندوستانی میڈیا نے سارا کیس مسلمانوں کے سر پر تھوپ دیا جب کہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اس میں ہندو انتہا پسندوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔

ان سبھی واقعات کے تجزیے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے لیے میڈیا کے سلسلے میں ایک معقول اسٹریٹجی بنانے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔ صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ ایک وضاحتی بیان ارسال کردیا جائے یا پریس ریلیز جاری کردی جائے۔ میڈیا ایک طاقت ضرور ہے لیکن اخلاقی طاقت اور ضابطوں سے اوپر نہیں ہے۔ میڈیا کو شفافیت کا پابند اور جواب دہ بھی بنانا ہوگا اور اس کے لیے منظم کوشش کی جانی چاہیے۔

اس سلسلے میں ایک کام تو یہ ہوسکتا ہے کہ سبھی مسلم تنظیمیں اپنے اپنے اخبارات میں میڈیا واچ کے طور پر فرضی رپورٹوں کا صحافتی تجزیہ شائع کرتی رہیں۔ واقعات اور حقائق کے سلسلے میں ان کی فاش غلطیوں کی نشاندہی کرتی رہیں تاکہ عوام کو یہ معلوم ہوتا رہے کہ کون اخبار کب کہاں اورکیسے غلطی کررہا ہے اور وہ یہ سمجھ سکیں کہ میڈیا پر آنکھ کان بند کرکے یقین کرلینا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

دوسرا طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اقلیتی کمیشن، دوسری جماعتوں کے تعاون اور کوآرڈینشن سے ایک میڈیا واچ گروپ تشکیل دیں تاکہ وہ حکومت کو اینٹی مسلم میڈیا کے انجام سے باخبر کرائے اور حکومت کو اس بات سے آگاہ کرے کہ میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ روش ملک کے حق میں کیسے نقصان دہ ہے۔

جس طرح افراد سے جمہوریت کے کچھ تقاضے ہیں اسی طرح میڈیا کے لیے بھی کچھ جمہوری اقدار ہیں، چنانچہ جمہوری راستوں سے بھی میڈیا کو جواب دہ اور شفاف بنانے کا عمل شروع کیا جانا چاہئے۔ مسلم تنظیموں اور این جی اوز کو یہ تربیت دی جائے کہ ایسی میڈیاکی رپورٹوں پر قانونی راستہ کیسے لیا جاسکتا ہے۔ قانونی راستہ اختیار کرنے کے اچھے نتائج سامنے آتے ہیں اور یہ بات دوسروں کے لے سبق بھی دے گی۔

مسلمانوں کے سلسلے میں الٹی سیدھی باتیں پھیلانے کی جرأت میڈیا کو شاید اس وجہ سے بھی زیادہ ہوئی کہ ان کی شر انگیز رپورٹوں پر کسی فرد یا مسلم تنظیم نے کبھی ایسی مضبوط قانونی کارروائی نہیں کی جس سے کہ وہ اخبار بھی عبرت لیتا اور دوسرے بھی سبق لیتے۔

آخری بات یہ ہے کہ عام افراد میں یہ بیداری لائی جائے کے میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ روش پر عوام کا ردعمل کیسے ہو، اور عوام اس کے خلاف کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ یہ بتایا جائے کہ صرف مظاہرے اور احتجاج اس کا حل نہیں بلکہ ’’میڈیا کاؤنٹر اسٹریٹجی‘‘ اختیار کرنا چاہیے۔ عوامی بیداری لوکل میڈیا کو ذمہ دار بنانے میں سب سے بڑی مہم ہوگی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں