ایک سال سے چھ سات سال کی عمر وہ عمر ہوتی ہے جس میں بچے کی شخصیت کی بنیادیں تشکیل پاتی ہیں۔ اس لیے اس عرصے کو فاونڈیشن ائیرز یا فاونڈیشن ایج کہا جاتا ہے۔ اس عمر میں بچے کی عادتیں، اس کے اطوار، اخلاق اور مزاج ایک خاص رخ اختیار کرلیتے ہیں۔ بعد میں یہ رخ بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے ماں باپ کی ذمے داری ہے کہ اس عمر کے بچوں پر خصوصی توجہ دیں اور ان کے مزاج اور لاشعور کو درست رخ پر تشکیل دیں اسی سے ان کی شخصیت کی تعمیر کے لیے صحیح بنیادیں فراہم ہوتی ہیں۔ بعض ماں باپ اس عمر کو محض کھیلنے کودنے کی عمر سمجھتے ہیں اور بچے کی تربیت کے تقاضوں سے یکسر غافل رہتے ہیں ۔ دوسری طرف بعض والدین تربیت کے جوش میں اس عمر کی ضرورتوں اور نزاکتوں کو سمجھ نہیں پاتے اور اپنی غلطیوں سے غلط بنیادیں کھڑی کردیتے ہیں۔ اس عمر میں ماں باپ جو غلطیاں کرتے ہیں اُن کے اثرات بچے کی شخصیت پر ساری عمر رہتے ہیں۔ہمارے خیال میں درج ذیل تین اہم اصول ہیں جو اس عمر میں بچے کی شخصیت سازی کی بنیادوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ان اصولوں کا لحاظ رکھا جائے تو کم عمری میں شخصیت کی ٹھوس اور مضبوط بنیادیں فراہم ہوجاتی ہیں اور ان بنیادوں پر ایک اچھی شخصیت کی اٹھان عمر کے اگلے مرحلوں میں آسان ہوجاتی ہے۔
پہلا اصول
بچے کو عزت دیں اوراس کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔ جدید نفسیاتی تحقیقات سے اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ خودی اور عزت نفس کے احساسات شیر خواری ہی سے پروان چڑھنے لگتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بچے کی عزت نفس کا بالکل خیال رکھا نہیں جاتا۔ہر راہ چلتا شخص بچوں کو ڈانٹنا اور جھڑکنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ ماں باپ بھی سر عام انہیں ٹوکتے اور ڈانٹتے رہتے ہیں۔ ان کی مرضی اور خواہش کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ مجلسوں اور دعوتوں میں ان کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔اسکولوں اور مدرسوں میں آج بھی ان کی زد و کوب اور بے عزتی عام بات ہے۔ مسجدوں تک میں قدم قدم پر انہیں توہین و ہتک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سمجھ دار اور شریف بچوں کو بھی دوسرے بچوں کی غلطیوں پر اجتماعی سزا یا اجتماعی ڈانٹ کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ ماں باپ سے بھی یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دفاع میں آگے نہ آئیں اور اساتذہ ، پڑوسیوں یا دیگر بزرگوں کی اپنے بچوں سے بدسلوکی پر خاموش رہیں۔ ان سب سے بچے کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوتی ہے۔اسے ذلت اور تحقیر کا احساس ہوتا ہے جو اس کے معصوم ذہن پر بڑے دوررس اثرات ڈالتا ہے۔
انسان کی شخصیت میں عزت نفس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ آدمی اگر اپنے آپ کی عزت کرے تو اچھے اخلاق اور ترقی کے داعیے پیدا ہوتے ہیں۔ خود اعتمادی اور آگے بڑھنے کی امنگ اور حوصلہ عزت نفس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جو شخص اپنی عزت کرتا ہے وہی اپنی شخصیت کو برائیوں اور گندگیوں کی دلدل سے بچا سکتا ہے۔حضرت علی ؓ سے منسوب ایک قول بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ مَنْ كَرُمَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ لَمْ يُهِنْهَا بِالْمَعْصِيَة (جس شخص کا نفس اس کے لیے محترم ہوتا ہے ، وہ گناہ کے ذریعے اس کی تذلیل نہیں کرتا)۔
کم عمری میں بچوں کی عزت نفس مجروح ہوجائے تو گویا ایک اچھی شخصیت کی تعمیر کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ماں باپ کی ذمےداری ہے کہ بچے کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور اس عمر میں مضبوط قوت ارادی اور عزت نفس کی ٹھوس بنیاد اس کی تعمیر شخصیت کے لیے فراہم کریں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ خود اپنے بچے کا احترام و عزت کریں اور اسے تذلیل و تحقیر سے محفوظ رکھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے بہت واضح الفاظ میں بچوں کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ ان کی تربیت سے پہلے ان کی عزت کی نصیحت کی ہے۔ اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ وَاَحْسِنُوْا اَدَبَھُمْ (اپنے بچوں کی عزت کرواور انہیں اچھے آداب سکھاو۔سنن ابن ماجہ روایت انس بن مالکؓ) رسول اللہ ﷺ نے کبھی بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں فرمائی۔ آپ کی خدمت میں پورا بچپن گذارنے والے انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں:خَدَمْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ قَطُّ، وَمَا قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ، لِمَ صَنَعْتَهُ، وَلا لِشَيْءٍ تَرَكْتُهُ، لِمَ تَرَكْتَهُ؟ وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا (میں نے رسول اللہ ﷺ کی دس سال خدمت کی۔ (اس عرصے میں کبھی) آپ نے مجھ سے ناراضگی کا ہلکا سا اظہار بھی نہیں کیا۔ یہ تک نہیں کہا کہ فلاں حرکت تم نے کیوں کی؟ یا فلاں (مطلوبہ)کام کیوں نہیں کیا؟بے شک رسول اللہ ﷺ انسانوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ روایت انس بن مالک ؓ۔بخاری و مسلم) آپ جب بچوں کے پاس سے گذرتے تو خود پہل کرکے سلام کرتے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک پورا باب یہی باندھا ہے۔ باب التسلیم علی الصبیان (بچوں کو سلام کرنے کا باب)
آپ ﷺ بچوں کی عزت نفس کا کس قدر خیال رکھتے تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ایک محفل میں رسول اللہ ﷺ کو کسی مشروب کا پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ نے اس میں سے کچھ نوش فرمایا اور اس کے بعد دوسرے شرکائے محفل میں اسے تقسیم کرنا چاہا۔ عادت کے مطابق دائیں طرف سے شروع کرنا چاہا تو وہاں صرف ایک کم عمر بچہ (عبد اللہ بن عباسؓ ) بیٹھا تھا جبکہ آپ کی بائیں جانب بزرگ صحابہ تشریف فرماتھے۔ آپ ﷺ نے اس معصوم بچے سے باقاعدہ اجازت طلب کی يَا غُـلَامُ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَهُ الْأَشْيَاخَ (برخوردار، کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں تم سے پہلے یہ مشروب ان بزرگوں کو دوں؟) عبد اللہ بن عباس ؓ نے جواب دیا کہ مَا کُنْتُ لِأُوْثِرَ بِفَضْلِي مِنْکَ أَحَدًا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ( اے اللہ کے رسول، میں آپ کی چھوڑی ہوئی اس متبرک شئے کے معاملے میں دوسرے کو خود پر ترجیح نہیں دے سکتا۔روایت سہل بن سعدؓ۔صحیح بخاری) راوی کہتے ہیں کہ بچے کا یہ جواب سن کر آپ نے دیگر بزرگوں کو چھوڑکر وہ مشروب پہلے بچے کو عنایت فرمایا۔
بچوں کو جب ان کے بڑے اس طرح برابری کا مقام اور عزت دیتے ہیں تو ان کی نگاہوں میں اپنی عزت بڑھ جاتی ہے۔ ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ عمر کے اس مرحلے میں اس عزت نفس اور خود اعتمادی کی بڑی اساسی اہمیت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اس سنت مبارکہ کے آئینے میں جب ہم اپنے معاشرے میں بچوں کے ساتھ سلوک کو دیکھتے ہیں تو بڑا فرق نظر آتا ہے۔ یہ فرق ہمارے بہت سے تربیتی مسائل کی جڑ ہے۔
دوسرا اصول
بے تکلفی اور بہتر کمیونکیشن کے ذریعے ان کے اندر اچھے برے کی تمیز پیدا کی جائے۔اس عمر کے بچوں کی یہ بڑی ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے بڑے ان کے ساتھ کچھ وقت گذاریں۔ ساتھ میں کھانا کھانا، دن میں چند منٹ بات کرنا، کبھی ساتھ میں گھومنے یا کھانا کھانے کے لیے جانا، ساتھ کھیلنا، یہ سب وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے بچے کی خود اعتمادی بھی بڑھتی ہے اور وہ بڑوں کی اچھی باتیں اور ان کی قدریں سیکھتا بھی ہے۔انہی تعلقات سے اس پر وہ حدود بھی واضح ہوتی ہیں جن کے اندر اسے رہنا ہے۔ پچھلے زمانوں میں بچوں کو بہت سے بڑو ں کی صحبت میسر ہوتی تھی۔ دادا ، دادی،چچا وغیرہ کے علاوہ محلے کے لوگ اور دیگر اعزہ کا بھی مختلف بہانوں سے بچوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ وقت گذرتا تھا۔ آج اکثر گھروں میں بچوں کو صرف والدین کا ساتھ میسر ہے۔ والدین بھی بے حد مصروف ہیں ۔ جو کچھ وقت ساتھ گذرتا ہے ان میں بھی ٹی وی اور موبائل بڑے حجاب بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال بچوں کے لیے بہت سے تربیتی نقائص پیدا کرتی ہے۔
متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بچوں کے ساتھ گھل مل کررہتے تھے۔ ان کے ساتھ بات چیت فرماتے۔ ان کے ساتھ کھیلتے، ہنسی مذاق فرماتے اور بے تکلف اوقات گذارتے تھے۔اور اسی بے تکلفی میں ان پر اچھے اور برے کی تمیز واضح فرماتے اور آداب سکھاتے۔روایات میں آتا ہے کہ آپ ﷺ،اپنے نواسوں حسنؓ اور حسین ؓ کے لیے سواری بنتے۔ نماز کے دوران بھی دونوں بچے بلاتکلف آپ کے پاس آجاتے۔ آپ کی پیٹھ پر چڑھ جاتے۔ خطبے کے دوران تشریف لاتے تو آپ ﷺ خطبہ روک کر ان کو گود میں اٹھالیتے۔ سجدے کے دوران آپ پر چڑھ جاتے تو آپ سجدہ طویل فرمادیتے۔ایک دفعہ اسی سبب آپ نے سجدہ اتنا طویل کردیا کہ لوگ اندیشوں کے شکار ہوگئے۔ سیدنا عباس ؓ کے دو بچوں (عبد اللہ اور عبید اللہ) کے درمیان دوڑ لگاتے۔ دونوں بچے دوڑ کر آتے اور اچھل کر آپ کی گود میں چڑھ جاتے۔ موسم کا پہلا پھل آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا تو راوی کہتے ہیں کہ ثم یدعو أصغر ولد یراہ فیعطیہ ذلک الثمر رسول اللہ ﷺ کسی چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ پھل اسے کھلاتے۔ (روایت ابوہریرہؓ۔ صحیح مسلم)
بچوں سے بے تکلف رشتے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کےبھولے بھالے اور معصوم مشغلوں میں دلچسپی لی جائے اور ان کے کھیلوں اور کھلونوں کو بھی اہمیت دی جائے۔ ان کے سلسلے میں ان سے بات کی جائے۔ انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ان کا ایک چھوٹا بھائی تھا۔ اس کے پاس ایک چڑیا تھی جس کانام نغیر تھا جس سے وہ کھیلتا تھا اور بہت محبوب رکھتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ ملتے تو ابو عمیرؓ کو گود میں اٹھاتے اور دریافت فرماتے۔ يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ اے ابو عمیرؓ، (آج) نغیر نے کیا کیا؟
اسی بے تکلفی کے نتیجے میں والدین اپنے بچوں پر اپنی توقعات واضح کرسکتے ہیں۔ اچھے اور برے کی تمیز پیدا کرسکتے ہیں۔ ماہرین نفسیات اس عمر کے بچوں سے واضح کمیونکیشن کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عمر ہی میں ایسا رشتہ قائم کریں کہ صاف صاف اور واضح طور پر اپنی توقعات ان کو بتاسکیں۔ ان حدود کی وضاحت کرسکیں جن کی انہیں لازماً پابندی کرنی ہے۔ اپنے جذبات کاان کے سامنے اظہار کرسکیں اور وہ ان سے اپنے جذبات کمیونکیٹ کرسکیں۔ بچوں سے مشورہ کرسکیں۔ فیصلہ سازی میں ان کو شریک بناسکیں۔ بعض معاملات میں ان سے مذاکرات کرسکیں۔
سیرت رسول میں ان سب تعلقات کی مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت حسین نے ایک دفعہ آپ کے پاس آئی ہوئی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لی تو آپ نے وہ کھجور اگلوائی اور فرمایا آل محمد صدقے کا مال نہیں کھا سکتے۔ حضرت فضل بن عباسؓ اپنے بچپن میں ایک بار نظر بد سے حفاظت کا کوئی دھاگہ لٹکائے آئے تو آپ نے اس دھاگے کو توڑدیا۔ عمر بن ابوسلمہ ؓ کھانے کے دوران ادھر ادھر سے کھانے لگے تو آپ نے بڑے پیار سے انہیں مخاطب کیا اور کھانے کے آداب سکھائے۔ ایک اور بچہ گھر میں بلا اجازت داخل ہوا تو آپ نے فرمایا باہر جاؤ، سلام کرو پھر اجازت لے کر گھر میں داخل ہوؤ۔ ان تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں پر مشفقانہ کمیونکیشن کے ذریعے اپنی توقعات اچھی طرح واضح کردینی چاہیے۔
بچوں سے متعلق امور میں ان سے مشاورت کا اشارہ تو راست قرآن میں موجود ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا تو اسماعیل سے مشورہ کیا فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی (پس جب وہ اس کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچا ، اس نے کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں یکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں ۔ تو غور کرلو تمہاری کیا رائے ہے؟)
تیسرا اصول
تعریف و حوصلہ افزائی کے ذریعے ان کی اچھی باتوں کو مستحکم کیجیے۔بچوں کی تربیت میں ان تعریفی و ستائشی کلمات کی بہت اہمیت ہوتی ہے جو والدین اور دیگر بڑے ان کے لیے بولتے ہیں۔ ان ہی کلمات سے بچوں کا لاشعور کچھ باتوں کو اچھی باتوں کے طور پر قبول کرتا ہے اور انہیں بچے کی عادت اور مزاج کا حصہ بناتا ہے۔ ماہرین نفسیات مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے بچوں کو غلطی کرتے ہوئے پکڑنے کے بجائے ، اچھے کام کرتے ہوئے پکڑیں یعنی ان کی اچھی باتوں اور اچھے کاموں کو نوٹ کریں۔ واہ، آج تم اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ بہت اچھے سے کھیل رہے تھے اور اس کا بڑا خیال رکھ رہے تھے۔تم نے آج اپنا بستر بہت سلیقے سے سیٹ کیا ہے۔ آج مولانا کے سامنے جب تم قرآن پڑھ رہے تھے تو میں سن رہی تھی۔ بہت روانی آگئی ہے۔ ماشاء اللہ۔ والدین کا اس طرح خوبیوں کو نوٹ کرنا اور ان کا اظہار کرنا بچوں کی تربیت پر بڑے مفید اثرات ڈالتا ہے۔
ماہرین یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ عام طور پر اگر کبھی بچے کو ٹوکنے یا ڈانٹنے یا کسی منفی بات یاغلطی پر متوجہ کرنے کی نوبت آئے تو اس سے کم سے کم تین گنا تعداد میں اس کی خوبیوں کا تذکرہ اور اعتراف ہونا چاہیے۔ ہر روز کم سے کم ایک بہانہ والدین کو ایسا ضرور تلاش کرنا چاہیے جو انہیں بچے کی تعریف و ستائش کا موقع فراہم کرسکے۔ زبانی ستائش کے علاوہ انہیں گلے لگانا، بوسہ دینا، پیٹھ تھپتھپانا، کوئی انعام دینا، یہ چیزیں بھی تحسین و ستائش کا بہت اچھا ذریعہ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے اسوے میں بچوں کی ہمت افزائی اور تعریف و ستائش کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے منبر پر حضرت حسن ؓ کو اپنے پہلو میں بٹھایا اور لوگوں سے فرمایا: إِنَّ ابْنِي هٰذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللهَ أَنْ يُصْلِحَ بِه بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيْمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ ایک دن اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دوجماعتوں کے درمیان صلح فرمائے گا۔)اسامہ بن زید ؓاور حسن بن علیؓ کو ایک دفعہ اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما۔ میں بھی ان دونوں پر رحم کرتا ہوں۔ آٹھ سال کی عمر میں جب عبد اللہ بن زبیر ؓ بیعت کے لیے کچھ اور بچوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دوسرے بچے جھجک رہے تھے لیکن ابن زبیرؓ خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ عبد اللہ اپنے باپ ہی کی طرح بہادر اور حوصلہ مند ہے۔ عبد اللہ بن عباس کی ذہانت کو دیکھا تو دعا فرمائی کہ اللّٰھم فَقِّھہُ فی الدین و عَلِّمہُ التاویل اے اللہ اس کو دین کی سوجھ بوجھ اور تفسیر کا علم عطا فرما۔
اس طرح یہ تین اصول بچے کی تربیت اور اچھی شخصیت کی تعمیر کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ پہلے اصول کے ذریعہ(عزت نفس کا خیال) آپ اس کے اندر خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ عزت نفس پروان چڑھاتے ہیں۔ اور حساس ضمیر کی افزائش کرتے ہیں۔ دوسرے اصول کے ذریعے آپ اس کے اور اپنے رشتے کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس رشتے کو اس لائق بناتے ہیں کہ آپ اس کی تربیت پر اثر انداز ہوسکیں اور اچھے برے کی تمیز اور حدود بھی واضح کرتے ہیں۔ تیسرے اصول کے ذریعے ، مثبت طریقے سے شخصیت کے اچھے پہلوؤں کو اس کے لاشعور میں پختگی کے ساتھ بٹھادیتے ہیں تاکہ یہ اچھے پہلو اس کی شخصیت کا مستقل حصہ بن جائیں۔
آج ہمارے معاشرے میں ان تینوں اصولوں کی خلاف ورزی عام ہے اور یہ ہمارے تربیتی مسائل کا ایک بڑا سبب ہے۔