فرانسس سٹرین

ڈاکٹر عبدالغنی فاروق

ذیل کا روحانی سفر ایک ایسی نوجوان یورپین خاتون کا ہے جس نے اپنی سرگزشت میں نہ تو اپنے ملک کا ذکر کیا ہے، نہ اپنے اسلامی نام کا انکشاف کیا ہے اور نہ اپنے خاندان اور والدین کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن راقم الحروف کا اندازہ ہے کہ موصوفہ کا تعلق ہالینڈ سے ہے۔ دراصل، جیسا کہ نامور مصنف اور ادیب مرحوم قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے (موصوف کئی برس تک ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے مقیم رہے ہیں) کہ ہالینڈ میں اسلام کے خلاف تعصب کا یہ عالم ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین رجسٹریشن کے رجسٹر میں اس کے مذہب کا خانہ خالی چھوڑ دیتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں کہ بڑا ہوکر یہ جس مذہب کو پسند کرے گا اختیار کرلے گا سوائے اسلام کے۔ چنانچہ شہاب صاحب کی روایت کے مطابق ہالینڈ میں کتنے ہی لوگ تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن اس خوف سے کہ انہیں ملازمت سے برطرف کردیا جائے گا، وہ قبولِ اسلام کا معاملہ کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ اب موصوفہ کی روح پرور اور ایمان افروز داستان ملاحظہ فرمائیے۔

…………

یورپ میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اس وجہ سے مسلمان ہوگئے کہ انھوں نے کسی اسلامی ملک کا سفر اختیار کیا اور مسلمانوں کا اخلاص، ان کی محبت اور سادگی کا تجربہ کیا اور پھر یوروپین معاشرے کی مادہ پرستی، پُرتکلف لیکن اخلاص اور محبت سے عاری زندگی سے اس کا مقابلہ کیا، تو وہ مسلمان ہوگئے لیکن جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں نے نہ تو کسی اسلامی ملک کا سفر اختیار کیا اور نہ اسلام قبول کرنے تک کسی مسلمان سے میرا تعارف ہوا۔یہ میرا ذاتی مطالعہ ہے جس کے سہارے میں نے روح کی دنیا کا سفر کیا، اس کے مختلف مدارج کو طے کیا حتی کہ اس کے آخری سرے پر سیدھی اسلام کے صحن میں جاداخل ہوئی۔

میں ایک رومن کیتھولک خاندان میں پیدا ہوئی اور اسی ماحول میں پلی بڑھی۔ میری تعلیم بھی ایک کانونٹ اسکول میں ہوئی لیکن اسکول کی تعلیم مکمل ہونے تک میں عیسائیت کے بنیادی عقائد کے بارے میں شک و شبہے میں مبتلا ہوچکی تھی۔ یعنی تثلیث، حضرت مسیح کی اولیت، پیدائشی طور پر گناہ گار ہونے کا تصور اور کفارے کا عقیدہ میری پروان چڑھتی ہوئی عقل کو اپیل نہیں کرسکا تھا اور نہ صرف یہ عقائد خلاف عقل تھے اور بائبل سے ان کے حق میں کوئی ثبوت نہیں ملتے تھے بلکہ اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ نقصان دہ بھی تھے۔ پھر اکثر میں یہ بھی سوچتی تھی کہ اگر خدا موجود ہے اور وہ نیکی اور سچائی کا منبع ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے محض ایک ہی طبقے کو حق و صداقت سے نواز دیا اور باقی تمام نوع انسان کو غلطی اور گمراہی کے اندھیروں میں جھونک دیا۔ یہ عمل تو مبنی بر انصاف نہیں ہے۔ چنانچہ اسی حوالے سے میرے ذہن میں دو امکانات لہرانے لگتے۔ یا تو سارے مذاہب اپنی اساس اور بنیاد کے اعتبار سے سچے یا سارے ہی بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔

یہ بات تو ظاہر ہے کہ سارے ہی مذاہب اس یقین کا اعلان کرتے ہیں کہ صرف جسم موت سے دوچار ہوتا ہے جب کہ روح زندہ و پائندہ رہتی ہے اور روح کی زندگی کے حامی اس کے ثبوت فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے میں نے ان کے دعاوی کا مطالعہ شروع کردیا۔ متعدد دوسرے محققین نے بھی اس حوالے سے اپنے تجربات کو بیان کیا ہے اور اس حوالے سے مکاری اور عیاری کی بھی مثالیں موجود ہیں، مگر نامور سائنس داں سیور راج نے تو اپنی ساری صلاحیتیں اس موضوع کے لیے وقف کردی ہیں، اس لیے میں نے ان کی کاوشوں کو خصوصی توجہ سے پڑھا اور واقعی قائل ہوگئی کہ جسمانی موت کے باوجود روح زندہ رہتی ہے۔

روح کے بارے میں مطمئن ہونے کے بعد میں نے مشرقی مذاہب کا مطالعہ شروع کیا۔ چونکہ یورپ میں ہندو ویدانت اور یوگا کا تعارف عام تھا اسی لیے میں نے بھی آغاز اسی سے کیا اور ہندو ویدانت اور مذہب کے بارے میں مطالعہ کرنے لگی اور جلد ہی اپنشد، یوگا، پتن جلی کے فرمودات اور سب سے بڑھ کر بھگوت گیتا سے میں نے خاص روحانی فیضان اور سکون حاصل کیا۔ چنانچہ آئندہ کئی سال تک میں اسی ماحول میں کھوئی رہی۔ ہندو فلاسفی کا مطالعہ کرتی اور دن کا ایک حصہ مراقبہ میں مصروف رہتی۔ میں تسلیم کرتی ہوں کہ اگرچہ ہندو مذہب ذات پات کی شدید جکڑبندیوں کا ملغوبہ ہے، اس میں بے شمار توہمات بھی ہیں اور بت پرستی بھی، لیکن میں نے محسوس کیا کہ کم از کم نظریاتی اعتبار سے بہت دور جاکر اس مذہب میں روحانی فیضان اور سکون کی گنجائش بہر حال موجود ہے۔

تاہم فلسفہ اور نظریہ بظاہر کتنا ہی کارآمد اور مقدس کیوں نہ ہو، وہ عمل کا بدل نہیں ہوسکتا، اس لیے میں آخر کار اس نتیجہ پر پہنچی کہ ویدانت کا فلسفہ ایک انسان کی روز مرہ زندگی میں عملی رہنمائی کا سبب نہیں بن سکتا۔ خصوصاً جب میری شادی ہوگئی اور ننھے بچوں نے میری مصروفیات بڑھا دیں، تو وہ فرصت اور خلوت ناپید ہوگئی جو مراقبے کے لیے ضروری تھی۔ یوں بھی اتنے سالوں کی ریاضت کے بعد میرا ذہن اس صورت حال پر مطمئن نہ تھا اور میں محض جذبہ و وجدان کے سہارے آخر کب تک اس سے چمٹی رہتی، تنگ آکر میںنے ویدانت اور یوگا سے کنارہ کشی اختیا رکرلی اور بدھ مت کا مطالعہ کرنے کا ارادہ کیا۔

ہندومت کے برعکس بدھ ازم ایک بین الاقوامی عقیدہ ہے اور یورپ میں اس کے لیے ایک ہمدردانہ میلان پایا جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے بدھ مت کے بارے میں ضروری کتابیں خریدیں، اس کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں لٹریچر حاصل کیا اور دیکھا کہ اس فلسفہ میں بھی بڑی پیچیدگیاں ہیں، دہنی الجھاوے ہیں اور عبادت کا ایک مشینی انداز ہے، لیکن میں نے محسوس کیا کہ اگر سادہ قسم کا بدھ عقیدہ اختیار کرلیا جائے اور کبھی کبھی مراقبہ کرلیا جائے تو بھی ایک باوقار مذہبی زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ عیسائیت کی طرح بدھ مت میں بھی روحانی کمال صرف خانقاہی نظام اور تجرد کی زندگی سے مشروط تھا۔ اور بھرپور معاشرتی زندگی گزارتے ہوئے کوئی فرد بھی خواہ وہ کتنا ہی پاکبازاور باعمل کیوں نہ ہو، اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ چنانچہ یہ منظر میری سمجھ سے بالا تھا کہ اگرچہ خانقاہی فضا میں مذہبی زندگی تقاضوں سے عہدہ برآہونا نسبتاً آسان ہے لیکن یہ اس روحانی پاکیزگی سے برتر اور زیادہ قابل قدر کیسے ہوسکتی ہے جو ایک مصروف اور بھر پور معاشرتی زندگی کے مسائل میں رہتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے جب کہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ تجرد اور خانقاہی مزاج سے انسانی زندگی اور معاشرے کو، توالد و تناسل کے حوالے سے ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے ا ور عملی اعتبار سے اس کے تقاضوں کو نبھانا فطرت اور انسانی جبلت کے صریحاً خلاف ہے۔

بدھ مت سے بد دل ہوکر میں نے مذاہب کے تقابلی موازنے کاارادہ کیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے مختلف ادیان کے فلاسفہ کا مطالعہ شروع کیا اور خصوصاً Duysbroeck Eckhart جلال الدین رومی اور تاؤتی چنگ سے بہت متاثر ہوئی۔ چونکہ میں مراقبہ سے گہرا قلبی تعلق قائم کرچکی تھی، اس لیے ان سب حضرات کے خیالات و نظریات نے مجھے روحانی اعتبار سے طمانیت اور راحت سے ہم کنار کیا اور ان لوگوں کے تجربات نے میری فکر کو بڑی وسعت عطا کی۔

متذکرہ حضرات کے مطالعہ نے میرے اس یقین کو جلا بخشی کہ دنیا میں جتنے بھی بڑے مذاہب ہیں، بنیادی اعتبار سے ان سب کا ماخذایک ہے۔ چونکہ میں متذکرہ حضرات میں سب سے زیادہ جلال الدین رومی سے متاثر ہوئی تھی اور رومی کی مثنوی مجھے اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اعلی ترین بلندیوں پر فائز نظر آرہی تھی، اس لیے میں نے ارادہ کرلیا کہ اس شخص کے مذہب سے مکمل آگاہی حاصل کرلینی چاہیے۔ اگرچہ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم تھی کہ یورپ میں اسلام کا تعارف بہت ہی منفی بلکہ وحشت ناک صورت میں کرایا گیا تھا اور اس کے بارے میں مطالعے کا سوچتے ہوئے میں خوف اور تذبذب میں مبتلا ہورہی تھی کہ یورپ میں جب بھی اسلام کا ذکر آتا تھا عرب کے وحشی قبائل اور ان کے عیاش حکمراں اپنی تمام تر درندگی اور بربریت کے ساتھ تصور کو خوف ناک بنادیتے تھے۔

لیکن یہ کیا …؟ اسلام کے مطالعے نے تو مجھے ششدر اور مبہوت کردیا۔ میں عیسائیت کی تثلیث اور بت پرستی سے سخت بیزار تھی جب کہ اسلام کے بے میل عقیدہ توحید نے مجھے بے حد متاثر کیا اور خدا سے اس کا گہرا اخلاص اور ہمہ پہلو تعلق مجھے بالکل نئی چیز معلوم ہوئی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام عیسائیت، ہندو مت اور بدھ ازم کی طرح ایک فلسفہ نہیں، بلکہ اپنے ماننے والوں کا ایک مکمل اور قابل عمل ضابطہ حیات بھی فراہم کرتا ہے اور یہ ضابطہ حیات حیرت انگیز طور پر مذہبی جذبے کو گہرائی بھی عطا کرتا ہے اور اس میں ترقی و استحکام بھی لاتا ہے۔ پھر یہ دیکھ کر اور بھی خوشگوار حیرت ہوئی کہ اسلام کی تعلیمات بڑی سادہ ہیں اور وہ زمانے کی دستبر دسے مکمل محفوظ رہی ہیں یعنی دیگر مذاہب کی طرح نہ ان میں کوئی ترمیم و تنسیخ ہوئی ہے نہ وہ اتنی پیچیدہ و مشکل بنادی گئی ہیں کہ ان پر عمل نہ کیا جاسکے۔

اسلام کے اس پہلو نے بھی مجھے بے حد متاثر کیا کہ یہاں سارے پیغمبروں کا یکساں احترام کیا جاتا ہے اور کسی ایک پیغمبر کے خلاف معمولی سے بدگمانی ناقابل برداشت ہے۔ یہ میرے لیے ایک خوشگوار انکشاف تھا کہ عیسائیت، یہودیت دونوں اس خوبی سے محروم ہیں اور دونوں نہ صرف جناب محمد ﷺ کے خلاف شدید بغض اور تصب میں مبتلا ہیں بلکہ بائبل میں مختلف پیغمبروں کے کردار اور حیثیت کو بری طرح مسخ کیا گیا ہے۔ اسلام کا دعویٰ مجھے بہت اچھا لگا اور فطرت کے عین قریب نظر آیا کہ حقیقتِ کبریٰ ایک ہی ہے، سارے پیغمبر اسی کے داعی اور ترجمان تھے جب کہ جناب محمد ﷺ پر یہ حقیقت مکمل کردی گئی۔

پھر اس انکشاف سے بھی مجھے بڑی مسرت ہوئی کہ اسلام کی تعلیمات اپنی روح کے اعتبار سے حقیقت پسندانہ اور تعمیری کردار کی حامل ہیں اور دیگر مذاہب کی طرح یہ تعلیمات جسم اور روح کے درمیان کوئی تصادم پیدا نہیں کرتیں نہ عام انسانی زندگی کے حوالے سے اس کا میلان کسی بے جا رعایت پر مبنی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان تعلیمات پر عمل کرکے روحانی اعتبار سے محنت اور ارتقاء کے بے شمار مواقع میسر آسکتے ہیں اور صاف نظر آرہا تھا کہ زندگی اپنے سارے شعبوں سمیت ان مواقع سے مستفید ہوسکتی ہے اور انسان بھر پور معاشرتی زندگی گزارتے ہوئے بھی اپنے خدا سے گہرا تعلق قائم کرسکتا ہے اور اس مقصد کے لیے نہ کسی مخصوص مذہبی طبقے کی احتیاج کی ضرورت ہے نہ دنیا کو تیاگ کر رسمی قسم کے مراقبوں کی۔

اسلام کا بھر پور اور مکمل تعارف حاصل ہوگیاتو میں نے اندازہ کیا کہ دراصل میں تو ہمیشہ ہی سے مسلمان تھی۔ خصوصاً اس وقت سے جب میں اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ سارے پیغمبر بنی نوع انسان کے لیے ایک ہی مقصدی پیغام لے کر آئے تھے۔ ان کی زبان اور اصطلاحات مختلف تھیں، لیکن ان کا مرکز و ماخذ ایک ہی تھا اور یہ پیغام آخر کار حضر محمد ﷺ پر مکمل ہوگیا اور اپنی محفوظ ترین صورت میں آج بھی قائم و دائم ہے۔

دورِ حاضر میں جب کہ رسل و رسائل کے انتہائی تیز رفتار ذرائع کی بدولت دنیا کے فاصلے سمٹ گئے ہیں اور مختلف قومیں ایک دوسرے کے بہت ہی قریب آگئی ہیں، مسلم تہذیب اور مغربی تہذیب بھی باہم دیگر ایک دوسری پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ یہ صورت حال یقینا مفید ثابت ہوسکتی ہے بشرطے کہ عمل کا انداز درست سمت میں ہو، لیکن بدقسمتی سے دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی نوجوان نسل یورپی تہذیب سے اس قدر متاثر اور مرعوب ہے کہ وہ اس کی تقلید اور تحسین کا موقع ضائع نہیںکرتی حتی کہ بعض اوقات اس بے خدا تہذیب کی خاطر اسلامی تعلیمات تک کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔

وضاحت کی خاطر عرض کردوں کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یورپی تہذیب کو سراپا شر قرار دیتے ہیں۔ اس تہذیب کے یقینا روشن پہلو بھی ہیں۔ سائنسی اور ٹیکنیکل علم کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا ہے۔ میڈیکل، رفاہ عامہ اور تعلیم کے حوالے سے بے پناہ کام ہوا اور انسانی حقوق کی شناخت قائم ہوئی، لیکن اس تہذیب کا دوسرا پہلو تاریک بھی ہے۔ مذہبی اخلاقی قدریں مجروح ہوئی ہیں اور دولت، تفریح، عیاشی عمومی زندگی کا لازمہ بن گئے ہیں۔ معیار زندگی کی ایک دوڑ ہے جس میں ہر شخص مبتلا ہے۔ حیا اور پاک دامنی کا سر عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔ شراب اور زناا س تہذیب کی پہچان بن گئی ہے اور خاندانی زندگی کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا ہے۔

چنانچہ میرے نزدیک اس صورت حال میں مسلمانوں کو اپنا کردار ادا کرنے کا ایک سنہرا موقع حاصل ہوا ہے۔ کاش وہ میدانِ عمل میں اتریں اور اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے دنیا کی راہنمائی کریں۔ یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ اسلام پر ان کا ایمان محکم ہو، اسلامی تعلیمات کو وہ روز مرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بنالیں اور علمی ترقی اور محنت کو وہ اپنا شعار بنالیں اور صحیح اسلامی تناظر میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یورپی تہذیب کی ذہنی و عملی غلامی سے بچتے ہوئے اس سے صلح جوئی اور مفاہمت کا انداز اختیار کریں۔ حکمت، تدبر اور مفاہمت سے صورت حال میں انقلابی تبدیلی آسکتی ہے اور نہ صرف یورپ میں اسلام کی پیش رفت تیز ہوسکتی ہے بلکہ دنیا کا مستقبل ایک خوشگوار ماحول میں ڈھل سکتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں