فرشتہ

منظر امام

 

 

 

 

 

میں سوچتا ہوں کہ میرے ارد گرد آخر یہ سب کیا ہورہا ہے۔ لوگ کیسے کیسے گھناؤنے اور مکروہ جرائم کرنے لگے ہیں۔ جان اورعزت کی حفاظت محال ہوگئی ہے۔ آخر کیوں؟ کیا انسان کی فطرت ہی میں جرم شامل ہے؟ کیا انسان فطری طور پر وحشی اور سنگ دل ہے؟
میںنے اس موضوع پر کتاب لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں مجرموں سے انٹرویو لینا چاہتا تھا۔ ہر قسم کے مجرموں سے، تاکہ ان کی نفسیات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ جرم کیوں کرتے ہیں؟
بہت سی باتیں تو خود میرے علم میں تھیں۔ مثلاً: بیروزگاری ایک بڑا محرک ہے۔ اور اس کے علاوہ انتقام، نفرت، وقتی اشتعال، جنس، یہ سارے عوامل ایسے ہیں جو کسی کو بھی مجرم بناسکتے ہیں۔ کیا ان کے علاوہ اور بھی کچھ ہوسکتا ہے؟
میں نے اپنی کتاب کے چرچے شروع کردیے اور احباب سے ڈسکشن بھی اس موضوع پر کرنے لگا۔ بہت سوں نے میرے اس کام کو سراہا۔ بہت سوں کا یہ خیال تھا کہ میں اپنا وقت ضائع کروں گا کیونکہ ان کے بقول اس دنیا میں جتنے انسان تھے اتنے ہی محرکات جرم بھی تھے۔ ہر شخص کے مجرم بننے کا سبب ایک دوسرے سے الگ تھا۔ اس لیے میں کہاں تک پوری دنیا کے انٹرویو لے سکتا تھا۔
میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا: بھائی! اب تم ایک کام کرو تم نے کتاب لکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بہت اچھا کیا ہے لیکن تم جرم کا سبب تلاش نہ کرو بلکہ نیکی کا سبب تلاش کرو۔
مطلب یہ کہ اخبار میں اشتہار دو کہ ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے، جنھوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی جرم نہ کیا ہو یعنی چوری نہیں کی ہو، ڈاکہ نہیں ڈالا ہو، غیبت نہیں کی ہو، کسی کو اغوا نہ کیا ہو شراب اور زنا سے دور رہے ہوں وغیرہ وغیرہ۔
تو پھر اس سے کیا ہوگا؟
اول تو ایسا کوئی آدمی تمہارے پاس نہیں آئے گا اور اگر کوئی آبھی گیا تو تم اس سے معلوم کرسکتے ہو کہ آخر وہ نیک کیسے بنا رہا اس نے کوئی جرم کیوں نہیں کیا۔ اس کی تربیت کس انداز کی ہوئی ہے۔ اس نے کس ماحول میں پرورش پائی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک مکمل ریسرچ ورک ہوگا۔ پھر تم اس کو سامنے رکھ کر نیکی پر کتاب لکھ سکتے ہو۔
بہت اچھا آئیڈیا تھا۔ اس کا بالکل مختلف خیال جو مجھے بھی بھا گیا۔
میں نے اپنے دوست کی بات مان کر اخبار میں اس مضمون کا اشتہار شائع کرادیا اور اپنے گھر کا پتہ اور فون نمبر دے دیا کہ اگر ایسا کوئی شخص ہو تو فوری طور پر مجھ سے رابطہ کرے۔
میری توقع کے عین مطابق کچھ بھی نہیں ہوا۔ کوئی بھی نہیں آیا میرے پاس۔ دو چار فون تو آئے لیکن وہ مذاق اڑانے والے تھے۔ دو چار نے فون کرکے معلوم کیا کہ میںنے یہ کون سی دھوکہ بازی کی اسکیم شروع کی ہے۔
میں جانتا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔ اس دنیا میں ایسا کون ہے، جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو، یا جس سے کوئی جرم سرزد نہ ہوا ہو۔ میں نے اشتہار دے کر خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کیا تھا۔ لیکن ایک شام اچانک ایک آدمی میرے پاس آگیا۔
ادھیڑ عمر، سر کے بال کھچڑی سے تھے، عینک لگی ہوئی، ہونٹوں پر ایک مہربان اور پاکیزہ مسکراہٹ، اس کے چہرے سے بھی نرم دلی کا اظہار ہورہا تھا۔ مجموعی طور پر اس کی شخصیت خوش گوار تاثر پیدا کرنے والی تھی۔
مجھے کمال احمد کہتے ہیں۔ اس نے اپنا تعارف کرایا۔ میں آپ کے اشتہار کو پڑھ کر آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔
میں حیران نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ کیا واقعی اس دنیا میں کوئی ایسا بھی تھا جس نے کبھی کوئی جرم نہ کیا ہو۔ جس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوا ہو، انتہائی حیرت کی بات تھی یعنی میں اپنے سامنے ایک فرشتے کو دیکھ رہا تھا۔
کیا آپ واقعی ایسے ہی ہیں جیسا میں نے اشتہار شائع کرایا ہے؟ میں نے پوچھا۔
جی ہاں، شکر ہے ، اس کا۔
حیرت ہے! یہ بتائیں! میرا مطلب ہے … کہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی باتوں کی طرف آؤں گا۔ آپ نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔
میری یادداشت میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ کچھ سوچ کر بولا۔ ہاں ایک دفعہ مارکیٹ میں ایک شخص سے ٹکر ہوئی تھی اس کا سامان نیچے گر گیا تھا۔ میں نے اس سے بہت معذرت بھی کرلی تھی۔ شاید وہی دل آزاری ہو۔
نہیں، نہیں وہ کوئی بات نہیں ہے۔ اچھا یہ بتائیں آپ کے پاس گاڑی ہے۔
جی ہاں گزشتہ پندرہ برسوں سے میرے پاس گاڑی چلی آرہی ہے، یعنی میں صاحبِ کار ہوں اس نے کہا۔ اور آپ یقین کریں کہ یہ گاڑی میرے رزق حلال سے آئی ہے۔ رات دن کی محنت کے بعد میں نے تھوڑے پیسے جمع کیے تھے، اس سے گاڑی لے لی۔
ہاں ہاں یقین ہے مجھ کو، تو گاڑی چلاتے ہوئے کبھی ٹریفک وغیرہ کی خلاف ورزی؟
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ مضبوط لہجے میں بولا۔ میرا پورا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے۔ میں کبھی غلط پارکنگ نہیں کرتا، دوسری باتیں تو رہنے ہی دیں۔
کمال ہے میں اس کی باتیں سن سن کر حیرن ہوا جارہا تھا۔ اچھا یہ بتائیں کہ آپ نے کبھی چوری…
چوری… وہ بھڑک اٹھا۔ یہ آپ نے کیسی بات پوچھ لی۔ جو شخص رزق حلال کے لیے جان دیتا ہو، وہ چوری کیسے کرسکتا ہے۔ چوری ڈاکہ بے ایمانی وغیرہ میری سرشت ہی میں نہیں ہے۔
ایک انسانی کمزوری اور بھی ہوتی ہے اور وہ ہے کسی غیر لڑکی سے تعلق! اس کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا۔
ہاں، یہ واقعی انسان کی بہت ’’طاقت ور کمزوری‘‘ ہے۔ اس نے اعتراف کیا۔ لیکن شائد آپ کو یہ سن کر یقین نہ آئے گا کہ میں نے اپنی بیوی کے علاوہ کسی اور لڑکی یا عورت کے چہرے پر دوسری نگاہ نہیں ڈالی ہے۔ انجانے میں اچانک دیکھ لیا ہو تو وہ اور بات ہے۔ لیکن جان بوجھ کر دیکھنا اپنی آنکھوں کے لیے عذاب سمجھتا ہوں۔
سبحان اللہ میں نے بے ساختہ کہا۔ ایک بات اور… یہ ایک عام سی بات ہے یعنی غیبت۔ آپ نے کبھی کسی کی غیبت تو کی ہوگی؟
یہی تو وہ بات ہے، جس کی وجہ سے میرے دوست مجھے گونگا کہتے ہیں، اس نے بتایا۔ یعنی میرے سامنے کسی کی غیبت ہوتی رہتی ہے اس وقت میں یا تو انہیں منع کردیتا ہوں یا خاموش رہتا ہوں یا پھر اس محفل سے اٹھ کر باہر آجاتا ہوں۔
شراب یا نشے وغیرہ کی کوئی قسم؟
کیسی بات پوچھ لی آپ نے؟ وہ ہنس پڑا۔ جو شخص سگریٹ نوشی کو بھی غلط سمجھتا ہو، وہ شراب وغیرہ کہاں سے پئے گا۔
پڑوسیوں سے آپ کے تعلقات؟
بہت خوش گوار ہیں اس نے بتایا۔ پورا محلہ مجھ پر اتنا اعتماد کرتا ہے کہ بزرگوں کے ہوتے ہوئے معاملات کو میں ہی نمٹایا کرتا ہوں اس لیے کہ سب ہی مجھ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ سب اعتماد کرتے ہیں مجھ پر۔
اور وعدے کی پاس داری؟
اس کا ثبوت میرے کاروباری حلقے سے بھی مل سکتا ہے۔ میں نے جو وعدہ کرلیا وہ کرلیا۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ ہر حال میں اس وعدے کو پورا کرنا ہے اور اگر نہیں ہوسکتا تو میں صاف صاف معذرت کرلیتا ہوں۔ کسی کو دھوکے میں نہیں رکھتا۔
تو یہ سب آخر کس طرح ہوا؟
میں تو یہی کہوں گا کہ یہ سب ’’اوپر والے‘‘ کی مہربانی اور والدین کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ اس نے کہا: والدین نے میری نشو ونما ہی اس انداز سے کی تھی کہ کسی جرم یا کسی گناہ کی پرچھائیں بھی مجھ پر نہ پڑے۔
آپ میں کوئی تو انسانی کمزوری ہوگی؟ کوئی ایک۔ کیونکہ انسان تو اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
جی ہاں صرف ایک کمزوری ہے مجھ میں۔
وہ کیا؟
وہ یہ کہ میں جھوٹ بہت بولتا ہوں۔ اس نے اطمینان سے جواب دیا اور اٹھ کر چلا گیا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں