خانہ داری کے کام کاج اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ایک خاتون اگر ان فرائض کو اچھی طرح سے انجام دینا چاہے تو اس کا زیادہ تر وقت اسی میں صرف ہوجاتا ہے خصوصاً اگر چھوٹے بڑے تلے اوپر کے کئی بچے بھی ہوں۔ اس کے باوجود عورتوں کو تھوڑی بہت فرصت تو مل ہی جاتی ہے۔
ہر شخص اپنے فرصت کے اوقات کو مختلف طریقے سے گزارتا ہے۔ کچھ خواتین ان اوقات کو یونہی برباد کردیتی ہیں اور کوئی سود مند کام انجام نہیں دیتیں یا بغیر کسی مقصد کے گھر سے باہر کے چکر لگاتی رہتی ہیں یا کوئی دوسری عورت مل جاتی ہے تو اس سے باتوں میں مشغول ہوجاتی ہیں، یا ایسے گانے سنتی ہیں کہ جن سے سوائے وقت کی بربادی، اعصابی کمزوری اور اخلاقی گراوٹ کے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اس قسم کے لوگ یقینا نقصان اٹھاتے ہیں کیوں کہ اول تو فرصت کے اوقات بھی انسان کی عمر میں شمار ہوتے ہیں اور ان کو یوں ہی گنواں دینا پشیمانی کا باعث ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی اتنی مختصر ہے کہ ابھی آنکھ نہیں کھولی کہ بند کرنے کا وقت آجاتا ہے۔ حیرت کا مقام ہے! اگر تھوڑا سا پیسہ کھوجاتا ہے تو ہم افسردہ و غمگین ہوجاتے ہیں لیکن عمرعزیز کو تلف کرکے ہمیں کوئی غم محسوس نہیں ہوتا۔ ایک عاقل انسان اپنی گراں بہا عمر کے گھنٹوں بلکہ لمحوں کو بھی غنیمت سمجھ کر ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتا ہے۔ فرصت کے اوقات کو بہت مفید و بامقصد بنایا جاسکتا ہے!
دوسرا یہ کہ بیکار بیٹھنا خود نقصان دہ ہے اور اس کے برے نتائح برآمد ہوتے ہیں، بہت سی نفسیاتی، اعصابی بیماریاں، جن کی اکثر عورتوں کو شکایت رہتی ہے، خالی اور بے کار رہنے کے سبب پیدا ہوجاتی ہیں۔ بیکار آدمی کا ذہن ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہے اور غم و غصہ پیدا کرتا ہے۔ غم و غصہ اعصاب کو کمزور اور روح کو بے چین کرتا ہے۔ وہ انسان خوش نصیب ہے جو کام میں مشغول رہتا ہے۔ کاموں میں مشغول رہنا بہت فرحت بخش عمل ہے، بیکار لوگ زیادہ تر مضمحل اور افسردہ رہتے ہیں۔
کیا یہ چیز افسوس باعث نہیں کہ انسان اپنی قیمتی زندگی کو بیکار برباد کردے اور اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہ کرے!!
پیاری بہنو! آپ بھی اپنے فرصت کے اوقات سے چاہے وہ کم اور مختصر ہی کیوں نہ ہوں، بے شمار فائدے اٹھا سکتی ہیں۔ علمی و ادبی کام کرسکتی ہیں۔ اپنے ذوق کے مطابق خود یا اپنے شوہر سے مشورہ کرکے ایک مضمون کا انتخاب کرلیجیے اس مضمون سے متعلق کتابیں فراہم کیجیے اور فرصت کے لمحات میں ان کا مطالعہ کیجیے اور روز بروز اپنے علم اور معلومات میں اضافہ کیجیے۔
مضمون کا انتخاب، خود آپ کے ذوق سے تعلق رکھتا ہے۔ فزکس، کیمسٹری، ہیئت، سائیکولوجی، سوشیالوجی، قانون، تفسیر، قرآن، فلسفہ و کلام، علم اخلاق، تاریخ و ادب، ان میں سے کسی بھی مضمون یا کسی دوسرے مضمون کا انتخاب کرسکتی ہیں اور اس پر تحقیق و مطالعہ کرسکتی ہیں۔ جب آپ کتاب پڑھنے کی عادی ہوجائیں گی تو کتاب کے مطالعے میں آپ کولذت محسوس ہوگی اور اندازہ ہوگا کہ کتابوں کا مطالعہ کس قدر دلچسپ اور بامعنی کام ہے۔
اس طرح آپ بہترین طریقے سے سرگرم عمل بھی رہ سکتی ہیں اور تفریح کا لطف بھی لے سکتی ہیں، روز بروز آپ کے فضل و کمال میں اضافہ ہوگا اور ہمت سے کام لے کر اس عمل کو جاری رکھا تو اس سبجیکٹ میں مہارت پیدا کرسکتی ہیں اور قابلِ قدر علمی و ادبی خدمات انجام دے سکتی ہیں، مقالے لکھ کر اخبار و رسائل میں شائع کراسکتی ہیں، مفید کتابیں لکھ سکتی ہیں تاکہ آپ کے ذہنی و قلمی کاوشوں سے دوسرے بھی استفادہ کریں۔ اس ذریعے سے آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا اور آپ کا شمارایک قابلِ قدر شخصیت کے طور پر ہوگا۔ علاوہ ازیں اس کے ذریعے مالی فوائد بھی حاصل کرسکتی ہیں۔
یہ خیال نہ کریں کہ امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ اتنے بڑے کام انجام نہیں دیے جاسکتے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ اگر کوشش و ہمت سے کام لیں تو یقینا کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ یہ نہ سوچیں کہ عظیم خواتین نے جو گراں قدر آثار وکتب بطور یادگار چھوڑی ہیں وہ بیکار رہتی تھیں، جی نہیں وہ بھی گھر کے کام کاج انجام دیتی تھیں لیکن اپنے خالی اوقات کو یونہی تلف نہیں کرتی تھیں۔
مسز ڈورتھی کارنگل جو گراں قدر کتاب کی مصنفہ ہے اور اس کی کتاب بہت مقبول ہوئی اور بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہے، وہ ایک گھریلو خاتون تھی، اپنے امورِ خانہ داری کو بخوبی انجام دیتی تھی اور سائنسی تحقیقات میں اپنے شوہر ڈیل کارنیگی کی مدد بھی کرتی تھی اور خود بھی مطالعے، تصنیف و تالیف میں مشغول رہتی تھی۔ وہ لکھتی ہے: ’’میں نے اس کتاب کا بڑا حصہ، روزانہ جب میرا چھوٹا بچہ سو جاتا تھا، تو دو گھنٹے کی مہلت ملنے پر لکھا ہے۔‘‘
مشہور ومعروف دانشوروں اور مصنفوں کی صف میں ایسی عظیم خواتین بھی ملتی ہیں جنھوں نے زبردست علمی خدمات انجام دیں ہیں اور عظیم آثار بطور یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ بھی اگر ہمت و استقامت سے کام لیں تو مردوں کے دوش بدوش ترقی کرسکتی ہیں، اگر آپ کے شوہر محقق و دانشور ہیں تو آپ علمی کاموں میں ان کی مدد کرسکتی ہیں یا مشترکہ طور پر تحقیق و مطالعہ کا کام کرسکتی ہیں۔ کیا یہ افسوسناک بات نہیں کہ ایک پڑھی لکھی خاتون، ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اپنی سالہا سال کی محنت کو یوں ہی گنوادے اور پڑھنے لکھنے سے دستبردار ہوجائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: ’’علم و دانش سے بہتر کوئی خزانہ نہیں۔‘‘
البتہ اگر آپ کو مطالعے کا شوق نہیں ہے تو کوئی ہنر یا دستکاری سیکھ لیجیے اور فرصت کے وقت اس میں مشغول رہیے، مثلاً سلائی، کڑھائی، بنائی، ڈرائنگ، کپڑوں اور کاغذوں کے پھول بنانا وغیرہ کارآمد ہنر ہیں۔ ان میں سے جو آپ کو پسند ہو اس میں مہارت پیدا کیجیے اور اسے انجام دیتی رہیے۔ اس طریقے سے آپ کا وقت فالتو باتوں میں ضائع نہ ہوگا، آپ کا ذوق و ہنر بھی ظاہر ہوگا۔ اس سے آپ کو آمدنی بھی ہوسکتی ہے اور اپنے گھر کے بجٹ میں مدد کرسکتی ہیں۔
اسلام میں دست کاری کے کاموں کو عورتوں کے لیے اچھا کہا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں:
’’سوت کاتنے کا کام عورتوں کی سرگرمی کے لیے اچھا ہے۔‘‘
——