فرض

اُم ایمان

سیڑھیاں اتر کر اس نے نظریں اٹھائیں تو حیران رہ گئی۔ سامنے کاٹھ کباڑ کی ریڑھی پر دو لٹکتے ہوئے پاؤں نظر آرہے تھے۔ منے منے سے دو پاؤں، میل سی چیکٹ لیے ہوئے ، ناخن بڑھے ہوئے اور میل سے لبالب بھرے ہوئے انگوٹھوں کی جلد تک سیاہ چیکٹ میل پھیلا ہوا تھا۔
’’یا اللہ! اب ردی پیپر کی ریڑھی پر فالتو بچوں کو بھی ردی کے ساتھ کباڑیے کے حوالے کیا جارہا ہے!‘‘
وہ اپنی ظالمانہ سوچ پر خود بھی لرز کر رہ گئی۔’’اب ہمارے ہاں آبادی کی صورتِ حال کچھ اس قدر بھیانک بھی نہیں۔‘‘ دل ہی دل میں مسکرا کر اس نے اپنے آپ کو تسلی دی،پھر ذرا سا آگے بڑھ کر دیکھا کہ بچے کا بقیہ جسم کہا ںہے۔
اخبارات اور رسالوں کے ڈھیر تلے ایک معصوم سا بچہ مزے سے سورہا تھا۔ کچھ رسالوں کو تکیے کی طرح استعمال کیا گیا تھا، جبکہ کچھ اخبارات بطور چادر کے اوپر پڑے تھے۔ ایک خالی رجسٹر کے گتے کو منہ کے اوپر رکھا ہوا تھا۔
پتا نہیں کیوں اس کا دل بچے کو دیکھنے اور بات کرنے کے لیے مچلنے لگا۔ اس نے شرارتاً ایک تنکا اٹھا کر اس کے پاؤں میں گدگدی کی۔ بچے نے پاؤں بلایا لیکن اس سے اس کی پرسکون نیند پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
’’پتا نہیں کب کا تھکا ہارا ہے جو اس قدر بے آرامی میں بھی ایسی پرسکون نیند سورہا ہے۔‘‘
نازو اس طرح زیادہ دیر گلی میں کھڑے رہنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی تھی۔ سو بازار کا رخ کیا۔ دونوں بچوں کے اسکول سے آنے میں ابھی تین گھنٹے تھے۔ بازار کے لیے اگرچہ تین گھنٹے ناکافی ہوتے ہیں، لیکن وہ مجبور تھی۔ اسے ان تین گھنٹوں میں ہی اپنی خریداری مکمل کرنی تھی۔
رجب ختم ہوچکا تھا، شعبان کی دوسری تاریخ تھی اور اگلے مہینے رمضان تھا۔ وہ ہمیشہ عید کی ساری خریداری شعبان میں مکمل کرلیتی تھی تاکہ رمضان میں بازار کے چکر نہ کاٹنے پڑیں۔ یہ طریقہ اس نے اپنی ماں سے سیکھا تھا۔
وہ بازار کے سارے کاموں کے ساتھ ساتھ گھر کی لمبی اور محنت والی صفائی بھی شعبان ہی میںکرلیا کرتی تھی۔ وہ کہتی تھی ’’رمضان میں زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزارنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کی جاسکیں۔‘‘
ماں کی یاد نے دل کو اداس کردیا، ان کے انتقال کو تین سال ہورہے تھے لیکن جب بھی اسے ماں کی کوئی نصیحت یا دآتی وہ ضرور ان کے کہنے کے مطابق کرنے کی کوشش کرتی۔ حالانکہ ان کی زندگی میں وہ یہ باتیں یوں ہی مذاق میں اڑا دیتی تھی۔
اس نے دکان پر بیٹھے ہوئے گھڑی پر نظر ڈالی۔ بارہ بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔ اسے ساڑھے بارہ بجے بازار سے نکل جانا تھا۔ تاکہ ایک بجے تک گھر پہنچ سکے۔
نازو تیز تیز چلتی ہوئی بازار سے نکل آئی۔ سڑک پر آکر دعا کرنے لگی کہ رکشہ جلدی مل جائے۔ شاید قبولیت کی گھڑی تھی کہ ایک خالی رکشہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا گزرا۔ نازو نے جلدی سے ہاتھ دیا۔
گھر کے پاس رکشہ سے اترنے سے پہلے اس نے دوبارہ گھڑی پر نظر ڈالی، ایک بجنے میں ابھی پانچ منٹ تھے۔ رکشے والے کو فارغ کرکے تھیلیاں اٹھائے ابھی اس نے گھر کی سیڑھی پر قدم بھی نہ رکھا تھا کہ اسے وہی ریڑھی کھڑی نظر آئی۔
تجسس کے مارے وہ دو قدم چل کر ریڑھی کے پاس پہنچی۔ اخباروں کے درمیان وہی بچہ اب سکڑا سمٹا ٹانگیں اوپر کرکے ابھی تک سورہا تھا۔ گھٹنے پیٹ سے لگائے، بغیر بٹن کی بش شرٹ سے پیٹ جھانک رہا تھا۔ پچکا ہوا پیٹ، پسلیوں کی ہڈیاں تک نظر آرہی تھیں۔
ریڑھی سے ذرا دور ایک اٹھارہ انیس سال کا لڑکا گھٹنوں کے گرد ہاتھ باندھے، ٹھوڑی گھٹنوں پر رکھے پتا نہیں سوچ میں گم تھا یا سامنے گزرتے ہوئے ٹریفک کو دیکھ رہا تھا۔
’’اے لڑکے!‘‘ نازونے پکارا۔
لڑکے نے وہیں سے سر گھما کر نازو کی طرف دیکھا۔
بے بسی، بے چارگی، اداسی، بھوک، پتا نہیں کیا کچھ تھا، اس کے چہرے پر۔ ا س کی آنکھوں میں درد کا گہرا دریا لہریں لے رہا تھا، جس کی چمک کو سورج کی روشنی نے بجلی کی طرح پراثر بنادیا تھا۔ اور اس بجلی نے نازو کے حساس دل کو جیسے لرزا کر رکھ دیا تھا۔
ایک لمحے کے لیے تو وہ کچھ بول ہی نہ پائی۔ لڑکا ابھی تک اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’یہ ریڑھی تمہاری ہے؟‘‘
لڑکے نے ایک لفظ کہے بغیر ہاں میں سر ہلایا جیسے الفاظ کا تمام ذخیرہ دکھ کے دریا میں کہیں گم ہوچکا ہو۔
’’یہ بچہ کون ہے؟‘‘
’’جی یہ میرا بھائی ہے۔‘‘ اس نے آہستہ سے بمشکل لب ہلائے۔
’’تمھیں بھوک لگی ہے؟‘‘
’’میرا بھائی صبح سے بھوکا ہے۔‘‘
ایک سسکی بھی جملے کے ساتھ اس کے لبوں سے پھسل گئی۔
’’تم اپنے بھائی کو لے کر اوپر آجاؤ۔‘‘
نازو نے چاول کا دیگچہ کھول کر دیکھا، بچوں کے لیے تحری بناکر گئی تھی، ایک پلیٹ میں چاول ایک پیالی دودھ کے ساتھ، صبح کے سلائس جیلی لگا کر رکھے، فریج سے ایک سیب نکال کر ساتھ ہی ٹرے میں رکھ دیا۔
اتنے میں وہ لڑکا بچے کو گود میں اٹھائے اوپر چڑھ کر آگیا۔ کمزوری کے مارے ہانپ رہا تھا۔
نازو نے جلدی سے اس کے سامنے ٹرے اور ایک جگ پانی کا بھر کر رکھ دیا اور ساتھ ہی جالی کے دروازے میںاندر سے کنڈی لگالی۔
’’کسی پر بھروسہ کرنے سے پہلے اپنی طرف سے پوری احتیاط کرلو۔‘‘
ظفرنے اس کو ہمیشہ نصیحت کی تھی۔ نازو کی نرم دل طبیعت سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔
وہ دونوں کھانا کھاچکے تھے، اب جیسے ان کی جان میں جان آئی تھی۔
نازو نے جالی کے دروازے سے ان پر نظر ڈالی۔
’’دیکھو کل تم صبح کے وقت آنا، کچھ اخبار کی ردی اور پرانی کاپیاں لے جانا۔ ‘‘ نازونے اس سے کہا۔
وہ لڑکا نازو کا اشارہ سمجھ کر بچے کو ساتھ لے کر نیچے اتر گیا۔
تھوڑی ہی دیر میں بچے دھڑدھڑاتے ہوئے اوپر آگئے۔ شام کو ظفر کے آنے کے بعد نازو نے صبح کی شاپنگ دکھانے کے ساتھ ریڑھی والے بچے کا بھی ذکر کیا۔
’’ہوں! ایسے کتنے ہی بچے تم کو گلیوں اور چوباروںپر سوتے ملیں گے۔ یہ بچے تو بڑے ہوکر افیون اور ہیروئن کے عادی بن کر بھیک مانگنے لگتے ہیں۔ ‘‘ ظفر مستقبل کا ایک بھیانک نقشہ کھینچ کر اخبار کے صفحات میں گم ہوگئے۔
’’میں چاہتی ہوں کہ کم از کم ایک بچے کو تو ہم بچالیں۔‘‘
ظفر نے اخبار نیچے کرکے ایک نظر نازو کو دیکھا اور پھر بغیر کچھ کہے اخبار میں گم ہوگئے۔
دوسرے دن صبح آٹھ بجے ہی وہ لڑکا اپنے بھائی کے ساتھ آپہنچا۔
نازو نے اس سے بات کرنے کے لیے ظفر کو آگے کردیا۔ پتا چلا کہ اس لڑکے کا نام رحیم ہے۔ اس کے ماں باپ کا انتقال ہوگیا، رکشے میں جارہے تھے کہ ٹرک نے ٹکر ماردی۔ دونوں سر کے بل الٹ کر گرے، لوگ اسپتال لے گئے لیکن اس سے پہلے ہی وہ اللہ تعالیٰ کے پاس جاچکے تھے۔ یہ ریڑھی اس کے باپ کی ہی تھی۔ رحیم صبح اسکول جاتا اور شام کو کسی کارپینٹر سے کام سیکھ رہا تھا۔ ماں باپ کے بعد چھوٹے بھائی سلیم کی وجہ سے نہ تو پڑھنے جاسکتا ہے اور نہ کارپینٹر کے پاس جاسکتا ہے۔
ماں باپ کے انتقال کو ابھی دس دن ہی ہوئے ہیں اور چھوٹا سلیم ماں کو یا دکرتا رہتا ہے۔ دیکھ بھال نہ ہونے سے بخار بھی آگیا۔ شروع میں تو تین چار دن محلے والوں نے کھانے پینے کا دھیان رکھا، لیکن کب تک؟
کچھ دن گھر کی چیزیں بیچ بیچ کر کام چلایا، لیکن آگے کیا ہوگا کچھ سمجھ نہیں آتا؟
رحیم نے ظفر کو ساری کہانی سنا ڈالی۔
ظفر بار بار گھڑی پر نظر ڈالتا، آفس کو دیر ہورہی تھی۔
اخبار اور پرانی کاپیاں دے کر ظفر نے رحیم کو کل پھر آنے کی ہدایت کی اور پھر اندر آکر آفس کے لیے جلدی جلدی تیار ہوتے ہوئے ساری کتھا نازو کو سناڈالی۔
’’وہ کل آئے گا، تم اس بچے کے لیے کچھ سوچ لو۔‘‘
سوچنے کی ساری ذمہ داری نازو پر ڈال کر ظفر آفس بھاگا۔
پانچ منٹ کی دیر باس کو لیکچر سنانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
تیسرے دن رحیم، سلیم کو لے کر پھر حاضر تھا۔ نازو اس ہمدردی کے سلسلے میں کچھ بور سی ہوگئی تھی۔ بچے کے سلسلے میں اس نے سوچا تھا، لیکن ایک مستقل ذمہ داری اپنے سر لینے کے لیے وہ تیار نہ تھی۔ ذرا بڑا ہوتا تو اوپر کے کام کے لیے دن بھر کے لیے رکھ لیتی، لیکن یہ تو بہت چھوٹا تھا۔ شاید پانچ سال کا ہو۔ نازو نے سوچا: چھوٹی موٹی آسان سی نیکی کے لیے تیار ہونا اور بات ہے لیکن یہ تو کچھ زیادہ ہی بڑا مسئلہ تھا۔ رحیم نے بتایا کہ ’’اب مالک مکان کہہ رہا ہے کہ گھر خالی کردو تم کرایہ کہا ںسے دو گے۔ بی بی! ابھی تو روٹی کا آسرا نہیں میں اپنے بھائی کو لے کر کہاں جاؤں گا؟‘‘ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور سسکیا ںلے کر جب وہ رویا تو چھوٹا معصوم سلیم بھی بھائی کو روتے دیکھ کر رونے لگا۔
نازو کے دل میں بھی ہمدردی کے جذبات کروٹیں لینے لگے۔ ظفر سے بات کرکے اس نے رحیم کو اس کے بھائی کے ساتھ زینے کی خالی جگہ پر رہنے کی اجازت دے دی۔ چھوٹے سلیم کے لیے محمود کے چھوٹے کپڑے دے دیے، چھت پر بنا ہوا غسل خانہ اس شرط کے ساتھ استعمال کے لیے دیا کہ رحیم چھٹی کے دن کپڑے دھودیا کرے گا اور اوپر کی چھت اور غسل خانے کی صفائی بھی کرے گا۔
نازو کو کام کی آسانی ہوگئی۔ شام کا سودا سلف لانا بھی رحیم کے ذمے ہوگیا۔ چھوٹا سلیم بھی بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے آتا جاتا رہتا۔
نازو کسی وقت سلیم کو قاعدہ لے کر پڑھانے کی کوشش کرتی۔ محمود اور زہرہ بھی بڑے شوق سے ماسٹر صاحب بن کر سلیم کو لکھنا سکھاتے، اور سلیم بھی بڑے شوق سے پنسل تھام کر لکھنے کی کوشش کرتا۔
نازو کو بچی ہوئی روٹی، ڈبل روٹی اور بچا ہوا سالن پھینکنے سے جو تکلیف دہ احساس ہوتا تھا اس سے بھی نجات مل گئی تھی۔ نازو بھی خوش، بچے بھی۔ اور رحیم اور سلیم کو تو گویا زندگی گزارنے کے لیے ایک نیا ڈھنگ میسر آگیا تھا۔ کچھ پریشانی تھی تو ظفر کو تھی، لیکن کیوں تھی؟ نازو سمجھ نہیں پارہی تھی۔
’’نازو کا رپٹ پر کالے نشان کیسے ہیں؟ ضرور یہ تمہاری نئی ہمدریوں کے نتائج ہیں۔‘‘
ظفر نے سلیم کی طرف اشارہ کیا’’یہ ننگے ننگے پیروں سے اندر باہر آتے ہو ںگے۔‘‘
’’نہیں انکل میں تو چپل پہنتا ہوں۔‘‘
ننھا سلیم معصومیت سے بولا۔
ظفر اس کے منہ سے انکل سن کر پہلے تو حیران ہوا پھر منہ بناکر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
’’تم نے ان کو زیادہ ہی سر چڑھالیا۔‘‘
ظفر نے نازو سے سختی سے پوچھا۔ نازو اس کے پیچھے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’اس کو بولو ’’صاحب‘‘ بولا کرے۔‘‘
ظفر نے نخوت سے منہ بنایا۔
’’میرے پیچھے رحیم آتا ہے؟‘‘
ظفر نے کچھ دیر بعد عام سے لہجے میں پوچھا۔
نازو نے اس عجیب سے سوال پر حیران ہوکر ظفر کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک آگ سی جل رہی تھی۔ حسد کی تھی یا نفرت کی، وہ سمجھ نہ سکی، لیکن دل میں گویا خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ نازو نے ظفر کے سامنے بیٹھ کر اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی آنکھوں میں جھانکا اور دھیرے سے بولی:
’’رحیم کبھی گھر کے اندر نہیں آیا۔ اس کو جو بات کرنی ہوتی ہے دروازے سے ہی کرتا ہے، اور نہ میں اس بات کو پسند کرتی ہوں کہ وہ اندر آئے۔‘‘ وہ ایک لمحے کو سانس لینے کے لیے رکی۔
’’اس کو سیڑھیوں پر جگہ آپ نے اپنی مرضی سے دی ہے اور آپ جب چاہیں اس کو نکال باہر کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں، میں آپ سے کچھ نہیں کہوں گی۔ لیکن میں آپ کے معاملے میں بہت خوش فہم تھی۔‘‘
نازو نے آخری جملہ ذرا دھیرے سے کہا جیسے اپنے آپ سے کہہ رہی ہو۔
’’کیا مطلب؟‘‘
نازو کے لہجے میں کچھ ایسی بات تھی کہ ظفر شرمندہ سا ہوگیا۔
’’امی! یہ کالے گورے، عجمی، عربی، امیر غریب کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘
زہرہ اسلامیات کی کتاب لیے پوچھ رہی تھی۔
’’اپنے ابا سے پوچھو، مجھے روٹی پکانی ہے۔‘‘
نازو نے زہرہ کو ظفر کے پیچھے لگادیا اور کمرے سے نکل گئی۔
صبح ظفر تیار ہوکر آفس کے لیے نکلا تو گیٹ پر رحیم کھڑا تھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’صاحب آپ شاید مجھ سے ناراض ہیں۔‘‘
رحیم نظریں جھکا کر بولا۔
’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں، تم کل میرے آفس آجانا، قاصد کی نوکری کے لیے صاحب سے تمہارے لیے بات کی ہے اور شام کو مجھ سے پڑھ کر پرائیویٹ امتحان دے دینا۔‘‘
ظفر نے ایک نظر رحیم کے چہرے پر پھیلی خوشی اور حیرانی کی ملی جلی قوس وقزح کو دیکھا اور باہرکی طرف بڑھ گیا۔ سکونِ دل، طمانیت اور سرخوشی کی ایک قوس و قزح اس کو اپنے دل میں بھی محسوس ہورہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس طرح میں نے ایک چھوٹا سا دینی فرض ادا کیا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں