فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم بنی اسرائیل پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔ دراصل فرعون اس وقت کے مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ مصر میں جو بھی بادشاہ بنتا اس کو فرعون کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر مورس بوکائیے کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کرنے والے حکمران کا نام رعمسس دوم تھا۔ بائبل کے بیان کے مطابق اس نے بنی اسرائیل سے بیگار کے طور پر کئی شہر تعمیر کروائے تھے جن میں سے ایک کا نام ’’رعمسس‘‘ رکھا گیا تھا۔ جدیدِ تحقیقات کے مطابق یہ تیونس اور قطر کے اس علاقے میں واقع تھا جو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹا میں واقع ہے۔
رعمسس کی وفات کے بعد اس کا جانشین مرنفتاح مقرر ہوا۔ اسی کے دورِ حکمرانی میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سمیت مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر دریائے نیل پار کررہے تھے یہ بھی اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل میں اتر پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا پار کروانے کے بعد دریا کے پانی کو چلادیا اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت ڈبوکر ہلاک کردیا۔
اس سارے واقعے کو اللہ تعالیٰ نے درجِ ذیل آیات میں بیان کیا ہے:
وجٰوزنا ببنی اسرائیل البحر فاتبعہم فرعون و جنودہ بغیا و عدوا حتیّٰ اذا ادرکہ الغرق قال امنت انہ لا الہ الا الذی اٰمنت بہ بنوا اسرائیل وانا من المسلمینo الئٰن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدینo فالیوم ننجیک ببدنک لتکون لمن خلفک اٰیۃ وان کثیرا من الناس عن اٰیٰتنا لغٰفلونo
(یونس: ۹۰)
’’اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے۔ پھر فرعون اور اس کے لشکر ظلم اور زیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلے۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا: ’’میں نے مان لیا کہ خداوندِ حقیقی اس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔‘‘ (جواب دیا گیا) ’’اب ایمان لاتا ہے! حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے، اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک پیشین گوئی فرمائی ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو محفوظ رکھیں گے تاکہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے وہ باعث عبرت ہو۔ اپنے آپ کو خدا کہلوانے والے کی لاش کو دیکھ کر آنے والی نسلیں سبق حاصل کریں۔ چنانچہ اللہ کا فرمان سچ ثابت ہوا اور اس کا ممی شدہ جسم ۱۸۹۸ء میں دریائے نیل کے قریب تبسیہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے ادریت نے دریافت کیا تھا۔ جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کردیا گیا۔ ایلیٹ اسمتھ نے ۸؍جولائی ۱۹۰۷ء کو اس کے جسم سے غلافوں کو اتارا، اس نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اور جسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب ’’شاہی ممیاں‘‘(۱۹۱۲ء) میں درج کیا ہے۔ اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی باوجودیکہ اس کے کئی حصے شکستہ ہوگئے تھے۔ اس وقت سے ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحوں کے لیے سجی ہوئی ہے۔ اس کا سر اور گردن کھلے ہوئے ہیں اور باقی جسم کو ایک کپڑے میں چھپا کر رکھا ہوا ہے۔
جون ۱۹۷۵ء میں ڈاکٹر مورس بوکائیے نے مصری حکمرانوں کی اجازت سے فرعون کے جسم کے ان حصوں کا جائزہ لیا جو اس وقت تک ڈھکے ہوئے تھے اور ان کی تصاویر اتاریں۔ پھر ایک اعلیٰ درجہ کی شعاعی مصوری کے ذریعے ڈاکٹر ایل میلجی اور راعمسس نے ممی کا مطالعہ کیا اور ڈاکٹر مصطفی منیالوی نے صدری جدار کے ایک رخنہ سے سینے کے اندرونی حصوں کا جائزہ لیا۔ علاوہ ازیں جوف شکم پر تحقیقات کی گئیں۔ یہ اندرونی جائزہ کی پہلی مثال تھی جو کسی ممی کے سلسلے میں لیا گیا۔ اس ترکیب سے جسم کے بعض اندرونی حصوں کی اہم تفصیلات معلوم ہوئیں اور ان کی تصاویر بھی اتاری گئیں۔ پروفیسر سیکالدی نے پروفیسر مگنو اور ڈاکٹر دوریگون کے ہمراہ ان چند چھوٹے چھوٹے اجزا کا خوردبینی مطالعہ کیا جو ممی سے خود بخود جدا ہوگئے تھے۔ (بائبل قرآن اور سائنس از ڈاکٹر مورس بوکائیے ص:۲۸۷-۲۹۹)
ان تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج نے ان مفروضوں کو تقویت بخشی جو فرعون کی لاش کے محفوظ رہنے کے متعلق قائم کیے گئے تھے۔ ان تحقیقات کے نتائج کے مطابق فرعون کی لاش زیادہ عرصہ پانی میں نہیں رہی تھی۔ اگر فرعون کی لاش کچھ اور مدت تک پانی میں ڈوبی رہتی تو اس کی حالت خراب ہوسکتی تھی حتیٰ کہ اگر پانی کے باہر بھی غیر حنوط شدہ حالت میں ایک لمبے عرصے تک پڑی رہتی تو پھر بھی یہ محفوظ نہ رہتی۔ علاوہ ازیں ان معلومات کے حصول کے لیے بھی کوششیں جاری رکھی گئیں کہ اس لاش کی موت پانی میں ڈوبنے سے ہوئی یا کوئی اور وجوہات بھی تھیں؟ چنانچہ مزید تحقیقات کے لیے ممی کو پیرس لے جایا گیا اور وہاں Legal Identification Laboratory کے منیجر Ceccaldiاور Dr. Durigon نے مشاہدات کے بعد بتایا کہ: اس لاش کی فوری موت کا سبب وہ شدید چوٹ تھی جو اس کی کھوپڑی (دماغ) کے سامنے والے حصے کو پہنچی کیونکہ اس کی کھوپڑی کے محراب والے حصے میں کافی خلا موجود ہے۔ اور یہ تمام تحقیقات آسمانی کتابوں میں بیان کردہ فرعون کے (ڈوب کر مرنے کے) واقعہ کی تصدیق کرتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ فرعون کو دریا کی موجوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
جیسا کہ ان نتائج سے ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھنے کا خاص اہتمام کیا تھا جس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک زمانے کے اثرات سے محفوظ رہی اور آخر کار اس کو انیسویں صدی میں دریافت کیا گیا اور انشاء اللہ یہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے سامانِ عربت رہے گی۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ’’ہم فرعون کی لاش کو سامانِ عبرت کے لیے محفوظ کرلیں گے۔‘‘ صرف قرآن مجید میں موجود ہے، اس سے پہلے کسی دوسری آسمانی کتاب میں اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا کہ حضور وہاں سے معلومات لے کر اس کو قرآن میں لکھ دیتے (نعوذ باللہ)، جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا پیغمبرِ اسلام کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ چنانچہ یہ قرآن مجید کے سچا اور منجانب اللہ ہونے کا ایک اور لاریب ثبوت ہے جس کو جھٹلانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔