امام سفیان ثوری کی مجلسِ درس ہے۔ سفیان کے گردوپیش ان کے عقیدت مند اور ان کے گلستانِ علم و فضل کے خوشہ چین بیٹھے ہیں۔ ان میں ان کے عام شاگرد بھی ہیں اور اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء اور صلحاء بھی۔ خلیفہ ہارون کا قاصد وارد ہوتا ہے۔ سلام و تحیات کے بعد بڑے ادب و احترام کے ساتھ اپنی قبا کے نیچے سے ایک سربمہر مکتوب نکال کر پیش کرتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ یہ امیر المومنین کا مکتوب ہے۔ امام سفیان، جو مکتوب ہاتھ میں لے چکے ہیں،امیر المومنین کانام سنتے ہی اسے اہلِ مجلس کے سامنے جھٹک دیتے ہیں اور فرماتے ہیں — ’’پناہ بخدا! میں ایسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا جسے ظالم کے ہاتھ چھو چکے ہوں۔ پھر اپنے ایک شاگرد کو حکم دیتے ہیں کہ پڑھو، اس میں کیا لکھا ہے؟ شاگرد مکتوب کی مہر توڑتا ہے، لفافہ چاک کرتا ہے اور مکتوب کھول کر پڑھتا ہے:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے بندے ہارون الرشید امیر المومنین کی جانب سے اپنے دینی بھائی سفیان سعید الثوری کی طرف…
میر بھائی! آپ کو خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو سلکِ اخوّت میں منسلک کررکھا ہے۔ مجھے بھی اسی اخوت کے واسطے سے آپ کے ساتھ لگاؤ اور محبت ہے۔ اگر خلافت کا طوق میری گردن میں نہ ہوتا تو اپنی محبت اور اخلاص کے باعث خود حاضر خدمت ہوتا۔ اللہ نے مجھے منصبِ جلیل سے نوازا ہے۔ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے مجھے اس پر مبارکباد نہ دی ہو، میں نے خزانوں کے منہ کھول دئے ہیں۔ جو بھی آتا ہے بامراد و شادکام جاتا ہے، لیکن آپ ہیں کہ ابھی تک تشریف لانے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی ہے۔ یہ عریضہ اسی شوق تمنا کے ساتھ خدمتِ والا میں بھیج رہا ہوں۔ اے ابوعبید! آپ خوب جانتے ہیں کہ مومن کی زیارت اور اس کی ملاقات کے فضائل کیا ہیں۔ لہٰذا اس خط کو دیکھتے ہیں بعجلت تشریف لائیے۔‘‘
امام سفیان خط کا مضمون سن رہے ہیں اور ان کے چہرے پر انقباض اور ناگواری کے آثار نمودار ہورہے ہیں۔ خط پڑھا جاچکتا ہے تو امام ارشاد فرماتے ہیں: ’’اسی خط کی پشت پر ظالم کو جواب لکھ دو۔‘‘ حاضرینِ مجلس عرض کرتے ہیں: ’’اے ابوعبداللہ! امیر المومنین کا معاملہ ہے۔ اگر جواب علیحدہ کاغذ پر دیا جائے تو بہتر ہے۔‘‘ ارشاد فرماتے ہیں:’’ نہیں، اسی خط کی پشت پر جواب لکھو۔ یہ خط اگر کسبِ حلال سے ہے تو ہارون اس کے صلے سے بہرہ یاب ہوگا۔ ورنہ اسی کے ساتھ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ میں اپنے ہاں کسی ایسی چیز کی موجودگی گوارا نہیں کرسکتا جسے ظالم کے ہاتھ لگ چکے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ایسی چیز ہمارے دین کو بھی ملیا میٹ کردے۔‘‘
عرض ہوتا ہے: ’’جواب میں کیا لکھا جائے؟‘‘ فرماتے ہیں: ہاں لکھو:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے بندے سفیان کی جانب سے ہارون الرشید کی طرف۔ جو امیدوں اور تمناؤں کے فریب میں مبتلا ہے۔ حلاوتِ ایمان جس سے سلب کرلی گئی ہے اور جو تلاوتِ قرآن کی لذت سے محروم کردیا گیا ہے۔دیکھو میں تم کو واشگاف الفاظ میں لکھ رہا ہوں کہ ہمارے مابین جو رشتۂ محبت تھا وہ منقطع ہوگیا ہے، ہمارے دیرینہ تعلقات اب ختم ہوگئے ہیں۔ تم نے اپنے مکتوب میں خود اعتراف کیا ہے کہ تم مسلمانوں کے بیت المال سے بے جا مصارف کررہے ہو۔ تمہارا خط جن لوگوں کے سامنے پڑھا گیا ہے گویا تم نے انہیں اپنے اس جرم کا گواہ بنالیا ہے اور کل جب اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیشی ہوگی تو ہم اس کی شہادت دیں گے۔
اے ہارون ! تم مسلمانوں کے مال کو بے جا تصرف میں لا رہے ہو۔ کیا تمہارے اس فعل کو مجاہدین فی سبیل اللہ، ابناء السبیل، اہل علم، بیوہ عورتیں، یتیم بچے اور تمہاری باقی رعایا پسند کرتی ہے؟
اے ہارون! اپنا ہاتھ روکو۔ کل تمہیں اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور جوابدہی کرنی ہے۔ یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی ہی عادل اور حکیم ذات ہے۔ اللہ سے ڈرو۔ کیوںکہ تم سے ایمان اور زہد سلب کرلیا گیا ہے۔ تم تلاوتِ قرآن کی لذت اور صلحاء کی ہم نشینی سے محروم کردئے گئے ہو، تم نے ظالموں کا سرخیل بننا پسند کرلیا ہے۔
اے ہارون! تم تختِ شاہی پر جلوہ گر ہو، حریر و دیبا استعمال کرتے ہو، دروازوں پر تم نے پردے آویزاں کررکھے ہیں۔ ظالم سپاہ تمہارے حضور میں کھڑی رہتی ہے۔ وہ لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی ہے مگر کوئی ان ستم رسیدوں کی داد رسی نہیں کرتا۔ تمہارے آدمی لوگوں پر شراب کی حد جاری کرتے ہیں اور خود شراب کے رسیا ہیں۔ زانی کو سزا دیتے ہیں اور خود زنا کار ہیں۔ چوروں کے ہاتھ کاٹتے ہیں اور خود چور ہیں۔ قاتل کو سزائے موت کا حکم دیتے ہیں اور خود قتل و خونریزی میں قاتلوں سے زیادہ بے باک اور نڈر ہیں۔ خلق خدا ان کی ستم رانیوں سے نالاں ہے لیکن اس کی تو تمہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ الٹا جو لوگ اپنے دامن بچائے ہوئے ہیں، انہیں بھی آلودگیوں میں ملوث کرنا چاہتے ہو۔ مجھے تمہارے عطیات اور جودوکرم کی کچھ احتیاج نہیں ہے اور نہ میں تمہارے ساتھ کسی قسم کا کوئی واسطہ رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ سفیان الثوری کون ہیں؟ اپنے دور میں علم حدیثِ رسولؐ کے امیر المومنین، امام جلیل، عظیم محدث اور فقیہ، علم وعمل کے آفتاب۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے کہ انھوں نے وقت کے بادشاہ کی طرف سے دی جانے والی دعوتِ دوستی کو ٹھکرادیا ہو۔ ہارون کے باپ مہدی اور دادا ابوجعفر منصور کے عہد میں بھی ان کا طرزِ عمل یہی رہا ہے۔ ابوجعفر منصور اور اس کے بعد مہدی انہیں اپنے حلقے میں کھینچنے کی کی ہرممکن کوشش کرتے رہے ہیں مگر سفیان ان سے ہمیشہ دور بھاگا کیے ہیں۔ ان کو عطیات اور ہدایا سے نوازا گیا، مناصب جلیلہ کی پیش کش کی گئی مگر انھوں نے ہر چیز کو بڑی بے نیازی کے ساتھ ٹھکرادیا۔ اور جب بھی موقعہ ملا ان کی بے راہ روی پر ان کے منہ پر ٹوک دیا۔
ایسے ہی ایک مرتبہ حج کے زمانے میں مہدی سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس کے مصاحب اور کاسہ لیس قصیدہ سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ سفیان سے رہا نہیں جاتا۔ مہدی سے کہتے ہیں:
’’عمر بن الخطاب نے حج کیا اور صرف سترہ دینار خرچ کیے۔ تو نے حج کیا اور پورا بیت المال صرف کردیا۔‘‘
ایک تو بات ہی اپنی جگہ تلخ تھی، اس پر طرہ یہ کہ جس ماحول میں کہی گئی اس نے اس میں مزید تلخی گھول دی۔ مہدی کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا مگر سفیان خاموشی سے گردوپیش پھیلے ہوئے انسانوں کے جنگل میں گم ہوگئے۔
ایک بار مہدی انہیں پکڑوا بلاتا ہے اور کوفہ کی عدالتِ عالیہ کا منصبِ قضا پیش کرتا ہے۔ مگر سفیان قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ عذر میں عدالتی فرائض میں خلیفہ، ان کے امراء، ان کے حوالی موالی، بیگمات، کنیزوں اور باندیوں کی دخل اندازیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ مہدی اپنے میر منشی کو حکم دیتا ہے۔ ’’انہیں تقرری کا فرمان اس شرط کے ساتھ لکھ کر دے دو کہ ان کے فیصلوں میں کوئی شخص مداخلت نہ کرے گا۔‘‘ فرمان لکھ دیا جاتا ہے۔ سفیان پروانہ لے کر نکلتے ہیں اور اسے دریائے دجلہ کی لہروں کے حوالے کردیتے ہیں کہ ؎
ایں دفترِ بے معنی غرقِ مئے ناب اولیٰ
اور روپوش ہوجاتے ہیں۔