فروبل اور اس کا کنڈر گارٹن

سید منظور الحسن ہاشمی

کنڈر گارٹن اس تعلیمی ادارہ کا نام ہے جہاں فروبل کے اصولوں کے مطابق تین سال سے چھ سال تک بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو۔ جرمن زبان میں کنڈر گارٹن کے معنی ہیں ’’بچوں کا باغ‘‘۔
فروبل ایک جرمن مفکر اور ماہرِ تعلیم ہے جس کی تاریخ پیدائش ۲۱؍اپریل ۱۷۸۲ء ہے۔ فروبل کا تعلق مفکرین کے اس گروہ سے ہے جو خداپرست تھا اور روحانی اقدار کو اہمیت دیتا تھا۔ خود اس کی زندگی بہت سادہ اور ایثار پسند تھی۔
فروبل کا بچپن
فروبل کا بچپن پریشانیوں اور تلخیوں کے ہجوم میں گزرا۔ اسی لیے وہ آئندہ زندگی میں زیادہ غوروفکر کا عادی ہوا۔ اور اس نے سوچا کہ بچوں کی معصوم زندگی کو تلخ بنانے والے اسباب کیا ہیں اور انھیں کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔ اس نے نہ صرف انسان کی اندرونی کیفیات کا مطالعہ کیا بلکہ وہ قدرت کا مشاہدہ بھی بڑی دلچسپی کے ساتھ کرتا رہا۔
نوماہ کی عمر میں اس کی ماں اسے چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ یہ موت اس کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا اور یہ حادثہ اس کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتا رہا۔ اس نے لکھا ہے کہ ’’اس موت نے میری خارجی زندگی کو سنوارنے میں بڑا کام کیا۔‘‘
ماں کے انتقال کے بعد اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی۔ سوتیلی ماں کی آمد اس کے لیے سخت اذیت کا باعث بن گئی۔ اس کا برتاؤ اس کے ساتھ انتہائی ظالمانہ رہا۔ سوتیلی ماں کے آنے کے بعد باپ کی شفقتوں سے بھی وہ محروم ہوگیا۔ اور اس کے بے رحم والدین نے تعلیم و تربیت کا کوئی انتظام نہیں کیا۔
فروبل گھر سے باہر تنہا ادھر اُدھر گھومتا رہا۔ پہاڑیاں، پیڑ پودے، پھل پھول، بادل اور چاند ستارے۔ اب اس کے مشاہدہ کا مرکز بن گئے۔
فروبل کی تعلیم
دس سے چودہ سال کی عمر تک اسے کچھ سکون حاصل ہوا۔ اپنے ماموں پاسٹر ہاف مین کے ساتھ اسے رہنے کا موقع مل گیا۔ اس زمانہ میں اس کی تعلیم و تربیت باقاعدہ طریقے سے ہوتی رہی ماموں کے مذہبی رجحانات نے اور مذہبی تعلیم نے اس پر بہت اچھے اثرات ڈالے اور اس کے اندر بھی روحانی زندگی کے پاکیزہ عزائم پیدا ہوئے۔
۱۷۹۹ء میں اسے جینا یونیورسٹی میں رہنے کا موقع ملا۔ اس وقت جرمنی کی یہ یونیورسٹی علمی اعتبار سے بڑی بلند پایہ تھی۔ فروبل یہاں کے علمی ماحول سے کافی متاثر ہوا، لیکن یونیورسٹی کی زندگی بہت مختصر رہی۔ اس کے بعد اسے روزگار کے لیے کئی جگہ ہاتھ پیر مارنے پڑے۔ مگر ہر جگہ اُسے بے اطمینانی کی زندگی نصیب ہوئی۔ اسی دوران اسے ایک خوشگوار تجربہ بھی ہوا۔ ہرگرویز نے اسے اپنے نارمل اسکول میں ڈرائنگ سکھانے کے لیے دعوت دی۔ فروبل نے وہاں کام کرنے کے بعد محسوس کیا کہ ڈرائنگ تعلیمی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اس سے بڑی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
فروبل بحیثیت معلم
۱۸۰۷ء سے ۱۸۱۰ء تک اس نے تین لڑکوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری سنبھالی اور یردون کے مقام پر پستالوزی کے اسکول میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں اس نے محسوس کیا کہ پستالوزی کا کام اگرچہ بلند پایہ اور لائقِ ستائش ہے، لیکن اب بھی اس میں تشنگی پائی جاتی ہے۔
پستالوزی کے اصول تعلیم سے وہ مطمئن نہیں تھا، اب اس نے خود اپنے اصول مرتب کرنے شروع کردیے۔
جرمنی میں مختلف قسم کے علوم اس وقت ترقی کی منزلوں پر گامزن تھے۔ طب، کیمیا، حیاتیات اور ارضیات میں بیش بہا اضافے ہورہے تھے۔ فروبل نے ان تمام علوم کو سیکھا اور ریاضی میں بڑی مہارت پیدا کی۔ کچھ عرصہ اس نے برلن کے ایک ماہر ارضیات کے ساتھ مل کر کام کیا۔ ۱۸۱۴ء میں نپولین کی جنگ نے اس کے کام کو متاثر کیا۔ اپنے ملک کی حفاظت کے لیے اس نے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس زمانہ میں اسے ایسے بہت سے ساتھی مل گئے، جو نظامِ تعلیم سے کافی دل چسپی رکھتے تھے۔ اور ضروری اصلاحات کے متمنی تھے۔
فروبل کے ادارے
۱۸۱۷ء میں فروبل نے خود اپنا ایک اسکول خیل ہاؤ میں قائم کیا۔ یہاں اس نے اپنے اصول تعلیم کے ذریعہ نظم چلانے کی کوشش کی، مگر یہ تجربہ کامیاب نہ ہوسکا۔ ۱۸۳۱ء میں خیل ہاؤ چھوڑ کر وہ سوئٹزر لینڈ چلا گیا۔ جہاں اس نے کئی ادارے چلائے۔ ۱۸۳۶ء میں وہ پھر جرمنی واپس آگیا۔ دوسرے سال اس نے ایک گاؤں بلینکن بُرگ میں اپنا پہلا کنڈر گارٹن قائم کیا۔ یہ بھی زیادہ کامیاب نہیں رہا پھر ۱۸۴۰ء میں ایک کنڈر گارٹن کی بنیاد ڈالی جو کامیابی کے ساتھ اس کی زندگی بھر چلتا رہا۔ اس نے ایک ٹریننگ اسکول بھی قائم کیا جس میں عورتوں کو خاص طور سے تربیت دی جاتی تھی۔
فروبل کا فلسفہ
فروبل کے فلسفہ کی بنیاد توحید تھی، اس کا خیال تھا کہ ساری کائنات ایک قادرِ مطلق کی عظمتوں کا مظہر ہے۔ انسان خالق ِ کائنات کی تخلیق کا شاہکار ہے جسے ایک ’’انسانی پودا‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد مختلف قسم کی ارتقائی منزلوں سے گزرتا ہوا پھلتا پھولتا ہے، انسان کا صرف مادی جسم ہی ارتقائی منزلیں طے نہیں کرتا، بلکہ اس کی روح بھی ارتقائی منزلیں طے کرتی ہے۔ اس کی قوتِ ارادی اور دماغ بھی ارتقائی منزلوں سے گزرتا ہے۔
عام عیسائی عقیدے کے خلاف اس کا خیال تھا کہ بچہ پیدائشی طور پر اچھی فطرت لے کرپیدا ہوتا ہے اور اس بات پر اسے اعتقاد نہیں تھا کہ انسان پیدائشی طور پر بدفطرت یا گناہ گار ہے۔ انسان کے اندر بگاڑ کے جراثیم اس وقت پیدا ہوتے ہیں، جب کہ وہ ماں کی یا نرس کی اچھی تربیت سے محروم ہوجائے۔
بچہ کی دلچسپیاں خود اس کے اندرونی اعمال سے ابھرتی ہیں۔ بچے کو مذہبی تعلیم دی جائے تو وہ انسان کے تعلق کو بخوبی سمجھ سکتا ہے اور معاشرے کے لیے ایک اچھا فرد بن سکتا ہے۔
فروبل کا طریقۂ تعلیم
اس نے ایک سے تین سال کے دور کو طفولیت کا دور قرار دیا ہے۔ پھر تین سال سے چھ یا سات سال تک کو بچپن کا دور قرار دیا ہے۔
ابتدائی دور کے سلسلہ میں اس کا خیال ہے کہ ماں کی گود بچہ کی بہترین تربیت گاہ ہے۔ قدرت نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ نوخیز بچہ کی تعلیم خاص طور پر ماں کی گود میں ہو۔ ماں سب سے پہلے اپنے بچے کو جسم کے مختلف اعضاء سے روشناس کرائے، ہاتھ، ہاتھ کی انگلیاں، کان، ناک، آنکھ وغیرہ کے بارے میں اپنے بچہ کو بتائے پھر خارجی ماحول جو اس کے بالکل قریب ہے اس سے روشناس کرائے۔
فروبل پہلا ماہرِ تعلیم تھا، جس نے تعلیمی نقطۂ نظر سے کھیل کی اہمیت محسوس کی۔ پھر دوسرا اہم کارنامہ یہ ہے کہ ڈرائنگ کو اس نے تعلیمی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت دی ہے۔ درس دینے میں وہ ہمیشہ معلوم سے نامعلوم کی طرف جانے کی کوشش کرتا تھا۔
اس نے فن تعلیم کو دلچسپ اور پر اثر بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اشیاء استعمال کرنے پر زور دیا ہے:
کاغذ کاٹنا، دفتی سے مختلف چیزیں بنانا، مٹی سے ماڈل تیار کرنا، ریت پر پھول پتی یا نقشے بنانا، کاغذ پر پھول وغیرہ بنانا اور انھیں رنگنا، سینا، پرونا اور بننا۔ اس طرح نہ صرف بچوں کی دلچسپی برقرار رہتی ہے بلکہ کھیل کے ذریعے حروف اور گنتی بڑی آسانی سے سیکھ لیتے ہیں۔ اس تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے جسمانی اعضا کی بھی نشو ونما اور تربیت ہوتی رہتی ہے ان کے ہاتھ، پیر، کان، آنکھ، ناک، دماغ پوری طرح نشوو نما پاتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ مذہبی تعلیم کے ذریعے روحانی تربیت کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔
فروبل کے تحائف
چھوٹے بچوں کے لیے اس نے کچھ تحفے تیار کیے۔ اس کا پہلا تحفہ ایک گیند ہے جس کے ساتھ کھیل کر بچہ دنیا اور کائنات کا تصور حاصل کرتا ہے۔ اور خالقِ کائنات سے اس کا ربط پیدا ہوتا ہے۔
دوسرا تحفہ ایک گیند، ایک مکعب اور ایک استوانہ ہے۔ تیسرا ٹکڑا مکعب کے ٹکڑے ہیں جن کو جوڑ کر مکعب بن سکتا ہے۔ اسی طرح مزید پیچیدہ قسم کے ٹکڑے مزید تحائف کی شکل میں ہوتے ہیں۔
بچہ ان تحائف کے ذریعے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارتا ہے اور اس کی صلاحیتیں ارتقائی منزلیں طے کرتی ہیں۔
کنڈر گارٹن کی مقبولیت
جرمنی میں یہ ادارہ شروع میں زیادہ مقبول نہیں ہوا۔ بلکہ پرشیا کی حکومت نے تو اسے قانوناً ممنوع قرار دے دیا۔ مگر رفتہ رفتہ اس کی مقبولیت بڑھتی گئی، نہ صرف جرمنی بلکہ دنیا کے مختلف گوشوں میں کنڈر گارٹن قائم ہونے لگے۔
امریکہ میں مسز شرز نے جو ایک جرمن خاتون تھیں سب سے پہلا کنڈر گارٹن قائم کیا۔
۱۹۴۷ء میں بچوں کی تعداد جو امریکہ کے کنڈر گارٹن میں پڑھتے تھے سب سے زیادہ تھی۔ جو ۶۸۰،۹۸۸ تک پہنچ گئی تھی۔ امریکہ کے اساتذہ دس ہزار کی تعداد میں جرمنی آئے، یہاں تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اپنے ملک کو واپس جاکر پرزور سفارش کی کہ امریکہ میں جرمنی کا نظامِ تعلیم رائج کیا جائے۔
ماہرینِ تعلیم کی تنقیدیں
چند ماہرینِ تعلیم نے فروبل کے اصولوں پر مندرجہ ذیل تنقیدیں کی ہیں:
(۱) فروبل نے کھیلوں کو اسکول کا مستقل جزو بناکر علمی ذوق کو نقصان پہنچایا ہے۔
(۲) تعمیری کام پر زور دے کر علمی ذوق پیدا کرنے سے اس نے بے اعتنائی برتی ہے۔
(۳) فروبل کے اصول صوفیانہ قسم کے ہیں ، جو سائنس کے دور میں ناقابلِ عمل ہیں۔
(۴) مکعب اور ڈرائنگ پر زور دے کر اس نے ریاضی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے۔
(۵) ارتقاء سے متعلق فروبل کے اصول زندگی کی اصل نوعیت سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے اور بچہ کی ذہنی ترقی کی پوری طرح وضاحت نہیں کرتے۔ ناقدین میں اسٹینلی بال اور جان ڈیوی کے نام بہت نمایاں ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے تبصرہ
فروبل کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مندرجہ ذیل حقائق نظر آتے ہیں:
(۱) فروبل کے نظریوں میں اسلامی تعلیمات کے بہت کچھ اثرات موجود ہیں۔ اس نے اسلام کا ضرور مطالعہ کیا ہوگا۔ عیسائی نقطۂ نظر کے خلاف یہ کہنا کہ بچہ ایک اچھی فطرت لے کر پیدا ہوتا ہے، عین اسلامی نقطۂ نظر ہے۔ حضور سرورِ کونین ﷺ کا ارشاد ہے کہ بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں انسان کی تخلیق فی احسن تقویم عمل میں آتی ہے۔
(۲) فروبل کی خدا پرستی اور روحانی اقدار کا احترام بہت ہی مستحسن جذبہ ہے۔ البتہ اس کے ذہن میں خدا اور کائنات کا جو تصور ہے وہ اسلامی توحید سے میل نہیں کھاتا۔ وہ کہتا ہے کہ خدا اور ساری کائنات صرف ایک وحدت ہے۔ انسان بھی اسی ایک وحدت کا جزو ہے۔ غالباً ہمہ اوست کے فلسفہ نے اسے متاثرکر رکھا ہے۔
(۳) فروبل کے نظامِ تعلیم میں بچہ ایک مرکزی مقام رکھتا ہے۔ یہ انداز فکر بھی اسلامی تعلیمات کا رہینِ منت ہے۔ بچہ سے محبت کرنا اور اسے مشفقانہ طریقہ سے تعلیم دینا عین اسلامی نقطۂ نظر ہے۔ حضور سرورِ کونین ﷺ کا یہ ارشاد کہ ’’بچے جنت کے پھول ہیں۔‘‘ اپنے اندر غیر معمولی تاثیر، شگفتگی اور شفقت لیے ہوئے ہے۔
(۴) فروبل نے ماں کی گود کو بہترین تربیت گاہ کہا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ قدرت کافیصلہ ہے کہ ماں اپنے بچے کو بہترین طریقے سے تربیت دے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ دنیائے انسانیت پر اسلام کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ بچوں اور بچیوں کو تعلیم دینے اور تربیت دینے کو بہت بڑی عبادت اور ربِ کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ امتِ مسلمہ کی ماؤں نے یہ فریضہ بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے کر درخشاں نمونے چھوڑے ہیں۔
(۵) کنڈر گارٹن کے نصاب میں جدید دور نے کچھ خرافات بھی شامل کردی ہیں۔ مثلاً ناچ گانا اور مختلف قسم کے ساز، جن کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے یہ تمام باتیں ناجائز ہیں اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس طریقۂ کار نے معاشرے میں کتنی ہولناک خرابیاں پیدا کردی ہیں۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
فروبل کے مندرجہ بالا اصول یورپ کے لیے بالکل نئے اور انوکھے تھے لیکن دنیائے اسلام کے لیے ان میں بہت زیادہ نیا پن نہیں ہے، تاہم ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں فروبل اور دوسرے ماہرینِ تعلیم کے اچھے اصولوں کو اسلامی اندازِ فکر کے مطابق ضرور اختیار کرنا چاہیے۔ البتہ یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اسلام کے بے شمار احسانات میں ایک عظیم الشان احسان یہ بھی ہے کہ اس نے بچے کی شخصیت اور اس کے کردار کو بڑا اونچا مقام دیا ہے۔ شفقت اور محبت کا اسے حقدار بتایا ہے۔ اسے اچھی تعلیم سے آراستہ کرنے اور اچھی تربیت سے سنوارنے کو ایک بڑی عبادت قرار دیا ہے۔
حضور سرورِ کونینﷺ نے جس مشفقانہ انداز سے حضرت فاطمہؓ کو تربیت دی تھی اور جس آغوش محبت میں حسنینؓ جیسے دو پھول پرورش پاتے رہے اور جس انداز سے حضرت انسؓ اور حضرت زیدؓ نے آپؐ سے فیض تربیت حاصل کیا، یہ سب فنِ تعلیم کے حیات آفریں اصول ہیں۔ جنھوں نے دنیا سے جہالت کی تاریکیوں کو مٹایا اور جگہ جگہ علم کی شمعیں روشن کیں۔
جس وقت یورپ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، اسلام کے علمبرداروں نے دنیا میں پھیل کر انسانیت کے درس دیے اور تمام علوم و فنون سے اسے بہرہ ور کیا۔
دنیائے اسلام کی نامور درسگاہوں اور جامعات نے بڑے بڑے مورخ، ادیب،فلسفی، علم طب کے ماہر، ریاضی داں اور سائنس داں پیدا کیے۔ بڑے بڑے فقہاء، محدثین اور مفسرین نے اسلامی کردار کو بلندی عطا کی۔
البتہ آج کا دور انتہائی الم ناک ہے۔ ادھر دو صدیوں سے مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات سے روگردانی کی۔ نئی لادینی تحریکوں کا خیر مقدم کیا اور یورپ کی ذہنی غلامی میں لت پت ہوگئے، اپنے پاس سب کچھ رکھتے ہوئے بھی مسلمان یورپ اور روس کی طرف ہمیشہ دیکھا کرتے ہیں۔ کاش! ہمیں یہ بات پھر سے یاد آجائے کہ دنیا کی امامت کے لیے ہمیں ہی برپا کیا گیا تھا۔
——

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں