فریب

انور کمال

شارق نے کہانی کی ابتدا کی!
وضو کرکے ناز فجر کی نماز کے لیے کھڑی ہوگئی تھی، کمرے میں ایک چارپائی پر اس کے ابو کریم میاں سورہے تھے۔
گھر کے صحن میں ایک مہندی کا پودا لگا ہوا تھا، جس کے قریب ہی اس کی امّی جان بھی وضو کررہی تھیں۔ پھر امّی جان بھی دالان میں ایک طرف مصلّٰی بچھا کر نماز ادا کرنے لگیں۔
کریم میاں کا مکان شہر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ وہاں اکثر زراعت پیشہ لوگ رہتے تھے۔ ان کے مکان سے تھوڑی دور آگے کھیت اور آم کے باغات تھے۔
یہ جاڑے کی ایک سرد ترین صبح تھی۔ صبح کے چھ بج چکے تھے… ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی… نماز سے فارغ ہونے کے بعد ناز باورچی خانے کی طرف بڑھ گئی، اور چولہے میں لکڑیاں لگا کر آگ لگانے کے لیے ان کے اوپر کچھ مٹی کا تیل ڈال دیا … گیلی لکڑیاں آگ کچھ دیر سے پکڑتی ہیں۔ اس لیے وہ چولہا سلگا کر جھوٹے برتن سمیٹ کر باہر نل کے قریب رکھ گئی…
اس کی امّی جان نماز سے فارغ ہوکر وہیں تلاوتِ کلام پاک کے لیے بیٹھ گئی تھیں۔
ناز بیس برس کی ہوچکی تھی… وہ ایک مناسب قدوقامت کی لڑکی تھی۔ گوری رنگت، جھیل جیسی پیاری پیاری آنکھیں، ملائم چمکدار لانبی زلفیں اس کے حسن کو دوبالا کررہی تھیں۔ لیکن ابھی تک اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ جس کی فکر اس کے والدین کو لاحق رہتی تھی… وہ ہمیشہ اسی فکر میں لگے رہتے تھے کہ کب ان کی پیاری بیٹی کے ہاتھ پیلے ہوں گے… کب ان کی لاڈلی دلہن بنے گی۔ لیکن سماج میں رائج شدہ رسوم تو اسے دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر سماج کو تباہ اور مذہب اور اخلاق کی قدروں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کررہی تھیں… جوڑے کی رقم اور جہیز جیسی رسوم معاشرہ کی وہ جونکیں ہیں، جو صرف خون چوسنا ہی جانتی ہیں … اور … جن کے آگے شریف لوگ بے بس نظر آتے ہیں، اسی کا شکار یہ لوگ بھی تھے۔
سورج دور مشرق کی وادیوں سے اپنا سر ابھار رہا تھا اور اس کی روشنی دھیرے دھیرے پھیلنے لگی تھی۔ فضا میں چھایا ہوا غبار بھی چھٹنے لگا تھا۔ جاڑے کی نرم نرم دھوپ صبح کے وقت بڑی بھلی معلوم ہورہی تھی۔ چھت پر بیٹھے ہوئے کبوتر غٹرغوں غٹر غوں کررہے تھے۔
ناز باورچی خانے میں مصروف تھی، چولہے سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھی دھویں کی طرف دیکھنے لگی تھی۔
’’بیٹی! تم اپنے ابا کے لیے چائے بنالو…‘‘ اچانک امّی کی آواز سن کر وہ چونک گئی… پھر ٹرے میں چائے کی پیالی رکھ کر وہ دالان کی طرف بڑھی… اور وہیں ٹھٹک کر رک گئی۔ اس کے ابو کے سامنے ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔
’’آؤ بیٹی! رک کیوں گئیں۔‘‘ کریم میاں نے ناز کی طرف دیکھ کر کہا۔ ناز کو محسوس ہوا جیسے اچانک اس کے پیر زمین میں دھنس گئے ہوں۔ اس کو اجنبی لوگوں کے سامنے آتے ہوئے بڑی شرم محسوس ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ خود کو سنبھال کر آگے بڑھی، اور ٹرے ابو کے سامنے رکھ دی… نوجوان نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو سلام کیا۔ سلام کا جواب دے کر اس نے اپنی نگاہیں نیچی کرلیں، اور پیر کے انگوٹھے سے زمین پر دائرے کا نشان بنانے لگی۔
’’بڑی شرمیلی ہے۔‘‘ کریم میاں نے مسکرا کر ناز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… اب اس کو وہاں کھڑا رہنا دوبھر ہوگیا تھا، اس لیے وہاں سے بھاگ کر اپنے کمرے کے اندر چلی گئی… کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے وہ وہیں کھڑے ہوکر اپنی سانس درست کرنے لگی تھی…
بعد میں اسے پتہ چلا کہ وہ نوجوان ابو کے کسی دور کے رشتہ دار کا لڑکا ہے… تھوڑی دیر یونہی خاموش کھڑے رہنے کے بعد اس نے دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ صحن اور دالان میں کوئی نہیں تھا۔ شاید وہ نوجوان چلا گیا تھا… وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم اٹھاتی ہوئی آگے بڑھی۔
صحن میں سورج کی سفید روشنی پھیلی ہوئی تھی… شاید چھوٹی بوا آچکی تھی۔ اس لیے نل کے قریب رکھے ہوئے برتن دھل چکے تھے، جیسے ہی وہ باغیچہ کی طرف اپنے قدم بڑھانے لگی، اس کو امّی جان کی آواز سنائی دی، جو اس کو بلا رہی تھیں۔
’’کیا ہے امّی جان…؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تم کہاں چلی گئی تھیں بیٹا۔‘‘ انھوں نے پیار سے پوچھا۔
یہیں تو تھی امی جان۔‘‘ ناز نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’جھوٹ کیوں بول رہی ہو۔یہ کیوں نہیں کہتیں کہ طارق آیا تھا اور اس کو دیکھ کر تم کمرے میں چھپ گئی تھیں۔‘‘
ناز نے کچھ نہیں کہا، وہ چپ چاپ مہندی کے پودے کی طرف دیکھنے لگی تھی۔
’’تمہیں ایک کام کرنا ہے ناز۔‘‘ اس کی امی نے کہا۔
’’کیا ہے امّی…‘‘ ناز نے چونک کر ماں کی طرف دیکھا۔
’’طارق کے رہنے کے لیے ایک کمرہ صاف کردو، اس کو سروس ملی ہے، ایک دو ماہ کے لیے وہ ہمارے ہی گھر ٹھہرے گا۔‘‘
’’اچھی بات ہے امی جان۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ صحن پار کرکے ایک بند کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھانے لگے تھے۔
ناز کے ابو کریم میاں ایک پرائیویٹ فرم میں خزانچی تھے۔ صبح کو اپنے کام پر وہ جاتے تو شام ہی کو واپس لوٹتے تھے۔ اور زندگی کی مشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنے کی ان کو عادت ہوگئی تھی۔ چونکہ ان کے ہاں کوئی لڑکا نہیں تھا، اس لیے وہ ناز ہی کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگے تھے۔
صبح کو محلے کے بچے ناز کی امی کے پاس قرآن شریف پڑھنے کے لیے آجایا کرتے تھے۔ ناز کو انھوں نے دسویں جماعت تک تعلیم دلائی تھی۔ آگے پڑھنے سے کریم میاں نے روک دیا تھا۔
اسکول کے دن ہنسی خوشی گزرگئے… لیکن جیسے ہی وہ اسکول سے اٹھی، اس کو تنہائی کا احساس ہونے لگا تھا۔
کبھی کبھی اس کی ایک عزیز سہیلی شاکرہ اس کے گھر آجایا کرتی تھی اور اس کی میٹھی میٹھی باتوں سے تھوڑی دیر کے لیے ناز کا دل بہل جایا کرتا تھا۔
خالی وقت میں کشیدہ کاری اور ناول یا ادبی کتابیں پڑھنا گویا اس کا محبوب مشغلہ بن گیا تھا۔ جب بھی وہ کوئی رومانی کہانی پڑھتی تھی، کسی انجانے خیال میں ڈوب جاتی تھی۔ ابھی تک اس کی زندگی میں ایسا کوئی بھی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا، جو کہانیوں میں ہوا کرتا ہے اور اکثر وہ کسی سوچ اور تصور کی دنیا میں کھوجایا کرتی تھی۔
جیسے وہ کسی ہری بھری حسین وادی میں پہنچ گئی ہو… دھواں دھواں سا سماں ہو… سفید سفید روئی کے گالوں جیسے بادل پیروں سے لپٹ جاتے ہوں… اور رخساروں سے ٹکرا کر کانوں میں سرگوشیاں کرنے لگتے ہوں۔ ہلکی سی سردی کا احساس ہونے لگتا ہو… وہاں کی خاموشی روح کی تازگی کو بڑھا دیتی ہو… پھولوں کی مہک ہوا کے نرم و نازک جھونکوں کے ساتھ مل کر پھیلنے لگی ہو… ننھے ننھے رنگ برنگے پرندے پر پھیلائے اڑ رہے ہوں، اور طبیعت کو واقعی فرحت محسوس ہوتی ہو… ایسے میں کوئی حسین شہزادہ سفید گھوڑے پر بیٹھ کر اس کے قریب آئے… پھر اس کو سمیٹ کر اٹھالے اور اپنے قریب گھوڑے پر بٹھالے … پھر کہیں دور لے چلے… دور… بہت دور۔
لیکن!…
حقیقت اس کے برعکس ہی ہوا کرتی ہے۔
اور … جب بھی وہ تصور کی دنیا سے حقیقت کی دنیا کی طرف لوٹ کر آتی ہے تو اس کو اپنی تنہائی کا شدت سے احساس ہوتا ہے … اور …وہ اداس ہوجایا کرتی تھی۔
دوپہر کے تین بج چکے تھے۔
امّی جان اکثر گھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر دوپہر میں کچھ دیر کے لیے سوجایا کرتی تھیں۔ اور چھوٹی بوا پڑوس میں کسی کے ہاں چلی جاتی تھیں۔
گھر میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ناز اپنے کمرے میں لیٹی کتاب کی ورق گردانی کررہی تھی… اچانک کوئی چیز کتاب سے ٹکرا کر نیچے زمین پر گرگئی۔
ناز نے چونک کر دیکھا… کاغذ کا ایک پرزہ پتھر سے بندھا ہوا تھا… چند لمحوں تک وہ یہ سمجھ ہی نہ سکی کہ یہ کیا ہے…؟
پھر … اس نے اپنے حواس درست کیے… اور ہاتھ بڑھا کر کاغذ کے اس پرزے کو اٹھایا اور اس کو کھول کر پڑھنے لگی… اس کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی اور اس کو ایسامحسوس ہونے لگا تھا جیسے خون تیزی سے اس کی رگوں میں بہہ رہا ہو…
اس کی پیشانی پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہوگئی تھیں۔ کاغذ پر سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کمرے کے باہر دیکھا … لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں تھا! ’’یہ کس کی حرکت ہوسکتی ہے؟‘‘ وہ کافی دیر تک سنجیدگی سے سوچتی رہی تھی۔ اور … پھر نہ جانے کیا سوچ کر خاموشی سے اس نے کاغذ کو اپنی کتاب میں رکھ لیا اور اٹھ کر کھڑکی کے قریب چلی گئی… بکھری ہوئی زلفوں کی ایک لٹ کو ہاتھ سے درست کرنے کے بعد کھڑکی کے کواڑ بند کردیے۔
دوسرے دن ایک چھوٹے بچے نے اس کو ایک پرچہ لاکر دیا، اور بتایا کہ ایک صاحب نے آپ کو دیا ہے۔ پرچہ لے کر وہ اپنے کمرے کے اندر چلی گئی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس کو کھول کر پڑھنے لگی۔
ایک عجیب سی کیفیت اس پر طاری ہونے لگی تھی… ایسا لگتا تھا جیسے اس پر ایک وجد آفریں نشہ سا چھا رہا ہو… نہ چاہتے ہوئے بھی وہ پرچے کو بار بار پڑھنے لگی تھی… اس پرچہ میں لکھا ہوا ایک ایک لفظ اس کے دل کے تاروں کو چھیڑنے لگا تھا۔
پھر وہ سوچنے لگی تھی۔
یہ اجنبی کون ہوسکتا ہے…؟ جو اس کے اطراف ایک جال بن رہا ہے۔ جس کے شکنجے میں وہ دھیرے دھیرے پھنس رہی ہے۔ پھر یہ ہر روز کا معمول بن گیا تھا… اس کو کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی ذریعے سے پرچہ ملا کرتا تھا۔ اس کا ساراذہن اس میں لکھی ہوئی عبارت کی لپیٹ میں آنے لگا تھا…ایک دن، اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا کہ کہیں یہ پرچے طارق تو نہیں لکھ رہا ہے؟ اس خیال کے آتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی، اور اپنے قدم دھیرے دھیرے بڑھاتی ہوئی وہ طارق کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔
طارق گھر پر ہی تھا۔
وہ اس کے کمرے کے قریب جاکر کھڑی ہوگئی اور … سوچنے لگی کہ طارق سے جاکر کیا کہے۔
اتنے میں طارق کے کمرے سے کوئی نکل کر اس سے ٹکرایا۔ ناز نے چونک کر دیکھا، ایک خوبرو، پرکشش اور دراز قد کا نوجوان اس کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔ ’’معاف کیجیے محترمہ! میں طارق سے ملنے آیا تھا …‘‘ نوجوان نے معذرت طلب نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ناز نے کوئی جواب نہیں دیا … وہاں سے بھاگ کر وہ اپنے کمرے کے اندر چلی گئی۔
دھیرے دھیرے اس کو پتہ چلنے لگا تھا کہ کوئی اس کو تڑپا رہا ہے … اور… یہ تڑپ اس کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی… ایک دھیمی دھیمی سی آنچ تھی، جس میں وہ جھلسنے لگی تھی… ایک غبار سا اس کے ذہن پر چھانے لگا تھا… ایک جادو کا اثر تھا، جس سے چھٹکارا پانا مشکل دکھائی دے رہا تھا…! اپنی اس دلی کیفیت کو وہ کسی پر ظاہر بھی نہیں کرسکتی تھی… اور اس کو چھپانا بھی مشکل معلوم ہورہا تھا۔
وہ تذبذب کا شکار ہوچکی تھی اور اکثراپنے خیالات کے ہجوم میں گم رہنے لگی تھی۔
وقت گزرتا رہا…
ایک شام، شاکرہ اس سے ملنے کے لیے آئی تھی۔ ادھر ادھر کی چند باتیں کرنے کے بعد اس نے ناز کی طرف دیکھ کر پوچھا: ’’کیا بات ہے ناز! تم مجھے کچھ کھوئی کھوئی سی دکھائی دے رہی ہو؟‘‘
ناز نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور سوچنے لگی کہ کوئی بات چھپانے سے کیا فائدہ، کیوں نہ شاکرہ سے پوری کہہ کر اس کی رائے لی جائے۔اس خیال کے آتے ہی اس نے پوری بات شاکرہ سے کہہ سنائی۔
سب کچھ سننے کے بعد شاکرہ مسکرا کر بولی: ’’مجھے سب کچھ پتہ ہے!‘‘
’’کیا کہا… تمہیں معلوم ہے!‘‘ ناز نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں! مجھے معلوم ہے کہ کون تمہیں یہ پرچے لکھتا ہے… اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم ایک بھولی بھالی اور معصوم لڑکی ہو، اور جب کسی کی یادتمہارے دل میں گھر کر جائے تو اس سے چھٹکارا پانا تمہارے لیے مشکل ہی ہے۔ لہٰذا تمہاری شادی اسی نوجوان سے ہونی چاہیے۔‘‘ شاکرہ نے کہا۔
’’کون ہے وہ؟‘‘ ناز نے اشتیاق بھری آواز میں پوچھا۔
’’وہی جس کی ٹکرّ آج صبح تمہارے ساتھ طارق کے کمرے کے سامنے ہوئی تھی، اس کا نام سلیم ہے۔ وہ ایک انجینئر ہے۔‘‘
’’تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘ ناز نے پوچھا۔
’’وہ میرے بھائی ہیں۔ انھوں نے مجھے سب کچھ بتادیا ہے۔ اور آج ہماری امی جان رشتہ مانگنے کے لیے تمہارے گھر آنے والی ہیں۔‘‘
ناز کی حالت یہ سب سننے کے بعد عجیب ہوگئی تھی۔ فرطِ حیا سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
پھر ناز اور سلیم کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا تھا۔
شاکرہ، ناز کو اپنی بھابی بناکر بہت خوش تھی، رخصتی کے موقع پر شاکرہ نے خاموش کھڑے ہوئے طارق کو ایک طرف لے جاکر کہا:
’’طارق صاحب! میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’کہو کیا بات ہے؟‘‘ طارق نے پوچھا۔
’’آئیے! آپ کے کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں۔‘‘ شاکرہ نے کہا اور وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔
’’طارق صاحب! میں اور سلیم بھائی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ناز کو پرچے لکھنے والے آپ ہی ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کو ناز سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، کیونکہ آپ ایک ماڈرن لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی تحریر میں جادو ہے یا نہیں، یہ دیکھنے کے لیے آپ ناز کوپرچے لکھا کرتے تھے، کیونکہ آپ ایک مصنف بھی ہیں… لیکن آپ کو انجام کی خبر نہیں تھی… اسی لیے آپ نے ایک معصوم لڑکی کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ مگر آپ کو یہ بات جاننی چاہیے تھی کہ اگر ناز کو حقیقت کا علم ہوجائے اور اس کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ آپ نے اس کے ساتھ ایک فریب کیا ہے، اس کو دھوکا دینا چاہا ہے… یا تو وہ مردوں سے نفرت کرنے لگے گی یا اپنا ذہنی توازن کھودے گی۔ یا پھر وہ گھٹ گھٹ کر مرجائے گی۔ لیکن میں اپنی سہیلی کو بے موت مارنا نہیں چاہتی تھی۔ اسی لیے میں نے یہ کام کیا ہے۔ ‘‘اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔
چند لمحے خاموش رہنے کے بعد وہ پھر بولی: ’’شاید آپ یہ بات بھول رہے ہیں طارق صاحب !کہ وہی ناز آپ کے لاشعور میں چھپی ہوئی ہے اور یہ بات یقینا آپ کو ہمیشہ تڑپاتی رہے گی۔ مجھے بس اتنا ہی کہنا تھا آپ سے!‘‘
یہ کہہ کر شاکرہ، طارق کو سکتہ کی حالت میں اس کے کمرے میں تنہا چھوڑ کر باہر چلی گئی تھی۔
باہر آنگن میں شہنائیاں بج رہی تھیں۔شارق نے قلم کو نیچے رکھ دیا، یہاں کہانی اختتام کو پہنچی۔
پھر شارق نے سوچا جینے کے لیے حوصلہ چاہیے اور حوصلہ کے لیے اعتماد! چلو اچھا ہی ہوا کہ شاکرہ نے ناز کو بچالیا۔ ورنہ اس دنیا میں کئی لوگ ہیں جو فرضی اور عارضی دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ایک لاحاصل دنیا۔ آدمی کب اس اندھے اور گہرے کنویں سے باہر نکلے گا؟ پھر شارق اپنے قلم کی نوک کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں سوچ کے سائے لہرانے لگے تھے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں