وہ میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ میں نےٹرین میں داخل ہوتے ہی ایک اچٹتی ہوئی نگاہ اس پر ڈالی اور اپنی جگہ پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اس نے لال شلوار اور ہرے رنگ کی قمیص پہن رکھی تھی جس پر زری کے پھول کڑھے ہوئے تھے۔ ایک کالا دوپٹہ تھا جس کے دونوں سروں پر سنہری جھالر لٹک رہی تھی جو اس کے گندمی چہرے کو اور خوشنما بنا رہی تھی۔ عمر کوئی اٹھارہ بیس برس رہی ہوگی ہاتھ میں ایک بڑا موبائیل، ساتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ جسے اس نے کھڑکی کی دائیں جانب رکھ چھوڑا تھا۔
میں نے بارہا اپنا سفر صعوبتوں سے گھرا پایا ہے جہاں وقت کی سوئی رک سی جاتی ہے لیکن آج پہلا اتفاق تھا کہ ایک کہانی، جس کی ابتدا نے انتہا تک پہنچنے کی جلدی میں وقت کی رفتار کو تیز تر کر دیا تھا۔ میں کہانی کے تجسس سے نکل نہیں پا رہا تھا۔ بیانیہ کافی عمدہ تھا منظر نگاری بھی خوب تھی مجھے بس اختتام کو جاننے کی جستجو نے حیران و پریشان کر رکھا تھا۔
اس نے اپنے بیگ سے سم کھولنے والا پن نکالا، سم کا سلاٹ باہر کیا، پرانے سم کو بیگ میں رکھا اور نئی سم لگا دی۔ ٹرنگ ٹرنگ کی صدا کے ساتھ ہی کچھ میسیج اس کی اسکرین پر نمودار ہوئے جنھیں غور سے پڑھنے کے بعد مسرت و شادمانی کی خفیف سی لکیریں اس کے چہرے سے ظاہر ہوئیں۔ تبھی کھڑکی سے آئی ہوئی ہوا کے تیز جھونکے نے میری کہانی کے کئی اوراق کو برق رفتاری سے پلٹ کر آغاز سے انجام کی جانب سبک رفتاری سے دھکیلنا شروع کر دیا۔
کبھی اس کے چہرے پر خوشی و انبساط کے آثار نمایاں ہو جاتے تو کبھی اداسی و پشیمانی سے اس کا چہرہ پھیکا پڑ جاتا ۔ ظاہر میں تو وہ شریف گھر کی ہی پڑھی لکھی لڑکی معلوم ہوتی تھی۔ شاید زمانے کی گردش نے اسے کسی دام فریب میں گرفتار کر دیا تھا۔ اچانک ایک ہچکولے کے ساتھ ٹرین چل پڑی۔ میں نے باہر کی جانب نگاہ ڈالی تو ٹرین آہستہ آہستہ پلیت فارم کوپیچھے چھوڑ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے بیگ سے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا اور اس پر لکھے نمبر کو اپنے موبائیل سے ڈائل کرنے لگی۔ کئی بار کی کوشش کے با وجود ناکامی نے مایوسی و ناامیدی اور فکر و تردد کی ایک گہری لکیراس کے رخساروں پر کھینچ دی ۔ میں اب تک اپنی کہانی کے کئی اوراق پڑھ چکا تھا جس کا تجسس ابن صفی کی گنجلک کہانیوں سے مشابہ تھا۔
میں سفر میں ہم سفروں سے بات چیت کرنے کے بہانے تلاش کرنے میں بڑا بےباک واقع ہوا ہوں۔ کوئی پریشانی تو نہیں؟ اگر آپ کو کہیں کال کرنی ہے تو میرا فون استعمال کر سکتی ہیں؟ اس نے میرے چہرے کو بہ غور دیکھا اور مسکرا کر خاموش ہو گئی۔ شاید اسے میرا یہ رویہ پسند نہ آیا تھا۔ میں بھی خاموش رہا۔ اس نے دوبارہ نمبر لگایا لیکن کامیابی نہیں ملی۔ میں نے محسوس کیا کہ اچانک اس کا چہرہ بجھ سا گیاہے۔ میں نے اپنا موبائیل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: آپ نے پرانی سم نکال کر نئی سم لگا لی ہے، ممکن ہے اس میں بیلینس نہ ہو، آپ میرے موبائیل سے بات کر سکتی ہیں۔ اس نے کسی قدر جھجکتے ہوئے میرا موبائیل لے لیا۔ کئی بار کی کوشش کے بعد ادھر سے ڈری سہمی سی آواز نے خیر مقدم کیا۔ اس کی مختصر سی گفتگو کا لب لباب میں پوری طرح سمجھ چکا تھا۔ موبائل میں بیلینس بھرانے کی یاددہانی کے ساتھ فون کٹ ہو گیا۔ کوئی الجھن تھی جسے وہ چھپا رہی تھی۔’’پریشان نہ ہوں میں آپ کے ساتھ ہوں۔‘‘ اس نے شکریہ ادا کرتے ہی سر جھکا لیا۔ میں نے پر اعتماد لہجے میں کہا: اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ وہ ’’ہاں‘‘ کہتے ہوئے جھجھک سی گئی۔ میں نے کہا شاید آپ گھر سے ناراض ہو کر کسی کے پاس جا رہی ہیں؟ وہ میرا مطلب سمجھ چکی تھی۔ اس نے حیرت سے میری جانب دیکھا پھر زیر لب مسکرائی اور شرم کے مارے دوپٹے کو درست کرتے ہوئے کہنے لگی ہاں ایسا ہی ہے۔
میری کہانی کے چند اوراق کو دیمکوں نے چاٹ لیا تھا اور میری بوسیدہ کتاب میں اوپر سے نیچے کی جانب ایک لمبی لکیر کھینچ ڈالی تھی جس سے چند الفاظ دریا برد ہو گئے تھے۔ مجھے جملے کی ساخت کو سمجھنے میں دشواری پیدا ہو رہی تھی۔ میں نے کتاب بند کر دی۔ استفسار کرنے پر اس نے کہا فیس بک سے۔ اوہ! فیس بک! میرے دل سے ایک ہوک سی نکلی اور درد سے سینہ جیسے تنگ سا ہو گیا۔ میں ایک لمبی سرد آہ بھر کر خاموش ہو گیا۔ اس نے میرے چہرے پر ایک مشتبہ نگاہ ڈالتے ہوئے کہا فیس بک میں کیا مسئلہ ہے؟ پہلے انسان آس پاس کے لوگوں کو ہی جان پاتا تھا؟ اب دور دراز کے لوگوں سے بھی دوستی کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے کیا خیال ہے آپ کا؟ اس سوالیہ جملے نے مجھے کافی متعجب اور متحیر کر دیا تھا۔ میں چند لمحے میں ہی کئی طرح کے سوالات سے جوجھ رہا تھا۔ ایک معصوم دماغ کو اپنی گرفت میں لینے والے چال باز اور شاطر دماغ لڑکوں کے بارے میں سوچ کر لڑکی کی کم عقلی اور کچی عمر پر میرے دل کا ٹمٹماتا ہوا چراغ ٹرین کی رفتار کے کم ہونے والے جھٹکے سے اچانک بجھ سا گیا۔
میں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا:’’کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟‘‘ آپ کو قطعی اس کی ضرورت نہیں، آپ کچھ زیادہ ہی بے تکلف ہو رہے ہیں۔ اس کے جواب میں تلخی تھی۔ میں نے اصرار کیا تو اس نے کہا شگفتہ ایک فرضی نام ہی سمجھ لیجئے۔ میں نے پوچھا آپ کا سفر کہاں تک ہے؟ اس نے خاموشی اختیار کی دوبارہ پوچھنے پر کہا ٹرین تو نئی دہلی سے آگے جائے گی آپ کو اتنی تفصیل جان کر کیا کرنا ہے؟ میرے دوست نے مجھے راستے میں کسی اجنبی مسافر سے بات چیت کرنے اور نام و پتہ بتانے سے منع کیا ہے۔ میرے منھ سے نکلا ’’بڑا چالاک اور شاطر ہے آپ کا دوست؟‘‘ یہ سن کر اس نے منھ بنا لیا اور پانی کی بوتل کھولتے ہی کہنے لگی: پانی لیں گے آپ؟ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ قدرے توقف کے بعد میں نے کہا۔ کافی اطمینان جھلک رہا ہے آپ کے چہرے پر؟ میں نے کسی بھاگنے والے کے چہرے پر آج تک اتنی بے فکری اور سکون پہلے کبھی نہیں دیکھا؟ وہ خوش ہوئی اور کہنے لگی اس نے کہا تھا جب گھر سے نکلنا تو ماں باپ بھائی بہن اور گھر کے بارے میں بالکل نہیں سوچنا، صرف میرے اور اپنے بارے میں سوچنا اور منزل پر نگاہ رکھنا۔ میں نے کہا اچھا تو تمہارا واسطہ ایک مکار اور عیار آدمی سے پڑا ہے؟ اس نے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن اب تک وہ کافی گھل مل گئی تھی اس لیے برا نہیں مانا۔ میں نے پوچھا تمہیں عشق کا مطلب پتہ ہے؟ اس نے میرے چہرے پر ایک تجسس بھری نگاہ دوڑائی اور کہا، عشق مطلب پیار و محبت اور کیا؟
ہاں تم نے صحیح کہا لیکن عشق کیا نہیں جاتا، ہو جاتا ہے۔ زندگی انسان کو کبھی ایسے دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے کہ انسان دل اور حالات کے ہاتھوں مجبور محض ہو جاتا ہے۔ عشق گورا کالا، امیر غریب، ملک و قومیت، نسل، مذہب اور ذات پات کچھ نہیں دیکھتا لیکن عاشق کبھی ظلم نہیں کرتا بلکہ ظلم سہتا ہے۔ عاشق کسی کی بے عزتی نہیں کرتا بلکہ ذلت برداشت کرتا ہے۔ عشق وہ ہوتا ہے جس میں کوئی لالچ نہیں، کوئی چھل نہیں، کوئی فریب و دغا نہیں۔ عاشق چالاک نہیں ہوتا، مکار نہیں ہوتا، عاشق سودا نہیں کرتا، عاشق عزت کرنا جانتا ہے، وہ معصوم ہوتا ہے اور کبھی کسی کی بے عزتی کا سبب نہیں بنتا۔ اس نے بیچ میں ہی ٹوکتے ہوئے کہا ہمارا دوست بھی سب کی عزت کرتا ہے اور وہ مجھ سے بے پناہ محبت بھی کرتا ہے۔
میں نے اپنی کتاب کا ایک اور صفحہ پلٹتے ہی پانی کی بوتل اس کے ہاتھ سے لے کر کئی گھونٹ اپنے خشک گلے میں انڈیلتے ہوئے کہا :’’اگر وہ سچا پیار کرنے والا ہوتا اور تم سے دلی محبت کرتا تو ٹرین سے تمہیں اتنی دور بلانے کی بجائے وہ خود تمہارے پاس آتا اور بہتر یہ ہوتا کہ وہ اپنے باپ ماں کے ساتھ تمہارے گھر آتا اور تمہارے والدین سے تمہارا رشتہ مانگتا۔ کیا تم نے کبھی اس سے پوچھنے کی زحمت گوارا کی کہ اس کی بہن کو اگر کوئی بھگا کر لے جائے تو اسے کیسا محسوس ہوگا اور اس کے ماں باپ پر قیامت کی کیسی گھڑی گزرے گی؟ اس نے تو پیار میں کوئی رسک لیا ہی نہیں؟ سب کچھ تمہارے سر پر ڈال کر خود آزاد ہو گیا؟ یہاں تک کہ تن تنہا ایک اکیلی لڑکی کو اتنے مشکل حالات میں اتنی دور ایسے راستے سے بلایا جس سے تم نا آشنا ہو، یہ کیسا پیار ہے؟ کیا اس میں تمہیں اپنی بیوقوفی نظر نہیں آتی؟ اس کے چہرے کا رنگ دھیرے دھیرے بدل رہا تھا اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب چکی تھی۔
تھوڑے سے وقفے میں ایک سچا عشق اور ایک فریبی و مکار عاشق کے تعلق سے میں نے ایک پوری تقریر اس کے گوش گزار کر دی۔ اس کی بھنوئیں تن گئیں اور چہرے پر فکر کی لکیریں صاف نظر آنے لگیں۔ اس نے پانی کی آدھی بوتل اپنے گلے میں انڈیل لی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ پیڑ پودے وقت کی رفتار کی طرح ٹرین کے مد مقابل الٹی جانب کو تیزی سے بھاگے جا رہے تھے۔
اس نے سر جھکا لیا اور کسی خیال میں گم ہو گئی۔ قدرے خاموشی کے بعد اس نے سر کو اوپر اٹھایا، بالوں میں انگلیاں پھیر کر الجھے ہوئے بالوں کو درست کیا اور چوٹی کو ربر سے کئی گرہ لگاتے ہوئے کس دیا۔ ’’اف!‘‘ کی ایک مبہم سی صدا کے ساتھ ہی اپنی آنکھیں اس نے میرے چہرے پر گاڑ دیں۔ آنکھیں اشک بار تھیں اور مزید کچھ جاننے کی متلاشی تھیں۔ میں نے نظریں نیچی کرلیں۔ وہ بدبدائی۔ چند سوالات متضاد رخ میں کھڑے جواب کے منتظر تھے؟
یہ گلی چوراہے کے لونڈے لپاڑے عاشق نہیں بلکہ کم سن بچیوں کا جسم حاصل کرنے والے سوداگر ہیں، جو معصوم اور بھولی بھالی لڑکیوں کا شکار کرتے ہیں اور آج تم ان کا ایک شکار ہو۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔ اس میں لڑکے کے بھاگ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ والدین کا لوگوں کے سوال پر بس اتنا جواب ہی کافی ہوتا ہے غصے میں گھر سے چلا گیا ہے جب غصہ ٹھنڈا ہوگا اور ہوش ٹھکانے آئیں گے تو خود ہی واپس آ جائے گا لیکن لڑکی کے بھاگ جانے سے پورے خاندان کی عزت ملیا میٹ ہو جاتی ہے والدین اور بھائی بہنوں کے منھ پر تالے لگ جاتے ہیں۔
دنیا ترقی کے کتنے بھی منازل طے کر لے لڑکا اور لڑکی کا فرق ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا اور اسے رہنا بھی چاہیے۔ لڑکا فٹ پاتھ پر سو جاتا ہے، کسی ہوٹل میں برتن مانجھ کر دو وقت کا کھانا کھا لے گا، کسی دکان میں کام کر کے اپنا گزارا کر لے گا لیکن کیا لڑکی ایسا کر پائے گی؟ ہر چیز کے عوض اس کے جسم کا سودا کیا جائے گا اسے نوچ لیا جائے گا اور بہت جلد اسے کہیں کا نہ چھوڑا جائے گا۔
امریکہ ہو یا لندن عورت ہر جگہ اکیلی اور تن تنہا غیر محفوظ ہے اسے مرد کا بازو ہی تحفظ عطا کرتا ہے چاہے وہ اس کا باپ ہو، بھائی ہو بیٹا ہو یا شوہر؟ اس کے علاوہ اس کا مخلص کوئی بھی نہیں؟ ایک عاشق کو ذمہ دار شوہر بنتے بنتے اور اپنا اعتماد ایک دوسرے پر بحال کرتے کرتے پوری زندگی گزر جاتی ہے پھر بھی ایک دوسرے پر شک کی سوئی ہمیشہ گھومتی ہی رہتی ہے۔ ایک بھاگی ہوئی عورت اپنے شوہر کو اپنی عزت اور شرافت کی پہچان کرتے کراتے پوری جوانی گزار دیتی ہے لیکن اس کے ذہن میں خدشہ آخر وقت تک بنا ہی رہتا ہے۔
وہ کسی خیال میں کھو گئی زندگی کی بھول بھلیوں میں اچھے برے کو وقت سے پہلے سمجھنے اور پہچاننے کی جستجو نے اسے کافی حیران و پریشان کر دیا تھا جو اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ میں نے زیادہ بولنا مناسب نہیں سمجھا اور خاموش ہو رہا۔ دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ میں شاید کچھ زیادہ ہی بول گیا مجھے اتنا نہیں بولنا چاہیے تھا۔ تھوڑے سے وقفے سے اس نے میری طرف دیکھا جیسے کچھ اور سمجھنا چاہتی ہو؟ کچھ اور جاننا چاہتی ہو؟ کچھ اور پوچھنا چاہتی ہو؟
میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:’’تمہارے دوست نے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچا کہ جب تمہاری ماں کو پتہ چلے گا کہ تم گھر سے بھاگ چکی ہو تو اس کا کیا حال ہوگا؟ وہ تو جیتے جی غیرت و ندامت سے مر جائے گی؟ شرمندگی و خجالت سے زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ ہو جائے گی؟ کئی کئی روز وہ کھانا نہیں کھا پائے گی؟ اس کا وزن چند ہفتوں میں گھٹ کر آدھا رہ جائے گا۔ کیا ہوگا تمہارے باپ کا جب راستے چوراہے پر لوگ اس سے پوچھیں گے بھائی صاحب بیٹی کا کچھ پتہ چلا؟ کیا ہوگا تمہارے بھائیوں کا جب اس کے دوست اس سے بولیں گے اب تک بہن ملی یا نہیں؟ کیا ہوگا تمہاری چھوٹی بہنوں کا جب اس کی سہیلیاں اس سے سوال کریں گی کیا باجی اب تک گھر واپس نہیں آئی؟ ایک بات یاد رکھنا عورت اگر بھاگ کر شادی کر لے تو پوری زندگی معاشرہ اسے وہ عزت کبھی بھی نہیں دے پاتا جو ماں باپ بھائی بہن اور خاندان کی رضا، خوشی اور مرضی کے ساتھ ہوئی شادی سے عورت پاتی ہے۔ وہ عمر کے آخری حصے تک بھی سماج میں ایک بھگوڑی کے نام سے ہی یاد کی جاتی ہے۔ اس کے بچے یہاں تک کہ اس کا شوہر بھی تاحیات رشتے داروں کی تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں۔
ٹرین نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر لگ چکی تھی۔ میں بہت دنوں بعد دہلی آیا تھا اب پہلے کی طرح کچھ بھی نہیں تھا سب کچھ بدل چکا تھا اور ساتھ ہی شگفتہ بھی بدل چکی تھی۔ اس نے دوبارہ پن نکالا موبائیل کا سلاٹ کھولا نئے سم کو توڑ کر پھینک دیا اور پرانے سم کو ڈالتے ہی میسیج کی بھرمار نے اسے آبدیدہ کر دیا۔ تبھی ایک رنگ کے ساتھ اس کے پاپا کی کال آئی۔ شگفتہ نے روتے ہوئے کہا مجھے معاف کر دینا پاپا میں نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر ہوں اور گھر آ رہی ہوں۔ پھر اس کی ماں کی سسکیاں آہیں و نالے، گریہ و فریاد اور آہ و فغاں جسے میں بہ مشکل سن پایا۔ اس نے روتے ہوئے کہا ممی آپ نے اپنی زندگی میں کوئی نیکی ضرور کی ہوگی کہ ایک ہمدرد اور مہربان بھائی مل گیا جس نے میری سمت درست کر دی ہے میری غلطیوں کی اصلاح کر دی ہے اور میری لغزشوں کی نشاندھی کر دی ہے میں ابھی گھر واپس آ رہی ہوں۔
اس نے میرا نمبر لیا اور تصدیق کرنے کے لیے ڈائل کیا۔ میں نے اپنی کتاب کا آخری صفحہ پلٹتے ہی کتاب بند کر دی میری کہانی کا اختتام ہو چکا تھا۔ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی میرے سینے سے لگ کر زاروقطار روتے ہوئے الوداع کہتے ہی آگے بڑھ گئی۔ دو قدم چلنے کے بعد رکی اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا میری شادی میں ضرور آئیے گا میں فون کروں گی اور ہاں میری طرح سم مت بدلنا؟ خدا حافظ کے ساتھ ہی وہ اسٹیشن کے دوسری جانب بریلی جانے والی ٹرین پر سوار ہو گئی۔