فضلو پھول والا

شاہدہ حق

فضلو کی مخصوص کھانسی کی آواز پر زلیخا تیزی سے چارپائی سے اتری۔ اتنے میں فضلودروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور پھولوں کا ٹوکرا ایک کونے میں پٹخ کر پگڑی سے پسینہ پونچھتے ہوئے بڑبڑاتا ہوا چارپائی پر جابیٹھا۔
’’روٹی پانی دے گی مجھے یا نہیں۔‘‘ اس نے بڑے غصے سے چلا کر کہا۔
زلیخا نے جلدی سے کھانے کی تھالی لاکر اس کے آگے رکھ دی۔ وہ اب بھی غصے میں اپنے آپ سے بول رہا تھا : ’’سارے شہر نے نہ مرنے کی قسم کھائی ہے۔ اخبار دیکھو تو حادثے، دھماکے، قتل۔ معلوم نہیں یہ لوگ مرکر بھی کہاں جاتے ہیں۔ وہاں قبرستان تو آتے نہیں، ہفتوں کوئی میت نہیں آتی۔‘‘
’’پہلے کھانا کھالے، ٹھنڈا ہوجائے گا۔‘‘ زلیخا نے دھیمے سے فضلو سے کہا اور پھولوں کو کھول کر بوری پر پھیلانا شروع کردیا تاکہ کل تک ان کی تازگی برقرار رہے۔ ’’لگتا ہے آج ایک بھی نہیں بکا، کل جتنے لگ رہے ہیں۔‘‘ زلیخا نے سرگوشی کے انداز میں کہا تھا مگر فضلو نے سن لیا۔ دوچار گالیوں سے کم پر تو فضلو بات شروع ہی نہیں کرتا تھا، فوراً بولا:
’’سارا شہر کمینہ ہوگیا ہے، مرتا ہی نہیں۔‘‘ فضلو کھانا کھاتے کھاتے سب پر اپنا غصہ اتار رہا تھا۔
’’کیسی باتیں کرتا ہے، اللہ سے ڈر، اللہ کو بری لگتی ہیں ایسی باتیں۔‘‘ زلیخا نے فضلو کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’زیادہ اللہ والی نہ بن، ایک پیسے کا مال نہیں بکا، کل پھر ٹھیکیدار آکر میرے سر پر کھڑا ہوجائے گا، کل بھی ادھار پر لیا تھا میں نے، پہلے کا قرضہ بھی باقی ہے اس کا۔‘‘ فضلو نے آنکھیں مٹکا کر زلیخا کو دیکھا۔
’’اللہ مالک ہے، کل بک جائیں گے۔‘‘ زلیخا نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ فضلو نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا: ’’اپنی بستی کا کوئی بندہ مرگیا تو بک جائے گا ورنہ شہر والے تو اسے کل دیکھیں گے بھی نہیں۔‘‘ فضلو کی بات سن کر زلیخا اچھل پڑی:
’’توبہ کر فضلو، توبہ … کیوں اتنی بری بری باتیں کرتا ہے، تو کوئی اچھی بات بھی تو کرسکتا ہے۔‘‘ وہ ہاتھ اٹھا کر بولی۔
’’کا اچھی باتیں کروں۔‘‘
زلیخا نے اس کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر نرمی سے کہا: ’’لوگوں کی خوشیوں کی باتیں، بیاہ شادی کے لیے بھی پھول خریدے جاتے ہیں۔‘‘ زلیخا کی بات اور انداز دونوں ہی نے فضلو کو اور زیادہ تپادیا۔ ’’او پاگل عورت کچھ عقل کی بات کر، قبرستان کے باہر بکنے والے پھول صرف قبروں کے لیے ہوتے ہیں، شادی بیاہ والے تو ہمیں دیکھتے ہی نہیں، انہیں ہمارے پھولوں میں اپنے مرنے والوں کی صورتیں نظر آتی ہیں، وہ بھلا ہم سے کیوں خریدیں گے! وہ تم ہم سے کیا ہمارے پھولوں سے بھی خوف کھاتے ہیں۔‘‘
دروازہ کھلا اور زبیدہ چاول کا بھرا تھال لے کر اندر داخل ہوئی۔ وہ اپنے باپ کو کھانا کھاتے دیکھ کر اس کے پاس جابیٹھی اور چاول کا تھال باپ کے قریب رکھتے ہوئے بولی: ’’ابا کمال چاچا نے چاول کی دیگ پکائی ہے، گوشت اور آلو بھی ڈالے ہیں۔‘‘
’’کیوں، تیرے کمال چاچا کا ولیمہ تھا؟ اس نے دوسرا نکاح کرلیا؟‘‘ فضلو چاول میں بوٹی تلاش کرتا ہوا مسکراتے ہوئے بولا۔ زبیدہ باپ کی بات پر مسکراتے ہوئے بولی: ’’نہیں ابا! بانو کی دادی کی برسی تھی آج، اس لیے۔‘‘ پھر کچھ یاد آتے ہی دوپٹے کے پلو پر بندھی گانٹھ کھولتے ہوئے ۵۰ کا نوٹ باپ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی: ’’ابا! چاچا کہہ رہا تھا ۵۰؍روپے اپنے باپ کو دے دینا، کل اماں کی قبر پر ۵۰؍روپے کے پھول ڈال دے اور شام دیا بھی جلادے۔‘‘ فضلو نے ۵۰ کا نوٹ تیزی سے پکڑ کر جیب میں رکھ کر کہا: ’’اماں کی قبر پر تو پھول چڑھانے کا وقت نہیں ملا اسے، دیگ پکانے کا وقت مل گیا اسے، جیسے اماں چاول کے لیے تڑپ رہی ہے قبر میں، اس سے بول جاکر اماں سے اچھی تو دیگ ہے۔‘‘
فضلو کے چہرے پر بھی ایک تلخ مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’چاچا کہہ رہا تھا کہ اس کا صاحب چھٹی ہی نہیں دے رہا اسے۔‘‘ زبیدہ نے چاچا کا دفاع کرتے ہوئے کہا ’’دیگ تو اس کے صاحب نے مل کر پکائی ہوگی۔‘‘
دروازہ کھلا، بلال سلام کرتا ہوا اندر داخل ہوا، مگر فضلو نے اسے دیکھ کر سلام کا جواب نہیں دیا بلکہ منہ پھیر لیا۔ وہ ایک نظر تینوں پر ڈال کر اندر والے کمرے کی طرف بڑھ گیا ساتھ ہی زلیخاں بھی اٹھ کر اندر چلی گئی اور بڑے پیار سے کہا: ’’کھانا لاؤں بالے، کھانا کھائے گا؟‘‘ جوتے اتارتے ہوئے بالے نے جواب دیا: ’’نہیں ماں کھانا کھاکر آیا ہوں۔‘‘ زبیدہ چاول کا تھال بالے کے قریب رکھ کر بیٹھ گئی۔ ’’اچھا چائے پئے گا۔‘‘ وہ بغیر جواب ملے چائے بنانے باہر چلی گئی۔
’’بانو نے تیرے لیے چاول بھیجے ہیں، خاص طور پر تیرے لیے۔‘‘ زبیدہ نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’ابھی تو یہ ابا کھا رہا تھا۔‘‘ بالے نے شرارت سے کہا۔
’’پر تیرے لیے خاص طور پر بھیجے ہیں، سب کو تو صرف ایک پلیٹ دی ہے، مجھے تھال بھر کر دیا ہے۔‘‘ بالے نے ہنستے ہوئے کہا: ’’اچھا! کیا بانو کا بیاہ تھا آج!‘‘ زبیدہ نے بھائی کو گھورتے ہوئے کہا: ’’ابا چاچا کا نکاح کرا رہا تھا، تو بانو کا بیاہ کرارہا ہے۔ یہ چاچی رحمت کی برسی کے چاول ہیں۔‘‘ وہ مصنوی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔ اماں نے چائے کی پیالی لاکر بالے کو دے اور اسی کے پاس بیٹھ گئی۔ بالا ماں کے گھٹنے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ زلیخا کافی دیر تک اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی۔ ’’اماں! ابا میرے سے ناراض ہے، دیکھ مجھے دیکھ کر کیسے منہ پھیر لیا۔‘‘ بالے نے لیٹے لیٹے ماں سے پوچھا۔ زلیخا نے آہ بھرے ہوئے کہا:
’’تیرا باپ تو سارے زمانے سے ناراض ہے۔ پر تو فکر نہ کر ایک دو دن میں خود ہی ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ بالا سیدھا ہوکر بیٹھا، پھر اپنی جیب سے نوٹ نکال کر ماں کی جھولی میں ڈالے۔ زلیخا نوٹوں کو ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔ ’’بالے اتنے سارے نوٹ کہا ں سے آئے تیرے پاس؟‘‘ بالے نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’ اماں مجھے ایک کام مل گیا ہے، یہ میرے ایک مہینہ کا حساب ہے۔‘‘
پھر انکساری کے ساتھ ماں سے کہا: ’’اماں تو ابا کو کہہ وہ قبرستان کے باہر نہ بیٹھے بلکہ کہیں بھی کوئی جگہ لے لے، میں سارا انتظام کردوں گا، پھر دیکھ ہمارے دن کیسے پھرتے ہیں۔‘‘ زلیخا نے خوشی و محبت سے بیٹے کو دیکھا اور گلے لگالیا۔ ’’کیا کام ملا ہے تجھے، تو اپنے باپ کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھ جاتا۔‘‘ زلیخا نے مشورے کے انداز میں کہا۔ ’’ہاں اماں تو ٹھیک کہہ رہی ہے، میں ایک دو سال جن کے ساتھ کام کررہا ہوں ان کے ساتھ کام کرو ںگا، کچھ رقم جمع ہوجائے گی تو پھر ابا کے ساتھ اپنی دکان پر بیٹھوں گا، پھر ہمارے پھولوں کو صرف قبروں کی مہر نہیں لگی ہوگی، وہ سب کے لیے ہوں گے۔‘‘ زبیدہ نے بالے کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا: ’’بالے میں ان نوٹوں میں سے ایک ریشمی جوڑا خریدلوں؟‘‘ بالے نے ماں کے ہاتھ سے ایک ۵۰۰ کا نوٹ لے کر زبیدہ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کان میں کہا: ’’بانو کے لیے بھی ایک جوڑا ریشمی لے لینا میری طرف سے۔‘‘ زبیدہ نے گھورتے ہوئے کہا ’’ابھی تو بیاہ کررہا تھا اس کا تو۔‘‘ بالے نے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا: ’’اپنے سے ہی تو کررہا تھا۔‘‘ بالے نے شرارت سے آنکھیں نچاتے ہوئے کہا۔ پھر دونوں ہی ہنس پڑے۔
دوسرے دن فضلو صبح گیا لیکن تھوڑی دیر بعد واپس پلٹ آیا اور ٹوکرا دیوار پر دے مارا۔ وہ سرتا پا غصے سے ابل رہا تھا۔ دوبڑی موٹی گالیاں دیں پھر بولا: ’’نہیں دیا۔ اس ذلیل نے۔ کہہ رہا تھا پرانا قرضہ اتاردو پھر مال ملے گا نیا، جیسے میں شہر چھوڑ کر بھاگ رہا ہوں، یا اپنی قبر کے لیے مزید خرید رہا ہوں۔‘‘ زبیدہ کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کر اندر گئی، واپس لوٹی پھر ڈرتے ڈرتے فضلو سے پوچھا:
’’کتنا قرضہ ہے اس کا پرانا؟‘‘ فضلو نے بھنویں اچکا کر زلیخا کی طرف دیکھ کر کہا : ’’۱۸۰۰ روپئے ہیں۔ جو کل کمالے نے ۵۰ دیے تھے وہ بھی چھین لیے اس خبیث کے بچے نے۔ ‘‘ زلیخا نے ڈرتے ڈرتے نوٹ فضلو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’بالا کہہ رہا تھا کہ ابا سے کہہ دو کوئی دکان خریدلے، میں اور پیسوں کا بھی انتظام کردوں گا۔‘‘ فضلو نے اتنے اطمینان سے زلیخا کی بات سنی کہ اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ ’’بالا کہہ رہا تھا کہ شہر کی بہت بڑی دکان ہوگی ہماری پھولوں کی، میں بیٹھوں گا ابا کے ساتھ۔‘‘ زلیخا مسرت سے بولے چلی جارہی تھی۔
’’تو نے اپنے لاڈلے سے پوچھا نہیں کہ یہ جو دولت برس رہی ہے کہاں سے برس رہی ہے؟‘‘ فضلو نے دھیمے انداز میں کہا۔ زلیخا کو اپنا حلق خشک ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ پھر کچھ سوچ کر بولی: ’’کام مل گیا ہے، نوکری کرتا ہے، یہ اجرت ہے اس کی۔‘‘ ’’کس نے دی ہے اسے نوکری جس کی ایک ماہ کی اتنی تنخواہ ہے۔‘‘
فضلو نے مزید تیکھے انداز میں کہا: ’’نواب کی اولاد ہے ناں… دو سال سے بے کاری کی زندگی گزار رہا تھا، اب وہ صدر بن گیا اس ملک کا، ہے ناں، اسی لیے تو منٹوں میں ہزاروں روپے کما رہا ہے۔‘‘ فضلو نے زلیخا سے نوٹ لے کر زمین پر پٹخ دیے اور بولا: ’’پھینک سے اسے، نہیں چاہیے مجھے اس کی حرام کی کمائی، مت سمیٹ انھیں، یہ نوٹ نہیں قبر کے سانپ ہیں۔‘‘ زلیخا زمین سے نوٹ سمیٹ رہی تھی۔ ’’یہ سانپ ہیں زلیخا، قبر کے سانپ، جلا دے انہیں۔‘‘ زلیخا غصے سے دیکھ کر بولی: ’’یہ میرے بیٹے کی کمائی ہے، اس کی محنت کی کمائی۔‘‘ زلیخا نے نوٹوں کی تہہ بناتے ہوئے فضلو کو دیکھا جو کہہ رہا تھا : ’’جاکر پوچھ اپنے لاڈلے سے، کیا کام کرتا ہے، کونسا پہاڑ توڑتا ہے؟‘‘ باپ کی آواز پر بالا کمرے سے نکل کر سامنے آگیا۔ ’’دو سال نوکری کی تلاش میں پھرتا رہا تو تو جب بھی ناراض تھا، اب کام کرتا ہوں تو بھی ناراض ہے، آخر ابا تو کیا چاہتا ہے مجھ سے؟‘‘ بالے نے بیزاری سے کہا۔
’’مجھے خبر ہے تو کیا کرتا ہے۔ آئی تھی پولیس دو بار تیرا پوچھنے۔‘‘ فضلو کی بات پر زلیخا نے اپنا سینہ پیٹ لیا۔ ’’ہائے میں مرگئی، کیو ںپوچھ رہی تھی پولیس تجھے، کیا کیا ہے تونے بالے؟‘‘
’’اماں کچھ نہیں کیا میں نے، انہیں غلط فہمی ہوگئی ہوگی۔ ‘‘ بالا تلملا کر بولا۔ فضلو نے اسی طرح غصے سے کہا ’’غلط فہمی کابچہ، تیری تصویر لے کر پھر رہی تھی، دیکھ بالے میرے گھر میں جوان لڑکی ہے، تجھے تو کچھ خیال نہیں اپنی ماں بہن کا، مگر میں نہیں چاہتا پولیس تیرا پوچھتے پوچھتے یہاں تک آئے، یا تو تو سدھر جا یا پھر نکل جا اس گھر سے۔‘‘ بالے نے ایک لمبی سانس لے کر قمیص کے بٹن بند کیے، ماں بہن کو دیکھا اور تیزی سے گھر سے باہر نکل گیا۔ زلیخا دیکھتی رہ گئی۔ ’’فضلو تو بہت ظالم ہے، تو نے بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔‘‘
فضلو نے اداسی سے زلیخا کو دیکھا ’’اوپگلی وہ میرا بیٹا نہیں ہے کیا! میں نے تو اس کی بھلائی کے لیے کہا ہے تاکہ وہ اپنا راستہ بدل دے، ہمیں نہیں چاہیے یہ دولت، یہ پیسہ … ہماری قسمت میں تو صرف قبروں کے پھولوں کی کمائی ہے، اس سے زیادہ ہماری قسمت میں کچھ نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر فضلو گھر سے چلا گیا اور اپنے پیچھے زلیخا اور زبیدہ کو حیران چھوڑ گیا۔ انھوں نے فضلو کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا، جس میں باپ کی محبت و شفقت دونوں بہت واضح تھے۔
کئی مہینے اسی طرح گزر گئے۔ بالا باپ کے پیچھے آتا اور ماں کی جھولی بھر جاتا، مگر زلیخا خوف کے مارے فضلو کو کچھ نہ بتاتی، اور فضلو اس بات سے بے خبر کہ گھر میں روپوں سے پیٹی بھری ہے، اپنے کاروبار کا رونا روتا رہتا۔ ’’کوئی مرتا ہی نہیں‘‘ روز ہی یہ جملہ کئی بار دہراتا۔
ایک روز صبح بڑی تیز دستک ہوئی۔ فضـلو ایک ٹوکرا اٹھا کر جانے کی تیاری میں لگا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا ’’آج بھی کوئی مرتا ہے یا نہیں، یا یہ مال پھر گھر لانا پڑے گا۔‘‘ دروازے کی دستک پر فضلو نے دروازے کھولا۔ باہر چار آدمی اپنے کندھے پر چارپائی اٹھائے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ پھر انھوں نے چارپائی صحن میں رکھ دی۔ میت پر چادر ڈالی ہوئی تھی۔ آنے والوں میں سے ایک نے فضلو کے قریب جاکر اسے کندھوں سے پکڑ کر تسلی دی اور نوٹ سرہانے رکھ کر کہا : ’’رات ایک بنگلے میں ڈکیتی کرتے ہوئے بالا پولیس مقابلے میں مارا گیا، دو ساتھی اور مارے گئے، صاحب نے بالا کا حصہ بھیجا ہے۔ بہت ایماندار آدمی ہیں، وہ کبھی کسی کا حصہ نہیں رکھتے۔‘‘ وہ بس بولے جارہا تھا اور وہ تینوں ماں، بیٹی اور فضلو پتھر بنے کھڑے تھے۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں