[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

فضول گوئی سے اجتناب

افتخار احمد بلخیؔ

دین زندگی گزارنے کے طریقے کو کہتے ہیں۔ زندگی کی سرگرمیاں کسی خاص کام اور عمل کے کسی مخصوص دائرے میں محدود نہیں، بلکہ معاشرت و معیشت، سیاست و حکومت، عمران و تمدن، تجارت و ملازمت اور مسجد و مدرسہ وغیرہ سبھی زندگی کے عملی میدان اور زندگی کے مختلف شعبے ہیں۔ زندگی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، بہرحال وہ اپنے لیے ایک عملی نظام، ایک طریقِ کار اور ایک اصول چاہتی ہے اور ان تمام شعبوں میں انسان جو طور طریقہ اختیار کرتا ہے، جن اصولوں پر عمل کرتا ہے، اور اپنی ساری سرگرمیاں جس ضابطہ اور جس نظام کے تحت انجام دیتا ہے، وہ ضابطہ، وہ نظام، وہ طریقہ اور وہ اصول اس کا دین ہے۔
اسلام محض چند عقیدوں اور چند رسموں کا نام نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت ایک دین کی ہے،مکمل دین کی۔زندگی کا، انفرادی ہو یا اجتماعی، ایک مکمل نظام ہے، وہ نظام جو انسان کے خالق و حاکم اور رب نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے انسان کو بتایا ہے اور جس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انسان کی حیثیت اس دنیا میں ایک غیر ذمہ دار یا مختار مطلق مخلوق کی نہیں ہے، بلکہ وہ اس زمین پر خلافت کا منصب عطا کرکے بھیجا گیا ہے۔ اور خلافت کا نام آتے ہی آپ سے آپ یہ بات واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ انسان کو اللہ نے جو کچھ بھی بخشا ہے، وہ انسان کی بے قید ملکیت نہیں ہے۔ اس کے جسم کا ایک ایک عضو، اس کی ظاہری اور باطنی ہر قوت و صلاحیت اور مال و اسباب سب کچھ امانت کے طور پر اسے عطا کیے گئے ہیں اور اس کی حیثیت ’’امینِ متصرف‘‘ کی ہے۔ یعنی ایک محدود دائرے میں رہ کر ایک خاص میعاد تک وہ اللہ کی نعمتوں کو اللہ کی مرضی اور اس کی منشا کے مطابق استعمال کرے، اسی لیے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ہے:
ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسؤلا۔
’’کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں انسان سے سوال کیا جائے گا۔‘‘
مطلب یہ کہ اس نے اللہ کے دیے ہوئے کان سے، اس کی دی ہوئی آنکھوں سے، اس کے عطا کیے ہوئے دل سے، اس کی بخشی ہوئی زبان سے، اس کے دیے ہوئے دماغ سے، اس کے بنائے ہوئے ہاتھوں اور پاوؤں سے کیا کیا کام لیے۔
زبان سے متعلق اسلامی تعلیمات
اس لیے اسلام جس طرح عقائد و اعمال کی اصلاح کی تاکید کرتا ہے، اسی طرح وہ بات چیت اور گفتگو کی اصلاح کے بارے میں بھی خاص طور سے ہدایتیں دیتا ہے۔ اور اس سلسلہ میں بھی وہ یہ تصور دیتا ہے کہ زبان اللہ کی بخشی ہوئی ایک امانت ہے جو انسان کی تحویل میں اس لیے نہیں دی گئی ہے کہ بے قید ہوکر جو منہ میں آئے اور جتنا دل چاہے بولا جائے، بلکہ جو بات بھی زبان سے نکالی جائے پوری ذمہ داری کے ساتھ نکالی جائے اور یہ سمجھ کر گفتگو کی جائے کہ ہر وہ لفظ جو زبان سے ادا ہورہا ہے، پوری طرح ریکارڈ کیا جارہا ہے او ر ایک دن آنے والا ہے، جب زبان سے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کی جواب دہی کرنی ہوگی، چنانچہ سورۂ قٓ میں ارشاد ہوا ہے:
وما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید۔
’’انسان جب بھی کوئی بات زبان سے نکالتا ہے تو ایک نگہبان اسے محفوظ کرلینے کے لیے ہمہ وقت اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔‘‘
اور اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے یہ تاکید فرمائی ہے :
’’من کان یومن باللّٰہ والیوم الآخر فلیقل خیرا او یسکت۔ (صحیح مسلم)
’’جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات بولے ورنہ چپ رہے۔‘‘
اور یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک موقع پر یہ فرمایا :
لیس المومن بالطعان ولا الفاحش ولا البذی۔ (ترمذی)
’’مومن نہ طعنے دینے والا ہوتا ہے اور نہ فحش باتیں کرنے والا اور نہ فضول گوئی کرنے والا۔‘‘
یہاں تک کہ غیر ذمہ دارانہ گفتگو نہ کرنے اور فضول گوئی سے بچنے اور زبان کو قابو میں رکھنے کی شدید تاکید کی خاطر اللہ کے رسول ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:
ہل یکبّ الناس فی النار علی وجوہہم الا حصائد السنتہم۔ (ترمذی)
’’زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی کے سوا انسان کو جہنم میں منہ کے بل گرانے والی چیز اور کیا ہے؟‘‘
یہاں کہا جاسکتا ہے کہ عملی برائی پر بھی تو وعیدیں آئی ہیں کہ وہ انسان کو جہنم کا سزاوار بنادیتی ہیں؟ ٹھیک ہے، لیکن سوچئے کہ ایک مسلمان عملی برائی کرتا کب ہے؟ خدا اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری کا زبان سے اقرار و عہد کرنے کے بعد اس کا مطالبہ پورا نہیں کرتا، اور برائیاں کرتا ہے۔ اس طرح اس نے اپنی زبان کے اس عمل، یعنی خدا کی اطاعت اور اس کے رسول ﷺ کی اتباع کے اقرار و عہد کو رائیگاں کردیا۔
فضول گوئی کے مفاسد
قرآن مجید کی ان آیتوں اور رسول اللہ ﷺ کی ان حدیثوں سے یہ بات پوری طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ انھیں اپنی زبانوں کو نہ صرف یہ کہ برے لفظوں اور فحش جملوں سے بچانا چاہیے بلکہ فضول گوئی سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ بے مقصد او رلاحاصل گفتگو، بے سروپا اور اوٹ پٹانگ باتیں انسان کو بے وزن اور غیر معتبر بنادیتی ہیں اور ایک مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ جو لفظ زبان سے نکالے سوچ سمجھ کر نکالے، پوری ذمہ داری سے نکالے۔ غیر ذمہ دارانہ گفتگو اور فضول گوئی کے سبب انسان کا اعتماد باقی نہیں رہتا اور جب کسی پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے تو پھر عام طور سے نہ اس کے کسی وعدے کا اعتبار کیا جاتا ہے، نہ اس کی کسی خبر کو سچ سمجھا جاتا ہے اور نہ اس کی شہادت معتبر شمار ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ، تہذیب و شائستگی اور وقار و سنجیدگی کی جو تعلیم اسلام دیتا ہے، فضول گوئی ان سب پر پانی پھیر کر رکھ دیتی ہے اور جس طرح مال و دولت میں فضول خرچی یہ ہے کہ بے جا اور بے محل صرف کیا جائے یا جس موقع پر جس قدر ضرورت ہو، اس سے زیادہ خرچ کیا جائے، اسی طرح فضول گوئی دوسرے لفظوں میں زبان کی فضول خرچی ہے جس طرح مال و دولت کی نعمت اللہ نے اس لیے نہیں دی ہے کہ اسے بے جا اڑایا جائے اور ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے اور جو ایسا کرتا ہے، وہ اللہ کی ناپسندیدگی مول لیتا ہے، اسی طرح اللہ نے زبان اس لیے نہیں دی ہے کہ اس قینچی سے بے تحاشا لفظوں کی کترنیں بکھیری جائیں۔ یہ زبان کا بے جا خرچ ہے اور یہ بھی اللہ کو سخت ناپسند ہے۔
پھر فضول گوئی کی عادت اس عہد کو ٹھیس پہنچاتی ہے جو کلمۂ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ذریعہ انسان کرتا ہے، یہ ایک عظیم اور انتہائی اہم عہد ہے جو ایک مسلمان اپنی زبان سے کرتا ہے۔ اس عہد کا مطالبہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر قدم اور ہر مرحلہ پر اللہ ہی کی مرضی سامنے رکھی جائے، اللہ ہی کے حکموں اور اسی کی ہدایتوں کے دائرے میں رہ کر زندگی کی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں، لیکن فضول گوئی ایک طرف تو اس شخص کو اپنے اس عہد کو توڑنے کا مجر م بناتی ہے، کیونکہ وہ یہ عہد کرنے کے باوجود قرآن و حدیث کی مذکورہ تعلیمات وہدایات سے روگردانی کرتا ہے اور دوسری طرف یہ فضول گوئی اس شخص کو لوگوں کی نگاہوں میں مشکوک بنادیتی ہے کہ ایسا شخص جو فضول گوئی کرتا رہتا ہے اور جسے اپنی زبان کی قدروقیمت کا احساس بھی نہیں ہے، وہ بھلا اس کلمہ کی ذمہ داریوں اور مطالبات کا کیا پاس رکھتا ہوگا، اور کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کا اپنی زبان سے یہ کلمہ ادا کرنا، اس کی فضول گوئی ہی کی ایک ترنگ اور اس کے دھارے کی ایک لہر ہو، کیونکہ اگر وہ اس کلمہ طیبہ کے تقاضوں اور اس کے مطالبات سے بے خبر نہیں ہے تو اسے اس حقیقت سے واقف ہونا چاہیے کہ اس سے اس کی ہر صلاحیت، اس کے ہر فکر و عزم، اس کی ہر کارکردگی، اس کو اللہ کے عطا کردہ ہر فضل و خیر کے بارے میں جب قیامت کے دن سوال کیا جائے گا کہ اس نے اللہ کی دی ہوئی ان امانتوں کو کس طور سے اور کن کاموں میں صرف کیا تو زبان کی نعمت کے بارے میں اس کے پاس کیا جواب ہوگا، اگر اس نے اس امانت کو فضول گوئی کے ذریعہ ضائع کردیا۔
لیکن یہ حقیقت افسوسناک اور تلخ ہونے کے باوجود بہرحال ایک حقیقت ہے کہ آج عبادات سے لے کر معاملات تک سے متعلق ہم جس طرح اسلام کی بہت سی تعلیمات سے بیگانے اور لاپرواہ ہوگئے ہیں، اسی طرح زبان کے استعمال سے متعلق اسلامی تعلیمات کو بھی یا تو ہم بھول چکے ہیں یا ان کو بیکار محض سمجھ کر پس پشت ڈال رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سی زبانیں فحش اور ناشائستہ الفاظ استعمال کرنے میں کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتیں اور گفتگو سے متعلق جن شرائط اور آداب و حدود کا لحاظ رکھنے کی اسلام نے شدید تاکیدیں کی ہیں، ان کے سراسر خلاف ایسے الفاظ اور فقرے بلا تکلف بولے جاتے ہیں جنھیں کوئی شریف اور با حیا شخص نقل بھی نہیں کرسکتا۔ گلیوں اور بازاروں میں، نجی محفلوں اور دعوتوں میں، ہوٹلوں اور تفریح گاہوں میں، بسوں اور ریل کے ڈبوں میں، آپ جہاں کہیں جائیں زبان کی کاشت کے ایسے بے شمار نمونے پائیں گے جن پر تہذیب و شرافت شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہے، اور یہ مسموعات شب و روز بچوں اور قوم کے نوخیز نونہالوں کے کانوں میں پڑتے ہیں اور اس راہ سے حلق میں پہنچتے ہیں اور پھر اُن کی زبانوں سے نکلتے ہیں، چنانچہ چند لڑکے جہاں جمع ہوں، وہاں اگر آپ چند منٹ رک کر کان لگائیں گے تو ایسی ’’فرمائشی‘‘ گالیاں اور ایسے فحش کلمات سنیں گے کہ آپ کی پیشانی عرق آلود ہوجائے گی۔ اس طرح یہ شرمناک سرمایہ آنے والی نسلوں کو بھی منتقل کیا جارہا ہے، اور فضول گوئی نے کریلے پر نیم الگ چڑھا رکھا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک و ملت کے پیچیدہ مسائل کے حل کی خاطر غوروفکر اور سعی و کوشش کے بجائے پم اپنے بیش قیمت اوقات کو چرب زبانیوں، کھوکھلے نعروں، اور فضول مجلس آرائیوں اور لغو باتوں کی نذر کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے کہ قومیں باتیں بنانے سے ترقی نہیں کیا کرتیں، بلکہ تعمیری اقدامات، ٹھوس کاموں اور ایجادات و اختراعات سے ترقی کیا کرتی ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں