فطرت سے دوری صحت سے محرومی

سیدعشرت حسین

ہماری نظر، خیال، مشاہدات، تجربات، جستجو، تحقیق اورمطالعے نے ہمیں جس نتیجے پر پہنچایاہے وہ یہ ہے کہ ہماری تمام بیماریاں فطری تقاضوں کے خلاف عمل کرنے،غلط اور غیرضروری غذائیت کے غلط اورغلط وقت پر غلط طریقے سے استعمال کرنے کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ان کی اصل (حقیقی) صلاحیت کو جانے (سمجھے) بغیر استعمال کرتے ہیں یا استعمال نہیں کرتے۔ بلکہ اپنی خواہش (لذت) کے لیے نہ صرف یہ کہ ان کا حلیہ بگاڑدیتے ہیں بلکہ اس غذا کو اپنے لیے مصیبت، پریشانی اور تکلیف کا سبب بھی بنالیتے ہیں۔ ہم ان غذائوں کی فطری غذائیت کو بھی زائل یا ختم کردیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان فطری اشیاء میں جو صلاحیت (غذائیت) اور ہمارے لیے شفا رکھی ہے اس سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔
جدید طرز زندگی نے ہم کو غیرفطری آرام طلبی،کاہلی، سستی، لذت کوشی میں مبتلا کردیاہے اور ہم جدید سے جدید برقی آلات کے بے تحاشہ اور بے دریغ استعمال (جسے ہم نے سہولت کا نام دے رکھاہے) پر خوب رقم خرچ کرکے اپنے جسم کی خواہشات پوری کرنے اور اسے غیرفطری آرام پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے ہیں۔ اور ستم تو یہ ہے ہم اسے اپنی اور اپنے گھر والوں کی آسانی اور ضرورت قرار دے کر خود کو اور دوسروں کو مطمئن کرتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ کہیں کہیں دوسروں کو بھی ان غیرضروری اور غیرفطری آلات (اشیاء) کی خریداری اور استعمال پر اکساتے ہیں، ترغیب دلاتے ہیں۔ اور ایسا نہ کرنے پر انہیں کنجوس، دقیانوس کہنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔
ایسی تمام جدید اشیاء نے ہمیں اپنا عادی ہی نہیں نہیں بنادیا بلکہ اپنے نشہ میں مبتلا کردیا ہے۔ ہمارا جسم باقاعدہ ہم سے یہ تمام سہولیات پرزور اور جارحانہ انداز میں طلب کررہاہوتاہے، اور جہاں یہ سہولیات میسر نہ ہوں وہاں جسم ہمیں اپنے مطالبات کے ساتھ دہشت زدہ، خوف زدہ کرتارہتا ہے۔ رفتہ رفتہ ہم فطری طرز زندگی چھوڑکرمصنوعی یعنی غیرفطری زندگی بسر کرنے لگتے ہیں۔
موجودہ طرز زندگی جدیدیت سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس زندگی میں غیرفطری تیزی بھی آگئی ہے۔ لگتاہے سال مہینوں میں،مہینے ہفتوں میں، ہفتے دنوں میں، دن گھنٹوں میں اور گھنٹے سیکنڈوں میں تبدیل ہونے کا تاثردے رہے ہیں۔ ہر شخص جلدی میں ہے اور ہر وقت تیزی سے گزرتا دکھائی دیتا ہے۔ برق رفتاری میں ہم نے ہر بیماری سے جلد از جلد نجات پانے کے لیے سریع الاثر (جلدی اثر کرنے والی) ادویات کااستعمال بھی شروع کردیا ہے۔
بلاشبہ یہ دوائیں تیزی سے اثر کرنے والی ہوتی ہیں۔ آپریشن کامیاب بھی ہوجاتے ہیں لیکن ان تیزی سے اثر کرنے والی ادویات کی زوداثری کچھ ضمنی اثرات بھی چھوڑجاتی ہے۔ اصل میں وہ اثرات خود کسی نئی بیماری کی ابتدا یعنی شروعات ہوسکتے ہیں۔
بعض بیماریاں بظاہر بہت معمولی نظر آتی ہیں (عام ہونے کی وجہ سے بھی) اور ان کی علامات بھی وقتی ہوتی ہیں جو بعض اوقات علاج نہ کرنے سے بھی غائب ہوجاتی ہیں۔ فرد یہ سمجھتاہے کہ وہ اب ٹھیک ہوگیاہے یا خود بخود ٹھیک ہوگیا ہے،اب کچھ نہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہ جاتے جاتے بھی ’’کچھ نہ کچھ‘‘ اپنے پیچھے چھوڑجاتی ہے جو اگلی بیماریوں کا بیج ہوسکتا ہے۔
کسی سریع الاثر دوا کے استعمال کے ضمنی اثرات اورخود بخود ختم ہوجانے والی بیماری یا کسی اور شے کے غلط استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عناصر جنہیں آپ زہریلے اور فاسد مادے بھی کہہ سکتے ہیں، غیرفطری طریقے سے زندگی گزارنے، غلط غذائیت ، ذائقہ کے لیے مصنوعی طورپر تیار کردہ کھانوں اور اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ زندگی کے معمولات ، ہدایات اور ٹائم ٹیبل کے برخلاف عمل کرنے کے نتیجے میں جنم لیتے ہیں جو ہمارے لیے تکلیف اور بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
ذرا غور کریں، جب ہم اپنے کسی کام کے لیے کوئی آلہ یا مشینری خریدتے ہیں تو اس کے استعمال کے سلسلے میں درج شدہ معلومات (کتابچہ) جس میں اس آلے کا نام، ٹائپ، ماڈل نمبر، سیریل نمبر، کمپنی کا نام، فنکشنز، استعمال کاطریقہ کار، احتیاطی تدابیر و حفاظتی تدابیر، نقائص اور انہیںدور کرنے کی تدابیر اور ان کی احتیاط، مینٹی نینس اور اس کے طریقہ کار یا ٹریننگ یا کمپنی سے رجوع کرنے کی ہدایت یا کمپنی کی جانب سے جاری کردہ ہدایت کی روشنی میں درستی، گارنٹی وغیرہ وغیرہ خوب غور سے پڑھتے ہیں۔ اسی طرح کسی ادارے کے لیے خریدی جانے والی مشینری کے لیے باقاعدہ کنسلٹنٹ سے رجوع کیاجاتا ہے۔ حسب ضرورت مشینری کی مکمل معلومات، قیمت، پائیداری، گارنٹی، کوالٹی، بعد از خرید سروس کی سہولت، پارٹس کی آسانی سے دستیابی، درستی کے آلات اور درست کرنے والے افراد کی آسانی سے موجودگی غرض یہ کہ ہر طرح سے چھان پھٹک کی جاتی ہے۔
یہ تمام باتیں اورکام ہم بخوبی اپنی عام زندگی میں روزمرہ کے معمولات کے تحت کرتے نظر آتے ہیں۔ جتنے قیمتی آلات ہوتے ہیں اتنا ہی ان کا خیال رکھنا ہمارے لیے لازمی قرار پاتا ہے۔اور ہم اسی طرح عمل کرتے بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے جاکر ان احتیاطوں کو اپنے اوپر لازم کرتے ہیں جو ہمیں کمپنی نے بتائی ہوتی ہیں، کیونکہ ہمیں اس آلے یا مشین کے قیمتی ہونے کی بابت بہت اچھی طرح معلوم ہوتا ہے۔
اس آلے یا مشین کو چلانے سے پہلے کی تمام احتیاطی اور حفاظتی تدابیر اختیار کرلینے کے باوجود کمپنی کاایک فرد مشین کی مکمل پڑتال کرتاہے اور پھر اپنے سامنے اسے چلاتا ہے۔ ایک مخصوص عرصہ تک قیام کرنے کے بعد کمپنی کا مقرر کردہ نمائندہ واپس بلالیا جاتاہے۔ اس کے بعد اس نمائندے کی دی ہوئی ٹریننگ اور سروس مینول، ہدایت نامہ کو اپنانا از خود آپ کاکام ہوتا ہے۔
ناتجربہ کرااور غیرتربیت یافتہ کسی فرد کو ہم ایسی قیمتی مشین کو ہاتھ لگانے سے منع ہی نہیں کرتے بلکہ پابندی لگادیتے ہیں چاہے وہ اپنا سگا، اکلوتا، بے انتہا لاڈپیار کے ساتھ پرورش پانے والا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
حیرت، تعجب، افسوس، دکھ، رنج اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم اپنے مینوفیکچرر، بنانے والے ، خالق، مالک اور اس کے بھیجے گئے نمائندے اور اس کی دی ہوئی ہدایات کے مینول (قرآن مجید ، احادیث) پر عمل کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ اسے فرسودہ سمجھنے لگے ہیں۔
ہم اپنے خالق و مالک کے بتائے ہوئے زندگی گزارنے کے قواعد و ضوابط اور سنہری اصول بھلا بیٹھے اور انہیںناقابل استعمال اور نعوذباللہ غیرضروری سمجھنے لگے۔ حالانکہ خالق کائنات نے ہر چیز کھول کھول کر بیان کردی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مزید آسانی سے سمجھانے والے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا جنہوںنے خود عمل کرکے ہماری مزید رہنمائی فرمائی۔ اب ان ہدایات پر عمل کرنا یا کرانا ہمارا کام ہے۔
جو بھی ہدایات پر عمل کرے گا خود بھی فائدہ اٹھائے گا اور دوسروں کے لیے بھی فائدے کا سبب بنے گا۔ جو عمل نہیں کرے گا خود بھی تکلیف اٹھائے گا اور دوسروں کو بھی پریشانی اور مشکل میں ڈالنے کا سبب بنے گا، کہ یہی فطرت ہے اور یہی فطری علاج کی بنیاد بھی ہے۔
ہم جسم کو زہریلے اور فاسد مادوں سے پاک کرنے کے لیے معدہ اور آنتوں کی صفائی پر بہت زور دیتے ہیں۔ یہ زہریلے اور فاسد مادے مصنوعی اور غیر معیاری طورپر تیار کردہ کھانوں اور مختلف قسم کے کھانوں کو ایک وقت میںاپنے معدے میں ٹھونس لینے اور مختلف بیماریوں یا علامات کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اپنے طورپر تجویز کردہ ادویات کے غیرضروری استعمال کے باعث پیداہوتے ہیں۔
جب تک جسم کو ان زہروں اور ری ایکشن کے نتیجے میں پیداہونے والے اثرات سے نجات نہ دلائی جائے، قدرتی (فطری) طریقہ علاج کے حسب توقع نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
فطری علاج ایک ایساطریقۂ علاج ہے جس کامقصد فطرت اور فطری طورپر پائے جانے والے عناصر کو استعمال کرکے مرض کے بنیادی سبب کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک نظام علاج ہے بلکہ طرزِ زندگی بھی ہے جو انسانی جسم کی اندرونی ساخت، قوتوں یا قدرتی (فطری) عناصر سے گہری مطابقت کے ساتھ ساتھ ایک مربوط اور مضبوط نظام کا ایک شاہکارِ عظیم رکھتا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔
بقراط (۴۶۰ تا ۴۵۷ قبل مسیح) جسے بابائے ادویات مانا جاتاہے، اسی طریقے سے علاج پر زور دیتا تھا۔
فطرت میں پائی جانے والی اشیاء مثلاً مٹی، ہوا، پانی، آگ اور دھوپ کو کس طرح علاج معالجے کا ذریعہ بنایاجاسکتا ہے؟ قدیم سندھ کے علاقہ موہنجوداڑو میں دریافت ہونے والے بڑے بڑے حمام اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس وقت کے لوگ پانی کو جسمانی تکالیف دور کرنے اور اندرونی قوتوں کو نئے سر سے بحال کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال کرتے تھے۔
مرض دراصل جسم کی خلاف معمول حالت کا نام ہے، جو کہ فطری قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے وقوع پزیر ہوتی ہے۔ اگر ان فطری قوانین سے انحراف نہ کیاجائے تو جسم کی حالت بالکل نارمل ہوتی ہے اور پھر مرض پیدا نہیں ہوتا۔ ان فطری قوانین کی خلاف ورزی انسانی جسم اور اس کے فطری نظام کو ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ اس میں بگاڑ کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ پُرسکون دریا میں پھینکاجانے والا بظاہر بہت معمولی سا پتھر بھی اپنی طاقت کے مطابق پانی کی سطح میں ناہمواری (ارتعاش) پیداکردیتا ہے، یہ اثر کم یا زیادہ، دریا کے سکون کو بے سکون کردینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح اشیاء کی خاصیت، طاقت اور اثر ان کی مقدار میں پوشیدہ ہے۔ فطری اشیاء کااستعمال آپ کو بے زار نہیں کرتا اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا عادی نہیں بنایا۔ اس کی فطرت کے مطابق اس کو موسم دیے، موسم کے مطابق اس کو ثمرات عطا کیے۔
فطری قوانین کو توڑنے کے بعد یہ اثرات جسمانی ساخت کے فطری نظام میں خلل ڈالتے ہوئے ظاہری یا باطنی اشکال میں ظاہر ہوتے ہیں مثلاً قوت میں کمی، خون اور دیگر رطوبتوں میں بے قاعدگی، غیر ضروری، فالتو اور زہریلے مادوں کاجمع ہوجانا… اسی طرح ناقص اور غیرفطری انداز میں کھائی جانے والی غذا نہ صرف ہاضمے کے نظام کو بگاڑتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے اثرات کے نتیجے میں اور بھی کئی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جن سے انسانی جسم کے دوسرے اعضا متاثر ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کا اپنا نظام بھی بگڑ جاتاہے اور جب یہ بگاڑ ایک تسلسل کے ساتھ ہوتارہتاہے تو نازک اور حساس ترین اعضا اپناحقیقی کام چھوڑکر آنے والی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تگ و دو میں، مشقت کے ساتھ ساتھ ان بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر یعنی دشمنوں سے جنگ کرنے میں لگ جاتے ہیں، اور اس جنگ میں جسم کے اندر ہی موجود سپاہی ان کی مدد کے لیے شامل ہوکر ان دشمنوں سے جنگ شروع کردیتے ہیں۔ یہ مدافعتی نظام خودکار طریقہ سے کام شروع کردیتا ہے۔
اس جنگ میں دیگراعضاء مثلاً انتڑیوں، گردوں،جلد، پھیپھڑوں کو بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ اعضا ء ان نقصان دہ مادوں (دشمنوں) کو اس تیزی سے خارج نہیں کرپاتے جس تیزی سے یہ پیدا ہورہے ہوتے ہیں۔ اس سے انسان کے ذہن، جذبات اور احساسات میں جو خلل واقع ہوتا ہے وہ اس کے ’’وائٹل الیکٹرک فیلڈ‘‘ (بنیادی برقی دائرہ) میں عدم توازن پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ یہی برقی (مقناطیسی) فیلڈ ہے جس کے اندر خلیاتی کیمیائی عمل وقوع پزیر ہوتا ہے۔
اس الیکٹرک (برقی مقناطیسی) فیلڈ کا عدم توازن زہریلے مادوں کو جنم دیتاہے۔ اگر اس برقی فیلڈ میں عدم توازن پیدا نہ ہوں تو بیماریوں کا باعث بننے والے جراثیم اس کے اندر خود تو زندہ رہ سکتے ہیں مگر ان میں اضافہ نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی وہ زہریلے مادوں کو جنم دے سکتے ہیں۔ جب عدم توازن پیداہوجائے یا جب خون زہریلے ، فاضل، فاسد مادوں سے آلودہ ہوجائے تو جراثیم میں اضافہ شروع ہوجاتاہے۔ اس سے وہ ضرر رساں بن جاتے ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146