[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

فطری سادہ طرزِ زندگی

حکیم راحت نسیم

ہم اکیسویں صدی میں جن مسائل کے ساتھ داخل ہوئے ہیں، ان میں اہم ترین مسئلہ صحت کا ہے۔ بیسویں صدی میں سائنس کی انتہائی ترقی کے باوجود اور انٹی بائیوٹک ادویہ (جراثیم کش) ٹیکوں کے بکثرت استعمال سے بھی امراض کی یلغار بڑھی ہے جس کی وجہ سے ملیریا اور تپ دق کے جراثیم نئی طاقت سے لوٹ آئے ہیں۔گزشتہ تین چار عشروں میں ذبابیطس، ہائی بلڈ پریشر، فالج، گٹھیا، جوڑوں کا درد، امراضِ قلب،امراض جگر جن میںہیپاٹائٹس شامل ہیں، میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی ترقی کے باوجود امراض کیوں بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین طب و صحت اور عالمی ادارہ صحت (WHO) زور دے رہا ہے کہ ادویہ کا بے جا استعمال نہ کیا جائے۔ معمولی امراض میں زیادہ طاقت والی ادویہ خطرناک ہوتی ہیں اور جہاں تک ممکن ہو غذائی علاج کو اہمیت دی جائے۔ جدید ادویہ کا بہت شہرہ ہے مگر کوئی دوا ایسی نہیں ہے جس کے سائیڈ ایفیکٹ (مابعد اثرات) نہ ہوں۔ ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ ڈاکٹروں کی اکثریت اینٹی بائیوٹک ادویہ اور وہ بھی بہت زیادہ طاقت والی پانی کی طرح استعمال کررہی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ غیر مؤثر ہورہی ہیں اور جراثیم ان سے نمو پانے لگتے ہیں۔ دانتوں کے امراض کا سبب میٹھی گولیاں کولڈڈرنکس (مشروبات یہود)، سونف، سپاری، اور پان ہیں۔ جن سے دانتوں کے امراض میں شدت سے اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین طرزِ حیات، غذائی علاج اور ماحول پر متوجہ ہیں اور فطرت کی طرف لوٹ کر ایک طب متبادل و محفوظ کی تشکیل کے لیے مصروف عمل ہیں۔ مغرب میں ادویہ کے استعمال کا رجحان بہت کم ہوا ہے اور غذائی علاج کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ صحت کا عالمی ادارہ بھی روایتی طب کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ چند سال قبل تک نباتات کو آؤٹ آف ڈیٹ قرار دینے والے آج نباتات سے علاج کے قائل ہوچکے ہیں اور طبِ مشرق کا فطری طریقِ علاج (نباتاتی علاج) دوبارہ واپس آگیا ہے۔ کیونکہ یہ جدید میڈیکل سائنس کے مقابلے میں بہت کم مضر اور مابعد اثرات سے پاک ہے۔ عالمی ادارہ صحت بھی نباتات کے اجزاء مؤثرہ کو الگ کرنے کے بجائے ان کو سالم استعمال کرنے کی سفارش کررہا ہے۔ یورپ میں ہزاروں ایکڑ رقبے پر جڑی بوٹیوں کی کاشت ہورہی ہے۔

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ طرزِ زندگی غذائی عادات، صحت و صفائی اور ورزش کا بہت اہم کردار ہے۔ روایتی طور پر ہم امراضِ قلب، شریانوں کے امراض، ذیابیطس اور موروثی امراض کو ایک زمرے میں شمار کرتے ہیں کیونکہ یہ اپنے اثرات کے اعتبار سے صحت و توانائی کے آخر میں ہوتے ہیں۔ صحت کے لیے اچھی عادات، سادہ غذا، ورزش اور فطری طریقِ علاج کو زبردست اہمیت حاصل ہے۔ اس طرح چند غور طلب باتیں پیشِ نظر ہیں۔

طرزِ حیات

طرزِ حیات کا صحت سے بہت تعلق ہے۔ اس کو فطرت سے قریب تر رکھنے کے لیے اچھی عادات کو اپنانا ہوگا۔ رات کو جلد سوجائیں اور صبح جلد بیدار ہوں۔ نیند سے بیدار ہوکر لمبے لمبے سانس لیں۔ پھر غسل کریں اور موسم کے مطابق کپڑے استعمال کریں۔ تازہ پانی پی کر اور دانت صاف کرکے نمازِ فجر ادا کریں۔ رفع حاجت کریں تاکہ معدہ خالی ہوجائے۔ شام کو فارغ اوقات میں کوئی مشغلہ اختیار کریں۔ کوئی کھیل کھیلیں یا باغبانی کریں، کسی سماجی یا دینی سرگرمی میں حصہ لیں اور سیر کومعمولی بنائیں۔ فرصت میں اچھی کتب، سیرت رسول اللہ ﷺ وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

غذا

غذا ہمیشہ تازہ، زود ہضم اور وقت پر لیں۔ غذا کا وقت مقرر کرنے سے بہت سے جسمانی فوائدحاصل ہوتے ہیں۔ غذا بھاری مرغن نہ ہو بلکہ متوازن اجزاء پروٹین، حیاتین اور معدنیات پر مشتمل ہو۔ سادہ غذاؤں کے استعمال سے حملہ قلب کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اگر موسم پر ناشپاتی، بہی، سیب، آم، امرود، موسمیاں، کینو اور بیر رغبت کے ساتھ کھائیں تو حملۂ قلب کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح موسم گرما میں تربوز، فالسہ وغیرہ کھانے سے موسم کی سختی کے باوجود حملہ قلب کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ تحفظ کیروٹیسٹائڈز مرکبات فراہم کرتے ہیں۔ یہ مرکبات پھلوں کے علاوہ سبزیوں میں بھی ہوتے ہیں۔ یہ مرکبات مانع تکسید تاثیر کے باعث شریانوں کو کولیسٹرول (ایل ڈی ایل) سے محفوظ رکھتے ہیں اور خلیات کی حفاظت کرتے ہیں۔ آج کل ناشتہ میں عموماً سلائس اور چائے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ اس کے بجائے دودھ، دلیہ، دہی، سادہ روٹی، دہی یا کوئی موسمی پھل لیا جائے۔ اس طرح دوپہر کو روٹی سالن او رکسی موسمی پھل کے ساتھ سلاد، جس میں ٹماٹر، کھیرا، ہرا دھنیا، پودینہ اور چقندر یا مولی کا استعمال مفید ہے۔ رات کو گوشت میں کوئی موسمی سبزی ملا کر یا چھلکے والی دال کھائی جائے۔ غذا ہمیشہ چباچبا کر کھائیں تاکہ منہ کا لعاب مل کر جلد قابل ہضم ہو۔ آٹا ہمیشہ چوکر (بھوسی) کے ساتھ کھایا جائے۔ پانی، کھانے سے گھنٹہ بھر قبل پئیں، البتہ ضرورت سے کھانے کے درمیان پانی کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔موسمی پھل، سبزیاں اور دالیں ہمیشہ چھلکے دار کھائیں۔ ان کا ریشہ جسے کچھ عرصہ قبل پھوک خیال کیا جاتاتھا کہ اس سے توانائی حاصل نہیں ہوتی اور پھلوں کا جوس پیا جانے لگا مگر تحقیقات کے مطابق ریشہ (فائبر) بہت مفید ہے۔ طب مشرق میں اسے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس سے نظامِ ہضم کے خامرات (انزائم) متاثر نہیں ہوتے۔ ریشہ ملین (قبض کشا) اور آنتوں کے امراض میں مفید ہے۔ وزن نہیں بڑھنے دیتا کیونکہ اس میں حراروں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ دل کے امراض میں مفید ہے۔ نیز ذیابیطس میں مفید ہے۔ کیونکہ اس سے خون میں شک کی سطح اتنی نہیں بڑھتی۔ آج کل شام کو چائے بسکٹ کا رواج عام ہوگیا ہے۔ لوگ چائے کے ساتھ پکوڑے، سموسے اور پیسٹری وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ اس کی جگہ سلاد کھائیں۔ جدیدتحقیقات نے بھی چینی کو مضر قرار دیا ہے۔ سلاد فائدہ مند ہے۔ زیادہ پروٹین اور نمک کا استعمال کم کریں۔ مرچ مصالحہ سے احتیاط برتیں۔ بسیار خوری سے پرہیز کریں۔ چائے، کافی اور تمباکو نوشی کم کریں۔ ایک تحقیق کے مطابق چار قسم کے معروف کینسر وں کا سبب یعنی پھیپھڑے، پراسٹیٹ گلینڈ، معدہ اور سینے کا سبب کھانے پینے میں عدم احتیاط ہے۔ کھانے میں چوکر والا آٹا، تھوڑے چاول، زیادہ سے زیادہ دالیں اور سبزیاں و پھل کھائیں۔ لال گوشت سے پرہیز کریں۔ اس کا استعمال ضرورت یا حدِ اعتدال کے اندر کریں۔ یہی راہِ فطرت ہے اور فطرت میں ہی انسان کے لیے عاقبت ہے۔

ورزش

ورزش صحت کی چابی ہے۔ اس کے بغیر جسمانی صلاحیتیں توانائی نہیں پاتیں۔ ورزش سے مراد ویٹ لفٹنگ ہی نہیں بلکہ چہل قدمی بھی میسر ہو تو مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ یہ ہر فرد کی صحت اور حیثیت کے مطابق ہونی چاہیے۔ جوگنگ، تیراکی، سائیکلنگ بھی ہوسکتی ہے۔ ورزش سے کولیسٹرول نہیں بڑھتا۔ شریانوں کو صحیح رکھنے کے لیے سیر بہترین ہے۔ اس سے جسم کی تمام بافتوں میں لچک پیدا ہوتی ہے۔ عضلات کو طاقت ملتی ہے۔ جوڑوں کی سختی کم ہوتی ہے۔ ورزش یا سیر سے پسینہ آتا ہے۔ جس سے جسم سے زہریلے مادے خارج ہوتے ہیں۔ اگر پسینہ نہ آئے تو یہ مادے جسم میں جمع ہوکر امراض کا سبب بنتے ہیں۔ ورزش یا سیر دماغی کام والوں کے لیے صحت کادرجہ رکھتی ہے۔ ڈیپریشن، ذہنی تناؤ، اعصابی دباؤ سے نجات دلاتی ہے۔ اور خود اعتمادی پیدا کرتی ہے۔ جسم میں توانائی پیدا ہوتی ہے۔ دورانِ خون تیز ہوتا ہے۔ طبیعت فرحت بخش ہوتی ہے اور کام کے لیے چستی آتی ہے۔

نباتاتی علاج

معمولی امراض میں بے جا ادویہ کا استعمال نہ کریں۔ صدیوں سے آزمودہ نباتاتی تدبیروں کو معالج کے مشورہ سے بروئے کار لائیں۔ نباتاتی علاج دائرہ فطرت میں رہنے کا امتیاز رکھتا ہے۔ انسان نے جب زمین پر پہلا قدم رکھا تو قدرت نے اس کی غذا و دوا کے لیے نباتات کا ہی اہتمام کیا تھا۔ مدتوں انسان نے غذا و دوا کے لیے انہیں ہی استعمال میں رکھا اور امراض سے ایک حد تک محفوظ رہا۔ جدید تالیفی ادویہ کے مسائل آپ کے سامنے ہیں۔ اس لیے غذائی دواؤں سے علاج کو اہمیت دیں۔ یہی عالمی فکر ہے اور عالمی ادارہ صحت بھی نباتاتی علاج کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ اور مغرب والے تو اب لوٹ کر نباتات کی طرف آرہے ہیں۔ نباتاتی علاج دنیا کا قدیم اور فطری طریقِ علاج ہے۔ ہزاروں سال قبل بیان کیے گئے فوائد اب تک کوئی چیلنج نہیں کرسکا۔ نباتات سے علاج کی بنیاد فطری اصولوں پر ہے۔ فطرت کبھی غلط نہیں ہوسکتی۔ فطرت نے ہی انسان کو پروان چڑھایا۔ فطرت نے ہی نباتات کو پروان چڑھایا۔ نباتات میں پائے جانے والے اجزا اس قدر متوازن ہیں کہ حالتِ مرض میں انسان کی غیر متوازن کیفیت کو بحال کردیتے ہیں۔ فطرت کے اصول توازن پر کائنات کا نظام قائم ہے۔ اس طرح جسم انسانی ہو یا کوئی اور شے یہ بھی توازن پر قائم ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں