دین کے کچھ احکام منصوص ہیں، یعنی ان کا ذکر قرآن مجید اور صحیح احادیث میں صراحت سے اور تاکیدی اسلوب میں کیا گیا ہے۔
حجاب کا حکم انہی منصوص احکام میں سےایک ہے۔ اس حکم کا واضح ہونا اتنا ظاہر ہے کہ اس کی تفصیل بھی قرآن میں بتا دی گئی ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں…‘‘(الاحزاب:59)
اور دوسری جگہ فرمایا گیا ہے: ’’اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے دوپٹوں کو اپنے سینوں پرڈال لیا کریں۔….‘‘ (النور:31)
جو احکام منصوص ہیں ان میں پوری امت میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ تمام مسلمان ان کو مانتے ہیں، چاہے ایمان کی کم زوری اور نفس کے غلبے کی وجہ سے ان پر عمل پیرانہ ہوں۔
حجاب بھی قرآن کا منصوص و مفصل حکم ہے، جس کی عملی تفصیل خود قرآن میں موجود ہے اور حجاب کرنے کی شکلیں تک بتائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ احادیث اور عہدِ نبوت کے عملی معاملات اور واقعات میں اس کی مزید تفصیلات ملتی ہیں، جن سے اس حکم کی فرضیت و اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس کی عملی تطبیق بھی نظر آتی ہے۔
جو احکام منصوص نہیں ہیں اور ان کا فقہاء نے استنباط کیا ہے، ان میں بسا اوقات ان کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلافات حق اور باطل یا صحیح اور غلط کی نوعیت کے نہیں ہیں، بلکہ ان کی حیثیت صرف افضل اور غیر افضل یا بہتر اور کم تر کی ہوسکتی ہے۔اس کی مثال کے طور پر ہم سود، جسے قرآنی اصطلاح میں ’ربا‘ کہا گیا ہے، کو لے سکتے ہیں۔ اسلام نے اس وقت کی رائج تمام سود کی شکلوں کو اصولاً حرام قرار دیا ہے۔ اور ان کا حرام ہونا واضح ہے۔ مگر موجودہ نظامِ مالیات میں بعض نئی چیزیں رائج ہیں جو اس وقت موجود نہیں تھیں۔ اب علماء اور فقہاء و ماہرینِ معاشیات نے ان کو اس زمانے کی چیزوں پر قیاس کرکے ان کے جواز اور عدمِ جواز پر اجتہاد کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ کس ضمن میںآتی ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ اس وقت کی معیشت اور مالیاتی نظام آج کے دور کی طرح منظم و منضبط نہ تھا اور نہ تجارت و لین دین کے ذرائع آج کی طرح ’ترقی یافتہ‘ اور عالمی سطح کے تھے۔ اس لیے ان کا جائزہ اور ان کے سلسلے میں اجتہاد و قیاس لازمی ہے، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت یا لاعلمی کے سبب ہم سود کی کسی شکل میں ملوث ہوجائیں۔
اس تفصیل کی روشنی میں حجاب کے مسئلے کو بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے یا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حجاب کے سلسلے میں مسلم علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض حجاب کو ضروری قرار دیتے ہیں، جب کہ دوسرے علماء اس کو اختیاری اور غیر لازمی سمجھتے ہیں۔ اس لیے دونوں آراء میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی اسلام کے تصورِ حجاب کو صحیح طریقے سے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ حجاب کے کچھ احکام قطعی اور صریح ہیں،جیسا کہ مضمون کے شروع میں ہم نے بیان کیا۔ ان کی فرضیت پر پوری امت کا اتفاق ہے، ان میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، جب کہ اس کی صرف ایک شق پر علماء کے درمیان اختلاف ہے اور یہ اختلاف جزوی ہے۔ اس اختلاف کو اسی حد تک رکھنا چاہیے اور اس کی آڑ میں پورے مسئلۂ حجاب کو اختلافی کہہ کر غیر لازمی اور اختیاری قرار دینا درست نہیں ہے۔
اسلام ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ سماج تشکیل دینا چاہتا ہے۔ سماج کی پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے مسلمان مردوں اور عورتوں کے درمیان بے قید اور غیر اخلاقی اختلاط کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ وہ مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط کے برے اور غیر اخلاقی اثرات سے محفوظ رکھنے اور اچھی معاشرت قائم کرنے کے لیے انھیں اپنے جسم کے ان تمام حصوں کو چھپانے کا حکم دیتا ہے جن میں صنفی کشش پائی جاتی ہے۔ اس نے مردوں اور عورتوں، دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور نظر کے فتنے سے محفوظ رہیں۔ (النور: ۳۰-۳۱) دوسروں کے گھروں میں اجازت لے کر داخل ہوں۔ (النور:۲۷) اس نے خاص طور پرعورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلیں تو اپنے اوپر چادر کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ (الاحزاب:۵۹) تاکہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔ ان کی چال ایسی ہو کہ پازیب کی جھنکار دوسروں کو ان کی طرف متوجہ نہ کرے۔ (النور: ۳۱) وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کا آنچل ڈالے رہیں۔ (النور:۳۱) وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، سوائے اس کے جو خود ظاہر ہوجائے۔ (النور: ۳۱) قرآن مجید کے ان احکام پر تمام مسلم علماء کا اتفاق ہے۔ ان میں سے کسی جز پر بھی ان کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ سب مسلمان ان احکام کو لازمی اور واجبی سمجھتے ہیں، خواہ ان پر عمل کے سلسلے میں وہ کوتاہ ہوں۔
حجاب کے سلسلے میں ان احکام قرآنی میں سے صرف ایک جزئیہ پر مسلم علماء کے درمیان اختلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کے حکم ’عورتیں اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، سوائے اس کے جو خود بہ خود ظاہر ہوجائے‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ اختلاف صحابہ و تابعین کے زمانے میں بھی تھا، جو آج تک چلا آرہا ہے۔ عہدِ نبوی میں حجاب کے عملی نفاذ کی شکلوں کو دیکھ کر یہ بات بھی واضح ہے کہ اس زمانے میں لوگ دونوں صورتوں پر عمل پیرا تھے اور کوئی کسی کو اس پر نکیر نہیں کرتا تھا۔ بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد ہاتھ (کلائیوں تک) اور چہرہ ہے کہ اسے چھپانا ضروری نہیںاور بعض کے نزدیک اس سے مراد ظاہری کپڑے ہیں کہ ان کا چھپانا ممکن نہیں، ان کے نزدیک مسلمان عورت کا اجنبی مردوں سے اپنا ہاتھ اور چہرہ چھپانا بھی ضروری ہے۔
چہرہ کیوںکہ مرکزِ کشش تصور کیا جاتا ہے اس لیے بعض لوگ اسے چھپانے پر اصرار کرتے ہیں۔ ان کا یہ اصرار ’سدِّ ذریعہ‘ کے طور پر ہے۔ اور اگر ایسا مطلب لیا جائے اور چہرے اور ہاتھ کو بھی چھپانے کا التزام ہو تو اس میں حرج کی کوئی بات نہیں۔ لیکن چہرے کو چھپانے ہی کو پردہ تصور کرنا اور اس کی دوسری شکلوں کو بے پردگی تصور کرنا بھی درست نہیں ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ حجاب کو ایک اختلافی مسئلہ بنا کر پیش کرنا درست نہیں۔ حجاب کے بارے میں قرآن مجید میں جتنے احکام ہیں، سب پر پوری امت کا اتفاق ہے، صرف چہرہ اور ہاتھ کے بارے میں دو رائیں ہیں، ان میں سے کسی پر عمل کیا جا سکتا ہے، لیکن حجاب کے بارے میں باقی تمام احکام قرآنی لازمی اور غیر اختیاری ہیں، جنھیں اختلافی مسئلہ قرار دے کر حجاب کے بنیادی اور اصولی حکم ’’لا یبدین زیتھن‘‘ اور ’’یدنین علیھن من جلابیبھن‘‘ اور ’’ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن‘‘ کے اصولی حکم کی خلاف ورزی کم از کم گناہ کا ذریعہ تو ہے ہی۔ اور اگر اس پر کوئی اصرار کرتا ہے تو یہ اللہ کے دیے گئے حکم سے سرتابی ہے۔ اسے اپنے آخرت کے انجام کی فکر کرنی چاہیے۔
ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ حجاب کا حکم صرف ازواج ِ مطہّرات کے ساتھ خاص تھا۔ چوں کہ انہیں سماج میںبلند قدر و منزلت حاصل تھی اورانہیں امّہات المومنین کا درجہ دیا گیا تھا، اس لیے انہیں گھر میں ٹِک کر رہنے کا حکم دیا گیا تھا اوربے حجابانہ چلت پھرت کی انہیںاجازت نہیں تھی۔ ایسی کوئی پابندی عام مسلمان خواتین کے لیے نہیں تھی۔ یہ بات درست نہیں ہے ۔ حجاب کے احکام تمام مسلم خواتین کے لیے تھے،چاہے وہ ازواج ِ مطہرات ہوں یا عام صحابیات۔سورۂ احزاب کی آیات سے اس کی بہ خوبی وضاحت ہوجاتی ہے۔اس سورت میںازواج ِ مطہرات سے خطاب کا آغازآیت نمبر ۲۸ سے ہوتا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ تمہارا مقام عام عورتوں سے بلند ہے۔ تم کوئی بُرا کام کرو گی تو دُہری سزا ملے گی اورکوئی اچھا کام کرو گی تو دُہرا اجر ملے گا۔(آیت۳۰،۳۱)
اس کے بعد انہیں سماجی زندگی کے بارے میں کچھ ہدایتیں کی گئی ہیں۔ مثلاًان سے کہا گیا کہ تم اپنی آواز میں لوچ پیدا نہ کرو کہ دل کا کوئی مریض تم سے غلط امیدیں وابستہ کرلے۔(آیت ۳۲)
ان سے کہا گیا کہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو اور جاہلیت جیسی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔(آیت ۳۳)اہل ِ ایمان کو حکم دیا گیا کہ وہ نبیﷺ کے گھروں کے اندر اسی وقت جائیں جب انہیں داخلہ کی اجازت ملے اور وہاں بلا ضرورت دیر تک نہ بیٹھیں۔مزید کہا گیا کہ اگر انہیں نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پڑے تو پردے کی اوٹ سے مانگیں۔ اس سے دونوں کے دلوں کو پاکیزگی حاصل ہوگی۔ (آیت ۵۳)
یہ تمام باتیں یوں تو ازواج ِ مطہّرات کو مخاطب کرکے اور ان کے بارے میں کہی گئی ہیں ،لیکن یہ ان کے ساتھ خاص نہیں ہیں ، اس لیے کہ ان جیسی باتیں قرآن مجید ہی میں دوسرے مقامات پر عام مسلمان خواتین کے بارے میں بھی کہی گئی ہیں اور احادیث میں بھی عمومی انداز میں ان کی تاکید کی گئی ہے، لیکن اگر انہیں ازواج مطہّرات کے ساتھ خاص مانا جائے تو بھی اگلی آیت(نمبر۵۹) حجاب کے عمومی حکم کے بارے میں صریح ہے کہ اس میں نبی سے کہا گیا ہے کہ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ (گھر سے باہر نکلتے وقت) اپنے اوپر ’جلابیب‘(یعنی لمبی چادروں کے پلّو) لٹکا لیا کریں۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاب کا حکم امہات المومنین کے ساتھ خاص نہیں ، بلکہ تمام اہل ایمان عورتوں کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔