س: میں اپنی زندگی میں کئی ایسی مشکلات سے دو چار ہوئی کہ زندہ رہنا ناپسند کرنے لگی اور جب بھی اکتاہٹ ہوتی ہے اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ جلد از جلد میرا خاتمہ کردے، اور ہنوز یہی میری تمنا ہے، کیوں کہ میری نظر میں ان مصیبتوں کا حل صرف موت ہے اور موت ہی اب اس تکلیف سے مجھے نجات دلا سکتی ہے، تو کیا اس صورت حال میں میرے لیے موت کی تمنا کرنا حرام ہے؟ (ا-ب)
ج: کسی مصیبت میں مبتلا ہونے پر موت کی تمنا کرنا جائز نہیں، کیوں کہ رسول اللہﷺ نے اس سے منع کیا ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص کسی مصیبت کی وجہ سے جو اسے پہنچے، موت کی تمنا نہ کرے، اور اگر اس کو تمنا کرنا ضروری ہی ہوجائے تو چاہیے کہ یوں دعا کرے:
’’یعنی اے اللہ! جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب موت میرے لیے بہتر ہو تو مجھے موت دے دے۔‘‘
لہٰذا کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی مصیبت، تنگی یا پریشانی کے وقت موت کی تمنا کرے بلکہ اس پر واجب ہے کہ صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اجر و ثواب کی نیت کرے اور اس سے فراخی اور آسانی کی امید رکھے کیوں کہ نبیﷺ نے فرمایا:
’’یقین جانو کہ مدد اور کامیابی صبر کے ساتھ ہے اور فراخی و آسانی دکھ درد کے ساتھ ہے اور مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
کسی بھی مصیبت سے دو چا رہونے والے کو سمجھنا چاہیے کہ یہ تکالیف اس سے سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہیں، کیوں کہ مسلمان کو جو بھی رنج و غم اور تکلیف لاحق ہوتی ہے حتی کہ کانٹا چبھنے پر بھی اللہ اس کے صلے میں اس کو معاف کر دیتا ہے، نیز صبر کرنے والوں کا وہ بلند درجہ پالیتا ہے، جس کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے:
’’ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دو جو مصیبت پڑنے کے وقت بول اٹھتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘
آپ کا یہ خیال کہ میری مشکلات کا حل موت کے سوا کچھ نہیں، میری نظر میں ایک غلط خیال ہے، کیوں کہ موت سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ اس کے مصائب میں اضافہ ہوسکتا ہے، چناں چہ بہت سے لوگ مشکلات اور تکالیف میں مبتلا ہوکر مر گئے لیکن افسوس کہ وہ اپنے نفس پر زیادتی کرنے والے تھے۔ اپنے گناہوں پر پشیمان نہ ہوسکے اور نہ ہی اللہ کی بارگاہ میں ان کو توبہ کرنے کی توفیق ہوئی، اور اس طرح موت سے ان کی سزا و عذاب میں جلدی ہوئی، اگر وہ زندہ ہوتے اور اللہ بھی انہیں توبہ، استغفار، صبر و تحمل اور فراغت و آسانی کے انتظار کی توفیق دیتا تو اس کے اندر ان کے حق میں خیر کثیر ہوتا۔
لہٰذا تم پر واجب ہے کہ تم صبر کرو اور اجر و ثواب کی امید رکھو اور اللہ کی طرف سے فراخی اور آسانی کا انتظار کرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (الم نشرح:۵،۶)
اور ایک صحیح حدیث کے اندر نبیﷺ نے فرمایا:
’’یقین جانو کہ مدد اور کامیابی صبر کے ساتھ ہے اور فراخی اور آسانی دکھ کے ساتھ ہے اور مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (شیخ ابن عثیمین)
نماز کی حالت میں دروازہ کی گھنٹی
س: اگر عورت گھر میں نماز پڑھ رہی ہو اور درازے کی گھنٹی بجے اور گھر میں کوئی نہ ہو تو وہ کیا کرے؟
ج: اگر نفل نماز ہو تو اس میں گنجائش ہے، اس کو توڑنے اور درازہ کھٹکھٹانے والے کو جاننے اور معلوم کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر فرض نماز ہو تو جلد بازی نہیں کرنی چاہیے الا یہ کہ کوئی بڑی اہم چیز در پیش ہو جس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو، اور اگر مرد سبحان اللہ پڑھ کر اور عورت تالی بجا کر آگاہ کرسکے تاکہ دروازہ کے پاس آنے والے کو معلوم ہوجائے کہ گھر کے اندر موجود شخص نماز پڑھنے میں مشغول ہے تو یہ کافی ہے جیسا کہ نبیؐ نے فرمایا:
’’جس کو نماز میں کچھ پیش آجائے تو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔‘‘
اور اگر سبحان اللہ پڑھ کر کھٹکھٹانے اور دستک دینے والے کو یہ بتا دینا ممکن ہو کہ آدمی (صاحب خانہ) نماز میں ہے یا عورت تالی بجا کر آگاہ کرسکے تو کرے، اور اگر دوری یا اس کے نہ سننے کی وجہ سے اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو ضرورت کے تحت نماز توڑنے میں کوئی حرج نہیں، خاص کر جب نفل نماز ہو، لیکن اگر فرض نماز ہو اور یہ اندیشہ ہو کہ کسی بڑے اہم کام کے لیے کھٹکھٹا رہا ہے تو فرض نماز کو بھی توڑنے میں کوئی حرج نہیں، پھر وہ نماز بعد میں ازسرنو پڑھ لے، والحمد للہ۔
تہجد میں قرآن دیکھ کر پڑھنا
س: کیا نماز تہجد میں قرآن میں دیکھ کر پڑھنا جائز ہے، قرآن مجھے تھوڑا یاد ہے اور نماز تہجد میں قرآن ختم کرنے کی میری خواہش ہے؟
ج: اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عائشہؓ کے آزاد کردہ غلام ذکوان رمضان میں قرآن سے دیکھ کر نماز پڑھاتے تھے، جیسا کہ امام بخاری نے اپنی صحیح کے اندر اس کو ذکر کیا ہے، اور یہ بہت سے اہل علم کا قول ہے، اس سے روکنے والے کے پاس کوئی معتبر دلیل نہیں، اور اس لیے بھی کہ ہر آدمی قرآن حفظ نہیں کرسکتا اور جس کو قرآن زبانی یاد نہ ہو اسے نماز وغیرہ خاص کر رات کو تہجد اور رمضان میں تراویح میں قرآن سے دیکھ کر پڑھنے کی سخت ضرورت ہے۔ و باللہ التوفیق۔lll