فنون اسلامی نقطہ نظر سے عاری ہوچکے ہیں

ترجمہ: تنویر عالم فلاحی

میرا نام حلا احمد ذوالفقار عبدالحمید شیحا ہے۔ میرے والد احمد شیحا پروڈیوسر ہیں۔ میری دو بہنیں ہیں ایک مایا اور دوسری رشا۔

٭ اللہ کا شکر ہے کہ میں اور بہن مایا باپردہ رہنے لگی ہیں، اور مشکلات اور تکالیف کے باوجود دونوں اپنی تمام تر کوششوں کے ذریعے اللہ عزوجل کی طرف دعوت دینے کا کام کرتی ہیں۔

٭ پردہ اختیار کرنے کے بعد میری بعض دوستوں اور اہلِ خاندان اور دیگر لوگوں کی جانب سے سخت مخالفت ہوئی۔ انسان کو جس چیز کا علم نہیں ہوتا اس کی مخالفت کرتا ہے اور شیطان انسان کو ہمیشہ فقر ومحتاجی کا خوف دلاتا رہتا ہے۔ وہ انسان کو ڈراتا ہے اور اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ انسان کو اطاعت وفرماں برداری کے راستے سے روک دے۔ انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے علم اور توکل علی اللہ کے ذریعے شیطان کے ان راستوں کو کاٹ دے کیونکہ ایک عالم شیطان کے لیے ہزار عابدوں سے زیادہ خطرناک اور نقصان پہنچانے والا ہے۔

٭ ہدایت ربانی جب انسان کے دل کو چھوتی ہے تو اس کے ضعف کو ختم کردیتی ہے، اسے خوف سے محفوظ کردیتی ہے اور اس کی گھبراہٹ کو اطمینان و سکون میں بدل دیتی ہے۔ اور اس پر اول و آخر اللہ کا فضل رہتا ہے۔ ’’تمہیں جو بھی نعمت حاصل ہوتی ہے وہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے اور جو بھی نقصان تمہیں ہوتا ہے تو تم اللہ ہی کی پناہ لیتے ہو۔‘‘ (النحل: ۵۳)

٭ یہ لوگ جو ایک مخصوص مرض اور مخصوص نفسیاتی حالات کے تحت حجاب کے خلاف بازیاں لگا رہے ہیں، بہت بڑی غلطی کررہے ہیں۔ کاش یہ لوگ اپنے دعوے میں سچے ہوتے۔ کیوں کہ انسان مشکلات اور مصائب میں ہمیشہ اللہ کی ہی پناہ لیتا ہے، یہاں تک کہ کافر کو بھی کہیں اور جائے پناہ نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تو تم کہاں جارہے ہو؟‘‘ (التکویر: ۲۶) چنانچہ جب وہ اللہ کی چادر رحمت اور اس کی کرم و نوازش کا مشاہدہ کرتا ہے تو اسے اس اللہ سے بھاگنے میں شرم محسوس ہوتی ہے جس نے اسے مشکلات سے نجات دی اور سکون و عافیت میں بھی اس کو یاد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ جب یہ بات ہے تو لوگ اللہ کی طرف پلٹنے کے ساتھ مصائب اور ان نفسیاتی اور مریضانہ صورتِ حال کو کیوں جوڑ دیتے ہیں؟ جب کہ سکون و عافیت میں اللہ کی طرف پلٹنا شکر ہے اور مصیبت کے وقت اس کو یاد کرنا ’’ذکر‘‘ ہے۔ اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں اور اسے یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ۔ (البقرۃ: ۱۵۲)

’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، اور میرا شکر ادا کرو اور ناشکری نہ کرو۔‘‘

٭ کسی انسان کو اگر ہدایت کی توفیق مل جائے یا کوئی عورت، خواہ وہ ادا کارہ ہو یا نہ ہو، مشہور ہویا کوئی غیر معروف، اگر باپردہ زندگی گزارنے لگے تو سوالات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے؟ یہ سب کون اور کیوں کروارہا ہے؟ گویا وہ عورت کسی غیر فطری راستے پر چل پڑی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان اللہ کا تابع اور مطیع ہے اور یہ چہ میگوئیاں اور سوالات اس شخص کو گھیرے رہتے ہیں جو اللہ کانافرمان ہو۔

٭ میں بلا تردد عرض کروں کہ میرے بہت سے بھائیوں اور بہنوں نے مجھے اس راہ پر چلنے میں مدد فراہم کی اور اس پر ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیا۔ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے معاملات کو آسان کرنے اور شرح صدر کا ذریعہ بنایا۔ ان احباب کے سلسلے میں یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اللہ کو ان کے نام اور ان کا خلوص معلوم ہے۔ اس کے یہاں ان کو ان کا اجر اور اچھا بدلہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔

٭ حق و صداقت پر مبنی ایمان تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آنے کا ذریعہ ہے۔ تاہم بعض لوگ جو فلمی دنیا اور اس کی رونقوں میں غرق ہیں وہ حجاب کو نعوذ باللہ روشنی سے تاریکی میں لے جانے کا سبب سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک بے حجابی روشنی اور نور سے عبارت ہے اور حجاب تاریکی کا نام ہے۔ یہ لوگ پردے کی دنیا کو حدود اور قیود سے گھرا ہوا تصور کرتے ہیں، جس میں زندگی جیل کی طرح تنگ اور جبر کے چنگل میں ہوتی ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید تصور کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کے ساتھ جہالت اور عدم واقفیت کا عذر بھی کارفرما ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ اسلام کے کسی بھی فریضے کو حکم خداوندی کی اطاعت سے بعید سمجھیں گے تو وہ فریضہ آپ کو بہت کٹھن اور بھاری لگے گا لیکن اگر آپ ہر تکلیف اور پریشانی کو یہ تصور کریں کہ وہ اللہ کی اطاعت کے راستے میں آرہی ہے تو پھر معاملہ آسان ہوجاتا ہے اور تکلیف بھی معمولی ہوجاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان اور اس کا ہر عمل اللہ کی ملکیت ہے۔ وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور مارتا ہے، وہی موت کے بعد ہمیں اٹھائے گا اور ہمارا محاسبہ کرے گا۔ بعض خواتین اگرچہ حجاب کے فیصلے پر بالکل مطمئن ہوجاتی ہیں لیکن بعض خواتین کو یہ بہت مشکل لگتا ہے، خاص طور سے اس سلسلے کا پہلا قدم اٹھانا بہت مشکل لگتا ہے۔ اس لیے میں اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ، اپنے لیے اور اپنی بہنوں کے لیے صبرو ثبات کی دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفس اور خواہشات پر غلبہ عطا فرمائے اور شیطان اور اس کی کوششوں پر غلبہ عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ دعا سننے اور قبول کرنے والا ہے۔

رزق اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے

٭ رزق کے چلے جانے کا اندیشہ لوگوں پر خوف کی حد تک طاری ہوجاتا ہے، کیونکہ بعض لوگ یہ تصور کرنے لگتے ہیں کہ ان کا فن یا جو کام وہ کررہے ہیں صرف وہی ایک ذریعہ رزق ہے۔ وہ یہ بات گویا بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رزق دینے والا اور بڑی قوت والا ہے۔

٭ میں بین الاقوامی اسٹار، تیراکی کی چمپئن بہن ’’دانیا علوانی‘‘ سے محبت کرتی ہوں۔ میرے حجاب میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ لیکن میں یہ چاہتی ہوں کہ ان کو اللہ کے ہاں عظیم اجر ملے۔یہ بہت اچھی خاتون ہیں جو اپنے دین کا بہت واضح اور روشن فہم و شعور رکھتی ہیں۔

٭ حجاب زیب تن کرنے کے بعد معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ مجھ پر میرے قریب ترین لوگوں نے بھی جنون اور پاگل پن کا الزام لگایا۔ انھوں نے کہا کہ میرا حجاب کا فیصلہ صرف ایک پاگل پن ہے۔ لیکن الحمدللہ، اس نے مجھے ثابت قدم رکھا ، اسی طرح میرے شوہر ہانی عادل کو بھی اللہ نے ثابت قدمی عطا فرمائی۔

٭ اگر کوئی داعی خاتون، یا معروف خاتون یا کوئی اداکارہ جس نے باپردہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیا ہو، کسی کو حجاب اور پردے کی زندگی کے لیے قائل کرلیتی ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ کیا یہ کوئی جرم ہے؟ اور وہ بھی اس درجے کا کہ یہ سوالات کھڑے ہونے لگتے ہیں کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، اس کو کون شہ دے رہا ہے؟ اور چھوٹے الزامات کی بارش کرنے لگتے ہیں۔

٭ حجاب اختیار کرنا سراسر اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ انسان صحیح بات کی طرف واپس آجائے۔ باپردہ زندگی اختیار کرنا انسان کا اول آخر ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔ سعادت مند وہ ہے جو اپنے نفس پر غالب آجائے کیونکہ اطاعت و فرماں برداری جبر و اکراہ یا بہکاوے سے ممکن نہیں ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو خود اپنا فیصلہ لیتا ہے اور خود اپنی راہ متعین کرتا ہے۔

٭ فن و اداکاری کی رونق اور شہرت انسان کے لیے مہلک ہیں۔ اسی طرح زندگی میں انسان کے مقصد کا غلط شعور بھی مہلک ہے۔ انسان کے اندر زندگی کے مقاصد کا فقدان اس کی زندگی کو بڑی گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔

٭ فنون اور اداکاری کے میدان میں اسلامی نقطۂ نظر عنقا ہوگیا ہے۔ اور اگر ہے بھی تو وہ اس سے زیادہ نہیں کہ کتابوں کے اوراق پر لکھا ہوا ہے یا لوگوں کے ذہن میں اس کا تصور محفوظ ہے۔ عملی طور پر لوگوں کی نظروں میں ان اسلامی افکار اور نقطہ نظر کو لانا ضروری ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146