کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ ہر روز کتنی مقدار میں لوہا کھاتے ہیں، تو شائد آپ اس پر ہنسنے لگیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ آپ روزانہ بذریعہ غذا فولاد کھاتے ہیں جو لوہے کی غذائی صورت ہے۔ اگر آپ کی غذاؤں میں اس کا وجود نہیں تو آپ یقینا بیماری کو دعوت دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک انسان کے جسم میں اتنا فولاد ہوتا ہے جس سے دو انچ لمبی ایک کیل تیار ہوجائے۔ جسم انسانی میں فولاد کی موجودگی ضروری ہے ورنہ اس کی کمی آپ کو بیمار و ناتواں بنا کر دنیا سے کوچ بھی کرواسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک عام انسان کو روزانہ فولاد کی ۱۵ ملی گرام خوراک درکار ہوتی ہے تاہم خواتین کو اس کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ انہیں اپنا حیضی چکر متوازن رکھنے کے لیے مردوں سے زیادہ فولاد چاہیے ورنہ وہ خون کی کمی (اینیمیا) کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ اسی طرح حمل کے زمانے میں بھی انہیں زیادہ فولاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کی کمی سے حاملہ میں عجیب چیزیں مثلاً مٹی، برف، مکئی وغیرہ کھانے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ حمل کے دوران بچہ اپنی ماں سے لوہے کی خاصی مقدار حاصل کرتا ہے۔ اسے یہ پروا نہیں ہوتی کہ ماں کے پاس اضافی مقدار ہے یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ دوران حمل خواتین کو ایسی غذائیں باافراط کھانا چاہیے جن میں فولاد ہو، ورنہ وہ انتہائی کمزور ہوسکتی ہیں۔ یاد رہے کہ کسی بھی بچے کو پیدائش کے وقت ایک نوجوان کی نسبت تین گنا زیادہ لوہا درکار ہوتا ہے۔
صحت کے لیے فولاد کی ضرورت
فولاد ان معدن میں سے ایک ہے جو جسم انسانی میں ملتے ہیں۔ جسم انسانی پر ہی کیا موقوف یہ دوسرے حیوانات و نباتات میں بھی پایا جاتا ہے۔ پھلوں، ترکاریوں اور ساگ پات میں اس کا وجود ہے۔ انسان میں یہ زندگی رواں دواں رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔ وہ اس طرح کہ ہمارے خون کا پینتالیس فیصد حصہ خون کے سرخ خلیوں پر مشتمل ہے، جو ’ہیموگلوبن‘ سے بنتے ہیں۔ یہ مرکب فولاد اور پروٹین مل کر بناتے ہیں۔ یہی خون کو سرخ رنگ دیتا ہے اوراسے آکسیجن پہنچاتا ہے۔ خون دیکھنے میں بظاہر یکساں معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس کی باریک بینی سے جانچ کی جائے، تو ایک صحت مند بالغ فرد کے ایک سو ملی لیٹر خون میں ۱۵ گرام ہیموگلوبن ہوتا ہے جبکہ ہیمو گلوبن کے ہر گرام میں تقریبا ۳۰۵ ملی گرام فولاد ہوتا ہے۔
ایک بالغ فرد کے جسم میں ۴ سے ۵ گرام تک فولاد جمع رہتا ہے اور اس کا ساٹھ سے ستر فیصد ہیمو گلوبن میں موجود ہوتا ہے۔ یہ جگر، تلی اور ہڈیوں کے گودے میں بھی ہوتا ہے اور یہاں اس کا تناسب ۳۰ سے ۳۵ فیصد ہے۔ فولاد کی کچھ مقدار پٹھوں میں مائع حالت میں ہوتی ہے۔
جسم میں فولاد جذب ہونے کے بڑے مقامات معدہ اور چھوٹی آنت کا بالائی حصہ ہے۔ جب جسم میں فولاد کی کمی ہوجائے، تو اس کے جذب ہونے کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح جب جسم کو خون بڑھانے کی ضرورت ہو تب بھی فولاد کا انجذاب بڑھ جاتا ہے۔ یہ بسا اوقات غذا سے پورا نہیں ہوپاتا، تو دوائیاں کھانی پڑتی ہیں۔
فولاد جسم میں جگر، تلی، اور انتڑیوں کی بلغمی جھلی میں ذخیرہ ہوتا ہے۔ ان سے خارج ہونے والا فولاد، ہیموگلوبن کی تشکیل میں حصہ لیتا ہے۔ عام طور پر فولاد ضائع نہیں ہوتا بلکہ بار بار استعمال ہوتا رہتا ہے۔
اس کا اخراج صفراء، پاخانے، جلد کی اترتی ہوئی باریک تہوں اور پسینے کے ذریعہ ہوتا ہے۔ ماہرین اسی لیے مشورہ دیتے ہیں کہ موسم گرما میں فولاد سے بھر پور غذائیں کھائی جائیں تاکہ پسینے سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔
افادیت
فولاد بقائے زندگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ ہیموگلوبن کی پیداوارکے لیے بھی ناگزیر ہے۔ چنانچہ فولاد خون کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ پورے جسم میں آکسیجن پہنچاسکے اور بافتوں میں سے زہریلی گیس، کاربن ڈائی آکسائڈ نکال باہر کرے۔
مائیوگلوبن جسم انسانی سے آکسیجن لے جانے والی پروٹین ہے جو فولاد پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ پٹھوں کی بافتوں میں ہیموگلوبن کے ساتھ کارکردگی بہتر بنانے کے لیے کام کرتی ہے۔ مزید براں فولاد دباؤ اور بیماریوں کے خلاف جسم میں مزاحمت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس سے نشو و نما میں اضافہ ہوتا اور تھکاوٹ سے تحفظ ملتا ہے۔ فولاد خون کو سرخ اور دماغ کو چست بناتاہے۔ بہ الفاظ دیگر ہماری جسمانی قوت کا بہت کچھ انحصار فولاد پر ہے۔
کمی کی علامات
جسم میں فولاد کی کمی کی بڑی وجوہ میں خون کا زیادہ بہہ جانا، ناقص غذائیت، بیماری، ادویات یا کیمیائی مادوں کا زیادہ استعمال ہے۔ خون کے ضیاع کا باعث زخم، خون کی نالی کا کٹ جانا، اسقاط حمل اور کثرت حیض وغیرہ ہوسکتا ہے۔ رضاعی مدت کے دوران بھی خواتین میں فولاد کی کمی ہوسکتی ہے۔
انسان میں فولاد کی کمی ہوجائے، تو خون کی کمی کا مرض جنم لیتا ہے۔ اس کے مریض میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت میں کمی، عام کمزوری، رنگ زرد ہونا، ذرا سے کام کاج سے سانس پھول جانا اور زندگی کی رنگینیوں سے عدم دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے۔ مریض ذہنی دباؤ اور چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔
انسانی جسم میں فولاد کا کام خون کے بے رنگ رقیق مادے میں سرخ ذرات اتنی تعداد میں پیدا کرنا ہے کہ وہ خوبصورت سرخ رنگ اختیار کرجائے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص میں فولاد کم ہو، اس کے جسم میں سرخ ذرات کی تعداد نمایاں طور پر کم ہوجاتی ہے۔ خون کا رنگ پھیکا پڑنے کے باعث اس پر زردی چھا جاتی ہے، وہ خود کو تھکا تھکا محسوس کرتا ہے، آنکھوں کے گرد حلقے گہرے ہوجاتے ہیں اور وہ زندگی سے بیزار ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایسی کیفیت کے اسباب مختلف ہوں لیکن سب سے بڑا سبب یہی ہے یعنی اس میں اچھے اور صالح خون کی کمی ہے۔
کسی وجہ سے خون بہت زیادہ بہہ جائے تو جسم پیلا اور ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ ساتھ ساتھ بے تحاشہ پسینہ آتا ہے۔ مریض نڈھال ہوجاتا ہے اور اسے سانس لینے میں مشکل پیش آتی ہے۔ دماغ سن ہونے کے باعث آخر مریض بیہوش ہوجاتا ہے۔ اگر ایسے مریض کو خون یا فوری طبی امداد نہ دی جائے تو موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
فولاد کا عمدہ غذائی ذریعہ سالم اناج، دالیں، پھلیاں، مچھلی، گڑ، اخروٹ، مونگ پھلی، بادام، گیہوں کا نشاستہ اور سبز ترکاریاں ہیں۔ بہترین نباتاتی ذریعہ پتوں والی سبزیاں، کنول کے خشک ڈنٹھل، پھول گوبھی اور شلغم کے پتے ہیں جبکہ پھولوں میں کالا انگور (منقہ) ، تربوز، کشمش اور چھوہارے ہیں۔ اگر مونگ پھلی سے تیار شدہ مٹھائیوں میں چینی کی جگہ گڑ استعمال کیا جائے تو اس سے فولاد اور تانبے کی مقدار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ روٹی بھی ایسے اناج کی کھانی چاہیے جس میں بھوسی چوکر موجود ہو۔
پھلوں میں زیادہ فولاد نہیں ہوتا لیکن جتنا بھی ہو وہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ براہ راست خون میں شامل ہوجاتا ہے۔ آم، امردو، کھجور، انجیر، لیموں، آلو بخارا، چیکو اور ناشپاتی میں فولاد پایا جاتا ہے۔ فولاد کے حصول کے لیے سب سے زیادہ اعتماد بادام پر کیا جاسکتا ہے۔گڑ، املی اور گاجر میں موجود فولاد بھی آسانی سے جز خون بنتا ہے۔ سویابین میں بھی فولاد بکثرت ہوتا ہے۔
وہ غذائیں جو ہمارے ہاں زیادہ مستعمل ہیں ، ان میں کلیجی بھی شامل ہے۔ اس میں بھی سرخ ذرات پیدا کرنے کی کافی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کے بعد ترتیب سے گردے، بادام اور انڈے آتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ غذا میں موجود سارے کا سارا فولاد خون میں شامل نہیں ہوتا۔ ہاضمے کے بعد اس کا صرف نصف حصہ بچتا ہے جو خون میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس لیے اگر فولاد خون اور ہڈیوں کے گودے تک نہ پہنچے، تب بھی غذا میں کثرت کے ساتھ ہونے کے باوجود کمی فولاد کی شکایت پیدا ہوسکتی ہے۔ اسی لیے غذا میں فولاد کی موجودگی اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنا اس کا خون میں جذب ہونا۔
معدے میں فولاد کے انجذاب کے لیے خامروں (انزائم) اور ہائیڈروکلورک ایسڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بڑی عمر کے لوگ فولاد سے بھر پور غذائیں کھانے کے باوجود انیمیا کا شکار رہتے ہیں۔ وجہ یہ کہ ان کے معدے میں ہائیڈروکلورک ایسڈ کی مناسب مقدار نہیں ہوتی۔ اسی لیے انہیں چاہیے کہ فولاد رکھنے والے ایسے پھل زیادہ کھائیں جن میں ہاضمے کے عناصر اور تیزاب بھی موجود ہوں۔
شفا بخش اثر
فولاد سے بھر پور غذاؤں کا باقاعدہ استعمال اور اعضائے ہضم کو صحت مند رکھنا ہی فولاد کی کمی سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے۔ خون کی کمی دیگر امراض بھی پیدا کرتی ہے لیکن فولاد کی کمی سے ہونے والے انیمیا کو فولاد کی زیادہ مقدار کھاکر قابو کیا جاسکتا ہے۔ اس کا حصول غذا اور دوا، دونوں طرح سے ممکن ہے۔ایک بات یہ بھی معلوم رہے کہ ایک بالغ مرد کے لیے روزانہ ۱۵ ملی گرام اور بالغ عورت کے لیے تقریباً ۱۷ ملی گرام فولاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ حاملہ خواتین کو یومیہ بیس ملی گرام فولاد درکار ہوتا ہے۔
آخر میں بتاتے چلیں کہ جسم انسانی میں فولاد کی کثرت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے لہٰذا اعتدال کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور خصوصاً وہ ادویہ دیکھ بھال کر استعمال کریں جن میں فولاد موجود ہوتا ہے۔