مستشرقین ان مغربی عالموں کو کہتے ہیں جو علوم مشرقیہ حاصل کریں، حقیقتاً مستشرقین کا مقصد علوم مشرقیہ کے حصول سے علم حاصل کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسلام کے نقائص کو ابھارا جائے اور اس کو توڑ مروڑ کر غلط انداز میں پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کی غلط تصویر آئے۔
چنانچہ یورپ میں عربی زبان کی تعلیم اور دوسری مشرقی زبانوں کی تعلیم پر جو توجہ دی گئی وہ کسی علم کے لیے نہیں تھی بلکہ اس سے کلیسا اور اس کی سرپرستی میں یورپی اداروں کی حکمت عملی یہ تھی کہ مسلمانوں کو عقیدہ سے عیسائی بنادیا جائے تاکہ یہ مستشرقین عربی زبان سیکھ کر قرآن و حدیث میں نقائص بیان کریں اور اسلامی عقائد میں غلط افکار کو شامل کریں۔
استشراق فکری جنگ کی ایک قسم ہے، جب یورپ ہتھیاروں کی جنگ سے مایوس ہوگیا کہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو شکست نہیں دی جاسکتی کیونکہ ان میں ایمانی جوش و جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ اسلام کی خاطر اپنی جانوں کو قربان کرنے کا عزم کرلیتے ہیں اور اس کی وجہ سے مغرب کو شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ چنانچہ اپنی فتح سے مایوس ہوکر مغربی مفکرین، شہنشاہوں اور ارباب کلیسا نے یہ تجویز رکھی کہ مسلمانوں کے افکار کو بدل دیا جائے، ان کو مغربی تہذیب کا دلدادہ بنادیا جائے اور ان کو اسلامی تہذیب سے دور کر دیا جائے تبھی ان کو شکست دی جاسکتی ہے۔
چنانچہ قدیس لویس جو کہ فرانس کا بادشاہ تھا اور صلیبی حملوں کا قائد تھا، پہلا یورپی شخص ہے جس نے بار بار شکست کھانے کے بعد فکری جنگ کی طرف منتقل ہونے کی وصیت کی تھی۔ اس نے یہ وصیت کی کہ ہم تجربہ کرچکے ہیں کہ جب ہم حملہ کرتے ہیں تو مسلمانوں میں جذبہ ایمانی بھڑک اٹھتاہے جس کی وجہ سے وہ فتح یاب ہوجاتے ہیں۔ اس نے لکھا کہ ہمیں ان جذبات کے سوتوں کو خشک کرنا پڑے گا۔ مگر اس وصیت پر عمل نہیں ہوسکا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ۱۲۵۲ء کا واقعہ ہے۔ لیکن اس کے بعد جب پادری کو اس وصیت کی طرف متوجہ کیا گیا تو تبشیری مدارس قائم کیے گئے جہاں باقاعدہ اسلامی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ پھر ان مبشرین کو اسلامی ملکوں میں بھیجا جاتا تھا جو مسلمانوں میں فکری فساد پھیلانے کا کام انجام دیتے تھے۔
جہاں تک اندلس میں استشراق کی ابتدا کا تعلق ہے تو وہاں ۷ ہجری میں جب کہ صلیبیوں کا مسلمانوں پر حملہ سخت ہوچکا تھا استشراق کی ابتدا ہوئی کہ اس وقت قشتار کے بادشاہ (میثیل سکوت) نے مسلمانوں کے علوم اور ان کی تہذیب کے سلسلے میں بحث و مباحثہ کی دعوت دی اور پھر کلیساؤں کے بعض پادریوں کو جمع کیا اور بعض عربی کتابوں کے انگریزی زبان میں ترجمے کرانے شروع کیے اور دوسری طرف طلیطلہ کے پوپ (ریمون لول) نے ترجمہ کے سلسلہ میں بڑی سرگرمی دکھائی جس کے نتیجے میں یورپ کی یونیورسٹیوں میں متعدد عربی کتابیں پڑھائی جانے لگیں۔
اس کے جو نتائج سامنے آئے وہ مغربی مفکرین کے لیے ہمت افزاء تھے۔ چنانچہ مغربی مفکرین کہتے ہیں کہ اس کے جو نتائج ہمارے سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے وہ نتائج برآمد ہوئے ہیں جو ہمارے آباء و اجداد بڑی بڑی جنگوں سے بھی برآمد نہیں کرسکے۔ ہم نے مسلمانوں کے ایمانی جذبہ کو ختم کردیا۔ ان کے اندر سے جہاد کی روح نکال دی، ان کو خرافات کا عادی بنادیا۔
اگر آج ہم اس کے نتائج پر نظر ڈالیں تو ہمیں پوری دنیا مغربی تہذیب میں مکمل طور پر غرق نظر آئے گی۔ اور یہی مفکرین کا مقصد بھی تھا کہ مسلمان اپنی اسلامی تہذیب اور اپنی خصوصیات اور اپنے مذہب سے متوحش ہو جائیں اور ان کے ذہن ملحدانہ ہوجائیں۔
ان لوگوں نے جو ابتدائی نصاب تیار کیا وہ اس طرح تیار کیا کہ اس کے پڑھنے سے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت پیدا ہو اور اسلام کی غلط تصویر ذہن میں پیدا ہو۔ مثلاً بچوں کے نصاب میں چوری کرتے ہوئے مسلمان کو دکھایا اور بھلائی کرتے ہوئے یا چور کو پکڑتے ہوئے عیسائی کو دکھایا جیسے زید چور ہے، جوزف نیک ہے، جس کی وجہ سے بچہ کی غلط تصویر پیدا ہوجاتی ہے اور وہ مسلمانوں کو قابل نفرت انسان سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے کی اکثریت اپنے بچوں کو انہی مشینری اسکولوں میں تعلیم دلوارہی ہے جہاں شرک کی تعلیم دی جاتی ہے، جہاں ہر بچہ پر لازم ہے کہ وہ صلیب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اور دوزانو ہوکر بیٹھے اور دعا کرے، کیا یہ شرک نہیں ہے؟ اور گھر میں ان بچوں کی اسلامی تعلیم کا انتظام بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کو اسلامی تاریخ بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط تصورات و خیالات پیدا ہوتے رہتے ہیں، جس کا توڑ نہیں ہوپاتا اور بعد میں یہی خیالات و تصورات اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں اس میں ان بچوں کا قصور کم، ان کے والدین کا قصور زیادہ ہے جو اسلامی اسکول اور مدارس کے ہوتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو لادینیت والحاد کے عمیق غاروں میں ڈھکیل رہے ہیں جو ان کے لیے موجب سوال ہے۔