قرآن مجیدمیں سب سے زیادہ زور خدا کی ہستی، اس کی توحید اور عقیدۂ آخرت پر دیاگیا ہے، عقیدۂ رسالت دونوں کڑیوں کو باہم ملاتا ہے۔ اسلام کے تینوں عقیدوں میں عقلی ربط ہے، خدا کو ماننے کا عقلی تقاضا ہے کہ خدا کی تعلیم و ہدایت کو مانا جائے اور خدا اور خدا کی تعلیم وہدایت ماننے کاتقاضا یہ ہے کہ آخرت، دنیاوی زندگی کے اعمال کے حساب وکتاب اور ان کی جزا و سزا کو مانا جائے ، اگر آخرت کو اس طرح نہ ماناجائے تو اللہ ورسول کے ماننے کاکوئی حاصل نہیںہوسکتا، اللہ ورسول کو مانتے ہوئے بھی انسان اللہ ورسول کی اطاعت کیوں کرے گا؟ وہ اپنی مصلحت ، خواہش اور پسند کے مطابق زندگی گزارے گا اور نتیجے میں اپنے نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا، اور یہ زندگی انسانی زندگی نہیں۔ حیوانی زندگی بن کر رہ جائے گی، عقیدۂ آخرت اخروی زندگی ہی کی فلاح ونجات کاذریعہ نہیں ہے۔ دنیاوی زندگی کی فلاح و سعادت کابھی ذریعہ ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو ہر طرح کی بداعمالی اور بداخلاقی سے بچاتا ہے۔‘
منکرین آخرت کو قرآن مجید میں مختلف عنوانوں اور مختلف اسلوبوں میں بتایاگیا ہے کہ آخرت میں ان کے لیے کیسی کیسی خرابیاں ہیں۔ یہ بھی بتایاگیا ہے کہ آج تو وہ آخرت کاانکار کررہے ہیں لیکن جب قیامت کے روز ان کے انکار کے نتائج سامنے آئیںگے تو وہ پچھتائیںگے اور آرزو کریںگے کہ ان کو دنیامیں لوٹا دیاجائے تو نیکی کے کام کریںگے لیکن ان کا وہ پچھتانا اور آرزو کرنا ان کے لیے مفید نہ ہوگا۔ آواگمن کے ماننے والے کہتے ہیں کہ اسلام کے عقیدۂ آخرت سے ہمارا آواگمن کا عقیدہ زیادہ اچھا ہے، اس عقیدے کی روسے انسان کو باربار اصلاحِ حال کا موقع ملتاہے،لیکن ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے، انسان کو سنبھلنے اور اپنی حالت کو درست کرنے کا موقع دینے میں قرآن مجید نے کوئی کمی نہیں کی ہے۔ اس نے منکرین آخرت کواتنے طریقوں اور اتنی صورتوں سے سمجھایاہے کہ سمجھانے کاپورا پورا حق ادا کردیا ہے۔ آخرت میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کانقشہ اس طرح کھینچ دیاہے کہ وہ واقعہ بن کر سامنے آجاتاہے ، جو لوگ حقیقی معنی میں آخرت پر یقین ر کھتے تھے وہ اس سے اس طرح ڈرتے تھے گویا وہ سب کچھ ان کا آنکھوں دیکھا ہوا ہے۔ آوا گمن کے عقیدے کی رو سے انسان کو اس کے اعمال کے مطابق حیوان کا، پرند کا، کیڑے مکوڑے کا اور نباتات کاجنم ملتا ہے۔ مگر اس کو یہ نہیں بتایا جاتاکہ اس نے پچھلے جنم میں کون سی بداعمالیاں کی تھیں جن کی سزا میں وہ گرفتار ہے، حیوان، پرند، کیڑوں مکوڑوں اور نباتات میں اتنی عقل بھی نہیں ہوتی کہ وہ قیاس ہی سے یہ سمجھ سکیں کہ ان سے پچھلے جنم میں بداعمالیاں ہوئی ہیں، اور نہ انسان ہی کو اس کی خبر ہوتی ہے کہ وہ پچھلے جنم میں کیاتھا، پھر کسی جنم میں بھی اس پر آواگمن کے عقیدے کا کیا اثر ہوسکتا ہے؟ اور وہ کیا اصلاحِ حال کرسکتا ہے۔ اگر آواگمن کے عقیدے سے اصلاحِ حال ممکن ہوتی تو تمام انسان نیک بن گئے ہوتے، بُرائیاں دنیا سے مٹ گئی ہوتیں، آواگمن کی رو سے خود انسانی زندگی بھی گناہ کانتیجہ اور قید خانہ کی زندگی ہے، جو انسان گناہوں سے پاس ہوجاتاہے اس کو آواگمن یعنی بار بار پیدا ہونے سے نجات مل جاتی ہے، وہ پھر پیدا نہیںہوتا۔‘
اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے۔ وہ جانتاہے کہ مسلمان بھی آخرت پر ایمان رکھنے کے باوجود آخرت کی طرف سے غافل ہوجائیںگے، اس لیے ان کو اس طرح متنبہ فرماتاہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ oوَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاہُمْ أَنفُسَہُمْ أُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ o
(سورہ حشر آیت: ۱۸،۱۹)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو، اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ (اس نے فردائے قیامت کے لیے کیا (سامان) بھیجا ہے اور (مکرریہ کہ) اللہ سے ڈرتے رہو (کہ) تم جو کچھ کرتے ہواس سے وہ باخبر ہے۔ اور ان جیسے لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوںنے خدا کو بھلادیاتو وہ خود اپنے کو بھول گئے، یہ بدکردار لوگ ہیں۔‘‘
بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی دو آیتیں ہیں، لیکن یہ اپنے اندر ایک دفتر کی تذکیر و موعظت اور تنذیر و تنبیہ رکھتی ہیں؛ پہلی آیت میں خدا کا خوف دلاکر فرمایا گیا ہے کہ ہرمسلمان کو اپنے اعمال کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ وہ آخرت کے لیے نیک عملی کا کس حد تک سرمایہ فراہم کررہاہے، انسان اس زندگی میں آخرت کے لیے جو سرمایہ فراہم کرے گا، وہی اس روز اس کے کام آئے گا، آخرت سے غافل مردم شماری کا مسلمان مواخذۂ آخرت سے بچ نہ جائے گا۔ پھر فرمایاگیاکہ اللہ سے ڈرو، ایسانہیں ہے کہ تمہارے اعمال کی اسے خبر نہیں ہوتی، تم جو کچھ کرتے ہو اس سے وہ یقینا باخبر ہے۔ دوسری آیت میں اس حقیقت سے خبردار کیا گیاہے کہ وہ آخرت کی طرف سے غافل اور بے پروا کیوں ہوجاتاہے؟ وہ خدا کو بھول جاتاہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خود اپنے کو فراموش کردیتا ہے، دنیاداری اور نفس پرستی میں گم ہوکر خدا کا نافرمان بن جاتاہے، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کی اکثریت خدافراموش اور آخرت سے غافل نظر آئے گی۔
حقیقت یہ ہے کہہمارے اسلاف و اکابر آخرت پر سچا ایمان رکھتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ساری مملکت اسلامیہ کے فرمانروا تھے، ان کی شہزادگی کی زندگی بڑے کروفر، بڑی شان و شوکت اور عیش وعشرت میں گزری تھی، مگر منصب خلافت پر فائز ہوتے ہی ان کی زندگی یکسر بدل گئی، ہر وقت آخرت کی باز پرس کا خوف دامن گیر رہتا، ایک روز خلافت سے پہلے کازمانہ یاد آگیا، بیوی سے فرمایا۔ ہماراگزشتہ زمانہ کتنا راحت بخش اور خوش آئند تھا۔ بیوی نے کہا اس وقت تو آپ صرف ایک صوبے کے حاکم تھے۔اس وقت پوری سلطنت کے فرمانروا ہیں، اتنی سی بات پر آپ کے دل کو مواخذۂ آخرت کا ایک جھٹکا لگا۔ درد بھرے لہجے میں فرمایا۔ فاطمہ! اس حکومت و فرمانروائی کے ساتھ اس کی ذمہ داریوں کا بھی تو خیال کرو، پھر کانپتے ہوئے یہ آیت پڑھی:
’’اگرمیں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتاہوں۔‘‘
اس جواب میں اتنا درد و سوز تھا کہ ملکہ پر رقت طاری ہوگئی، دعا کرنے لگیں کہ اے اللہ تعالیٰ ! ان کو دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھیو، آپ عشا کی نماز پڑھ کر اپنی بچیوں سے ملنے جایا کرتے تھے، ایک بار آپ بچیوں سے ملنے گئے تو انھوںنے اپنے منھ پر ہاتھ رکھ لیے۔ انّا سے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ لڑکیوں نے منھ پر ہاتھ کیوں رکھ لیے؟ انّا نے جواب دیا۔ آج گھر میں مسور کی دال اور پیاز کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہ تھی، انھوںنے منھ پر ہاتھ اس لیے رکھ لیے کہ پیاز کی بو سے آپ کو تکلیف نہ ہو۔ یہ سنکر آپ روپڑے ۔ فرمایا: بچیو! کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو کہ تم لذیذ اور نفیس غذائیں کھائو اور تمہارا باپ جہنم میں جھونک دیاجائے۔ اس پر بچیاں اس قدر روئیں کہ گھر غم کدہ بن گیا۔
آپ کچھ غور کررہے ہیں؟ یہ کسی صوفی اور زاہد کے گھر کی باتیں نہیں ہیں۔ ایک عظیم سلطنت کے فرمانروا کے شاہی محل کی باتیں ہیں۔ ہائے! ان کے خوفِ آخرت کا کیا حال تھا اور ہمارا کیا حال ہے؟
شہزادیوں کی یہ حسرت اور تنگ حالی تھی، اس لیے کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی جائداد اور املاک کی آمدنی پچاس ہزار دینار سالانہ تھی مگر خلیفہ ہونے کے بعد جائدادیں ان کے حقداروں کو واپس کردیں۔ صرف دو سو دینار کی آمدنی کی جائداد آپ کے پاس بچ رہی۔ بیت المال سے کچھ لیتے نہ تھے، دو درہم روزانہ میں آپ اپنا گزارا کرتے تھے۔ روٹی اور زیتون کاتیل آپ کا کھاناتھا۔ وہ بھی شکم سیر نہیں، کپڑا بھی ایک جوڑا تھا۔ اس کو دھو دھوکر استعمال کرتے تھے۔ یہ تھے آیت کریمہ کے مطابق فردائے قیامت کے لیے سامان بھیجنے والے۔ کون اندازہ کرسکتا ہے کہ وہاں ان کے لیے کیا کچھ ہوگا۔
ایک رات امیرالمومنین کی لونڈی نے ایک خواب دیکھا۔ صبح ہوئی تو کہا۔ امیرالمومنین! رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے، پوچھا وہ خواب کیاہے؟ لونڈی نے کہنا شروع کیا۔ میں نے دیکھا دوزخ بھڑکائی گئی۔ اور اس پر ایک پل بچھادیاگیا۔ اس پل کے اوپر سے آپ کے خاندان کے خلفا کو گزارا جارہاہے۔ فرشتے خلیفہ عبدالملک کو لائے وہ پل سے گزرنے لگے تو دوزخ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں جاپڑے۔
امیرالمومنین نے گھبراکر پوچھا۔ پھر کیا ہوا؟ لونڈی نے کہا۔ پھر ولید بن عبدالملک لائے گئے اور وہ بھی اِسی طرح آگ میں گرپڑے۔
امیرالمومنین کی دہشت اور بڑھ گئی پوچھا۔ اس کے بعد کیا دیکھا؟ پھر آپ لائے گئے، یہ سننا تھا کہ آپ بے ہوش ہوگئے، لونڈی کہتی رہی کہ امیرالمومنین آپ پل سے سلامتی سے گزرگئے، آپ ہوش میں کہاں تھے جو سنتے، ہوش میں آئے تو لونڈی نے خواب پوراکیا۔
قبر آخرت کا پہلا مرحلہ ہے، انسان کو یہیں پتہ چل جاتاہے کہ اس نے آخرت کے لیے جو کچھ بھیجا ہے وہ اس کے لیے راحت بخش ہے یا تکلیف دہ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی نرم و نازک لباس اور عطر میںگزری تھی، مگر اب اپنی تمام ہولناکیوں اور عبرت انگیزیوں کے ساتھ قبر کا نقشہ سامنے رہتاتھا اور اکثر گہرے احساسات و تاثرات کے ساتھ اس کاذکر کرتے رہتے تھے۔ ایک بار اپنے ایک جلیس سے قبر کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اگر تم تین دن کے بعد مردے کو قبر میں دیکھو تو انس و محبت کے باوجود اس کے پاس جاتے ہوئے ڈروگے۔ تم قبر کو ایک ایسا گھر دیکھوگے جس میں خوش وضعی، خوش لباسی اور خوشبو کے بعد کیڑے رینگ رہے ہوںگے، رطوبت بہہ رہی ہوگی۔ کفن بوسیدہ ہوچکاہوگا۔ یہ کہتے کہتے ایسی رقت طاری ہوئی کہ ہچکی بندھ گئی، اس کے بعد بے ہوش ہوگئے۔
رات کی عبادت کے لیے گھر میں ایک حجرہ مخصوص کررکھاتھا، اس میں کمبل کے کپڑے رہتے، رات کے پچھلے پہر اس حجرے میںچلے جاتے اور معمولی کپڑے اتارکر ان کو پہن لیتے اس طرح دنیا کاجلیل القدر بادشاہ سلطانِ کائنات کے سامنے بے نوا فقیر بن جاتااور رو رو کر اس کے حضور اپنا عجزو نیاز پیش کرتا۔
نماز کی قرأت میں قیامت سے متعلق کوئی آیت آتی تو گویا آپ کے سامنے قیامت کانقشہ کھنچ جاتا، ایک بار رات کی نماز میں آپ نے سورۂ والیل پڑھی، جب اس آیت پر پہنچے:
فانذرتکم ناراً تلظی
’’پس میںنے تم کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ سے خبردار کردیا۔‘‘
تو آپ پر اس قدر گریہ طاری ہوا کہ قرأت کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔
حضرت امیر المومنین کی یہ حالت ان کی اہلیہ کے لیے ایک مسئلہ بن گئی تھی۔ ایک صبح گھر والوں نے دیکھاکہ وہ زار زار رورہی ہیں اور روتے روتے ان کی گھگھی بندھ گئی ہے ان کے بھائیوں اور عزیزوں نے اس طرح رونے کی وجہ پوچھی تو انھوںنے بیان کیاکہ رات امیرالمومنین کی حالت بڑی دردناک ہوگئی تھی، نمازمیں سورۂ القارعہ پڑھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے:
یَوْمَ یَکُونُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ o وَتَکُونُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنفُوشِ o
’’جس دن انسان پراگندہ پتنگوں کی طرح ہوںگے اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیںگے۔‘‘
تو چیخ کر اچھلے اور اچھل کر اس طرح گرے کہ معلوم ہوا دم توڑرہے ہیں، پھر ایسے بے حس و حرکت ہوگئے کہ میں نے سمجھا آپ کا کام تمام ہوگیا، ہوش میں آئے تو نعرہ مارکر پھر اچھلے اور تمام گھر میں چکر لگاکر کہنے لگے۔ ہائے وہ دن جس دن انسان پراگندہ پتنگوں کی طرح ہوںگے اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے، اسی طرح چکرلگاتے ہوئے گرے اور پھر ایسی حالت ہوگئی کہ میں نے سمجھا آپ کاخاتمہ ہوگیا، یہاں تک کہ فجر کی اذان سن کر ہوش میں آئے۔
کتنا قوی اور شدید یقین تھا حضرت عمر بن العزیز کا آخرت پر؟ حضرت ابوبکرصدیق اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما عشرۂ مبشرہ یعنی ان دس بزرگوںمیں ہیں جن کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی خوشخبری سنادی تھی، پھر بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کایہ حال تھا کہ کوئی ہرا بھرا درخت دیکھتے تو حسرت سے کہتے۔ کاش میں درخت ہوتا تو آخرت کے حساب و کتاب سے آزاد رہتا۔ کسی باغ کی طرف سے گزرتے تھے اور چڑیوں کو چہچہاتے ہوئے دیکھتے تو ٹھنڈی آہ بھر کر فرماتے۔ پرندو! تم کتنے مبارک ہو جہاں چاہتے ہو چرتے چگتے پھرتے ہو۔ جس درخت کے سائے میں چاہتے ہو بیٹھتے ہو، قیامت میں تم سے کوئی حساب و کتاب نہ ہوگا، کاش! ابوبکر بھی تمہاری طرح ہوتا، قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو پھوٹ پھوٹ کر روتے،نماز میں کھڑے ہوتے تو لکڑی کی طرح بے حس و حرکت نظرآتے اور اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بھی یہی حال تھا، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نماز پڑھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے ان عذاب ربک لواقع (سورہ طور) ’’بلاشبہ تیرے رب کا عذاب واقع ہوکر رہنے والاہے‘‘تو اس قدر روئے کہ روتے روتے آنکھیں سوج گئیں۔
اسی طرح ایک بار سورہ تکویر پڑھ رہے تھے، جب یہ آیت پڑھی واذا الصحف نشرت ’’جب اعمال نامے کھولے جائیںگے‘‘ تو بے ہوش ہوکر گرپڑے، اور کئی روز تک ایسی حالت رہی کہ لوگ عیادت کرتے رہے۔
ایک بار یہ آیت پڑھی : واذا القو منہا مکانا ضیقاً مقرنین دعوا ہنالک ثبوری یعنی ’’جب انہیں زنجیروں میں باندھکر ایک تنگ جگہ میں ڈال دیاجائے گا تو وہ موت کو پکارنے لگیںگے۔‘‘
یہ آیت پڑھ کر آپ کی ایسی حالت ہوگئی کہ آپ سے ناواقف کوئی شخص دیکھتا تو سمجھتاآپ کی روح پرواز کرگئی۔
ایک بار آپ سواری پر کہیں جارہے تھے۔ کوئی شخص نمازمیں سورۂ طور پڑھ رہاتھا، جب وہ اس آیت پر پہنچا جو اوپر گزر چکی ہے تو آپ سواری سے اترپڑے، اور دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے، گھر آئے تو ایک مہینے تک بیمار رہے۔
ایک بار آپ کہیں جارہے تھے، راستے میں سے ایک تنکا اٹھالیا۔ فرمایا۔ کاش میں بھی خس و خاشاک ہوتا۔ کاش میری ماں مجھے نہ جنتی۔
آپ فرمایا کرتے تھے، اگر آسمان سے ندا آئے کہ ایک آدمی کے سوا تمام لوگ جنتی ہیں پھر بھی مواخذۂ آخرت کی طرف سے مجھے اطمینان نہ ہوگا کہ شاید وہ ایک آدمی میں ہی ہوں۔
آپ کا آخری وقت آیا تو منھ زمین پر رکھ دیا، کہا۔ عمر کی خرابی ہے اگر اس کے پروردگار نے اس کی خطائوں کو معاف نہ فرمادیا۔
حیرت ہوتی ہے ان بزرگوں کے حالات کو پڑھ کر، جیسے مواخذۂ آخرت سے متعلق قرآن مجید کی تمام آیتوں کاتعلق انہی سے ہو، ان کی کیسی گہری تربیت فرمائی تھی حضرت رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ ان کے دلوں کو کدورتوں سے کتنا پاک اور کتنا روشن اور مجلی کردیاتھا۔ اہل علم اور اہل دماغ تو ہمارے زمانے میں بھی ہیں لیکن اہلِ دل جو تھے وہ ایک ایک کرکے اٹھ گئے۔ اہل دماغ دماغوں کی تربیت تو کرسکتے ہیں مگر دلوں کی تربیت ان سے نہیں ہوسکتی دلوں کی تربیت اہل دل ہی سے ہوسکتی ہے، اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا شہید رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں ہمیں ملتاہے کہ وہ رات میں اپنے رفیقوں کو گورستان میں لے جاتے تھے اور ان سے کہتے تھے کہ بیٹھی ہوئی قبروں میں لیٹ جائو اور تصور کروکہ ایک روز تم کو بھی اسی طرح قبر سے واسطہ پڑنا ہے اور جو کچھ کرو اسی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرو۔ کاش ہم میںبھی ایسے مربّی پیدا ہوتے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حالتوں پر رحم فرمائے، ہماری حالت کیا ہے، اور اس کے مقابلے میں ہم مواخذۂ آخرت کی طرف سے کتنے غافل ہیں۔ ——