اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے یقیناً بہت سے ذرائع ہوسکتے ہیں مگر ان تمام ذرائع میں قرآن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو براہِ راست اپنی خوب صورت، واضح اور دو ٹوک زبان میں اپنا پیغام سناتا ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ پیغام قرآن کے حروف میں پوشیدہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس کو براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہے۔ معمول کی تلاوت قرآن کی صورت محض حروف و الفاظ کی حد تک قرآن سے وابستگی ہوتی ہے اور الفاظ کے تلفظ و ترنم کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ انسان پر اثر انداز ہو، مگر دلوں کی کیفیت اسی وقت بدلتی ہے جب الفاظ کا معنی و مفہوم انسان کے دل و دماغ اور قلب و شعور میں اتر رہا ہو۔ ہم آیات تو پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے اندر بیان کی گئی ہدایات سے یکسر ناآشنا رہتے ہیں۔
ہر صاحبِ ایمان کو قرآن کے ساتھ اپنے اس تعلق پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیوں کہ قرآن کی حقیقی برکت تو اس کے معانی اور مفاہیم میں مضمر ہے اور الفاظ تو ان مفاہیم تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ اسی بنیاد پر اکتاہٹ اور بے دلی کی کیفیت میں قرآن کی قرأت سے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح قرآن کے الفاظ کی ادایگی تو ہو سکتی ہے، لیکن ان کے مفہوم سے آگاہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔
قرآن کی تلاوت یا سماعت کے وقت تدبر و تفکر کی اہمیت تو قرآن کی اپنی آیات سے واضح ہے۔ قرآن پر عمل کرنے کے لیے قرآن کو سمجھنا اور اس کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے اور جب فہم حاصل ہوتا ہے تو یہ دل کے اندر تاثیر چھوڑتا ہے اور یہی تاثیر عمل کا محرک بنتی ہے:
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔ (ص:۲۹)
فہم کا حصول بلاشبہہ الفاظ کی قرأت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اور اگر فہم حاصل نہ ہو رہا ہو تو محض الفاظ کی قرأ ت کیوں کر مطلوب ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے فرمایا تھا:’’وہ آدمی اس (قرآن)کو سمجھ نہیں پاتا جو تین دن سے کم وقت میں اس کی قرأت کر لیتا ہے۔‘‘ (صحیح الجامع الصغیر)
جب ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے توجہ اور غور کے ساتھ اسے پڑھنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں تو قرآن کی قرأت کو اس اصول سے کیوں خارج کر ڈالتے ہیں۔ قرآن کے معاملے میں تو اس کا سب سے زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے۔امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہرکلام کا مقصد اس کے الفاظ کو نہیں بلکہ مفہوم کو سمجھنا ہوتا ہے اور قرآن اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کے معانی کو سمجھا جائے۔ (مقدمہ فی اصولِ التفسیر: ۵۷)۔امام قرطبی النسا آیت۸۲ کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے تاکہ قرآن کا مفہوم معلوم کیا جا سکے۔(الجامع لاحکام القرآن:۷۸۱)
تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار
قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے:’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔(الانعام:۱۶۲)
قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا:
اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اْتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر)غور کریں۔ (الحشر؛۲۱)
امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کر کے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے۔ (الجامع لاحکام القرآن:۳۰)
قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
جوشخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیرہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں گہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اْن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فی صد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ اللہ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔
قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسول اللہؐ کے یہ کلمات سنتے ہیں کہ: ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘۔
جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔
دلِ بیدار کی ضرورت
آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم۔۔۔۔؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟۔۔۔۔ نہیں، ہرگز نہیں!قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!lll