فیشن کا لفظ دراصل قدیم فرینچ زبان سے لیا گیا ہے جس کے لغوی معنی ہیں لباس پہننے کا ایک مشہور رواج اس طرح نئے وضع وقطع اور طرز کے لباس بنانا اور اس کو فروخت کرنا فیشن ڈیزائننگ کا بنیادی عمل ہے۔
فیشن ڈیزائننگ کا میدان نہایت وسیع ہوتا جارہا ہے۔ پینٹ شرٹ، کرتا پائجامہ، شیروانی، کوٹ پینٹ، ساڑی کرتا یا شلوار قمیص یا دوسرے لباس کے ساتھ جو بھی اضافی چیزیں پہنی جاتی ہیں جیسے موزے، جوتے، چپل، ٹوپی، کمر بیلٹ یا پھر اندر پہنے جانے والے کپڑے، عورتوں کے زیورات کے علاوہ جانوروں کی کھال سے تیار شدہ چیزیں جیسے سردی کا کوٹ، جیکٹ، دستانے، بٹوہ، خواتین کے پرس وغیرہ اس میں شامل ہیں۔ اس کے وسیع ہونے کی وجہ سے ہی اسے الگ الگ شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
٭ جویلری ڈیزائننگ میں عورتوں کے زیوارت اور قیمتی گھڑی وغیرہ ڈیزائن کرنا سکھایا جاتا ہے۔
٭ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں کپڑے ڈیزائن کرنا سکھایا جاتا ہے۔
٭ انٹیریئر ڈیزائننگ میں گھروں میں رکھی جانے والی چیزیں جیسے ٹیبل، میز، صوفے، دروازے اور کھڑکیوں کے پردے وغیرہ کو عمدہ انداز سے ڈیزائن کرنا اور صحیح مقام پر وضع کرنا سکھایا جاتا ہے۔
٭ گرافک ڈیزائننگ میں کتابوں، رسالوں، جرنلس اور اخبارات کے سرورق کو ڈیزائن کرنا سکھایا جاتا ہے۔
دراصل کسی بھی دور کے معاشرے میں جو کچھ بھی پہنا اوڑھا جاتا ہے وہ فیشن کہلاتا ہے۔ ایک ثابت لمبے چوڑے کپڑے کو انسان یوں ہی لپیٹنا پسند نہیں کرے گا اس لیے اس کو پہننے کے قابل انداز میں دے کر پہنا جاتا ہے۔ سلائی کٹائی اور تمام لوازمات پورے ہونے کے بعد ایک کپڑا کرتا پائجامہ، پینٹ شرٹ، کوٹ پینٹ، شیروانی یا شلوار قمیص اور دیگر ملبوسات کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہی فیشن ہے۔ اس فن کا اگر کوئی شخص غلط استعمال کررہا ہے تو وہ اس کی غلطی ہے جس کی بنا پر ہم اسے سرے سے غلط نہیں کہہ سکتے۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ فیشن رہا ہے کیونکہ ہر چیز جو پہنی اوڑھی جاتی ہے وہ اپنا طرز رکھتی ہے اس لیے اس کو فیشن کہتے ہیں جیسا کہ ہندوستان، جاپان، چین یا عرب ممالک میں وہ اپنے روایتی لباس پہنتے ہیں یہ بھی آخر کسی کی ایجاد کردہ ڈیزائن ہی تھا۔ پھر جیسے جیسے لوگوں نے تبدیلی کی ضرورت کو محسوس کیا ویسے ویسے طرز کے ساتھ اس کو بنایا گیا اور لوگ اس کو اپناتے گئے۔
اسلام سے پہلے عرب میں مرد عام طور سے شابا (عربی جبہ) او رکرتا پاجامہ، رومال، تہبند قمیص اپنی حیثیت کے مطابق زیب تن کرتے تھے۔ عورتیں ایسا لباس بھی پہنا کرتی تھیں جس سے ان کی گردن اورسینہ نمایاں رہتا تھا اور جو کپڑا دوپٹہ کے طور پر اوڑھتی تھیں وہ بھی سر کے پیچھے سے کاندھوں پر اس طرح ڈالا جاتا تھا کہ اس سے کان، سینہ، گردن سب کے سب نمایاں رہتے تھے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ فیشن جائز بھی ہوسکتا ہے اور ناجائز بھی۔ جائز وہ ہے جس سے اسلام کے حدود برقرار رہیں اور ناجائز وہ ہے جس سے برقرار نہ رہیں۔ عرب کے جاہلی دور میں مردوں کا جو لباس تھا وہ زیادہ قابلِ اعتراض نہیں تھا لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ وہ لوگ فخر جتانے اور دوسروں کو حقیر بتانے کے لیے اپنے کرتوں کو اتنا لمبا کرتے اور اس سے زمین جھاڑتے چلتے۔ اس برائی کو اسلام نے دور کیا۔ عرب کے جاہلی دور میں عورتوں کے لباس کا مسئلہ بڑا سنگین تھا۔ چنانچہ اسلام نے دورِ جاہلیت کے خواتین کے لباس کی وضع قطع کی اصلاح کی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے:
’’اے اولادِ آدم ہم نے تم پر یہ لباس نازل کیا ہے تاکہ تمہارے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہاری زینت کا ذریعہ بھی ہو۔‘‘ (الاعراف: ۲۶)
حدیث میں کہا گیا ’’کھاؤ پیو اور صدقہ کرو اور پہنو جب تک اس میں اسراف اور تکبر نہ ہو۔‘‘ (احمد)
اس آیت اور حدیث سے لباس کا مقصد واضح ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ فیشن وہ فن ہے جس سے انسان کی ستر پوشی اور زینت کی حاجت پوری ہوتی ہے۔
موجودہ صورت حال
انڈین فیشن انڈسٹری اور ساری دنیا کی فیشن انڈسٹری کی صورتحال بے حد سنگین اور افسوسناک ہے۔ دراصل جو بھی لباس بازار میں آتے ہیں خواہ وہ مردوں کے ہوں یا عورتوں کے فیشن ڈیزائنرس ہی کے ڈیزائن کردہ ہوتے ہیں جو بڑی بڑی کمپنیوں کو اپنی ڈیزائن فروخت کرتے ہیں اور وہ کمپنیاں ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے اس کو عام کرنے اور اس کو فروخت کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس انڈسٹری کی دو مضبوط جڑیں ہیں۔ ڈیزائنر اور میڈیا۔ ان دونوں کی وجہ سے فیشن کو عام ہونے میں مدد ملتی ہے۔ فیشن انڈسٹری کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ اپنی فکر و نظر،طور طریقہ اور رواج کو عام کریں اور دوسرا یہ کہ دولت بٹوریں۔ یہ پوری دنیا میں ہورہا ہے ۔یہ لوگ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ روایات کو مستحکم کرتے ہیں اور عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موسم کے لحاظ سے ہر ماہ کسی نہ کسی ڈیزائنر کے کپڑوں کی نمائش کے لیے فیشن شو منعقد کیے جاتے ہیں اور ان فیشن شو میں ڈیزائنروں کے بنائے ہوئے لباسوں کی چاہے وہ مردوں کے لیے ہو یا عورتوں کے لیے موڈلز کے ذریعے بے حیائی کے ساتھ نمائش کی جاتی ہے۔ اندر پہننے والے کپڑے ہوں یا باہر پہننے والے، بکنی ہوں یا سویم سوٹ یہ ماڈلز ان ملبوسات کو زیب تن کرکے اپنے خاص انداز میں ریمپ پر چل کر پیش کرتے ہیں۔ اس انڈسٹری کی باقاعدہ کونسلیں ہوتی ہیں مثلاً FDCI، WIFWوغیرہ۔ یہ کونسلیں ہی شوز کو منعقد کرتی ہیں۔ اس انڈسٹری کے کئی ٹی وی چینل اور کئی میگزین ہیں جس کو وہ صرف اس بے ہودہ اور عریاں فیشن کی ترویج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کے ڈیزائن کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈیزائننگ یہ ہے کہ جتنا جسم کھلا رہے اور جتنا کم کپڑا رہے اتنا ہی اچھا ڈیزائن مانا جاتا ہے۔ لوگ اسی کو اپنا رہے ہیں۔ گھریلو استعمال کے ملبوسات ہوں یا تقریباتی لباس سب میں یہ بے حیائی کا پہلو ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ یہ صرف اور صرف ننگاپن اور عریانیت کو فروغ دے رہے ہیں۔ دوسرے ممالک کی بہ نسبت ہندوستان میں ان چیزوں کا رواج کم ہے لیکن بے حیائی کا طوفان یہاں بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
معاشرے پر منفی اثرات
آج اگر ہم کالجوں یا شہر کے بازاروں پر نظر ڈالیں توسخت شرمندگی ہوتی ہے۔ نیم عریاں نوجوان لڑکیاں فٹ جینس اور چھوٹی ٹی شرٹ جس سے جسم کے اعضا نظر آتے ہیں، کبھی آستین غائب تو کبھی آدھا گریبان کھلا ہوا، کبھی اسکرٹ چولی پہن کر، کبھی بیچ سے کھلا تو کبھی بازو سے کھلا ہوا اسکرٹ اور کسی بھی لباس پر دوپٹہ نہیں ہوتا۔ اب تو کمسن بچیوں کو بھی ایسے گندے لباس پہنائے جارہے ہیں اور اس کو غلط تسلیم کرنا تو درکنار بلکہ باعث عزت اور اونچے لوگوں کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔ اس سے معاشرے پر جو برے اثرات پڑ رہے ہیں وہ نہایت واضح ہیں۔ جنسی بے راہ روی اور خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ خاص ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کلچر کو اثر ورسوخ رکھنے والے لوگ اور میڈیا اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے یہی مہذب اور ترقی یافتہ لوگوں کی پہچان ہو۔
مسائل کا حل
اسلام نے کپڑوں کے متعلق جو احکام نازل کیے ہیں ان کو اپنا کر ان تمام بے حیائیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اسلام ایسا لباس پہننے کا حکم دیتا ہے جس سے پورا بدن بھی ڈھک جائے اور زینت کا ذریعہ بھی بنے۔ قرآن کہتا ہے:
’’اے اولادِ آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے تاکہ تمہارے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہاری زینت کا ذریعہ بھی ہو۔‘‘ (الاعراف:۲۶)
اور دوسری جگہ فرمایا گیا:
’’اپنے کپڑے پاک رکھو۔‘‘ (مدثر:۴)
حدیث :’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ بھر تکبر ہو۔ایک شخص نے عرض کیا کہ آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں (تو کیا یہ تکبر ہے) آپؐ نے فرمایا بیشک اللہ جمیل ہے اور جمال و خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر تو یہ ہے کہ حق کا انکار کیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔‘‘ (مسلم)
حدیث:’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے اس کا شمار اس قوم میں ہوگا۔‘‘ (احمد، ابوداؤد)
حدیث میں باریک کپڑے پہننے سے روکا گیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حدود میں رہتے ہوئے لباس بنائیں اور ان کو عام کرنے کی کوشش کریں۔ ان احکامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اتنے اچھے اور واضح انداز میں کسی دیگر مذہب نے لباس کے متعلق رہنمائی نہیں کی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی لباس خاص مسلمانوں کے لیے اتارا گیا ہے بلکہ اسلام نے لباس کے حدود قائم کردیے ہیں۔
اس راہ میں پہلا قدم یہ ہو کہ خواتین ایسا لباس اپنائیں جس سے پوری ستر پوشی ہو اور زینت کا ذریعہ بھی بن سکے۔ ایسے لباسوں کو ہرگز نہ اپنایا جائے جس سے لباس کا مقصد فوت ہوتا ہو اور اسلامی حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ انہیں چاہیے کہ وہ معاشرے میں رائج بے حیائی کے ملبوسات کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنے معاشرے کی اصلاح کی تگ و دو کریں۔ دوسرا قدم بھی ہمیں بہت مضبوطی اور جواں عزمی کے ساتھ اٹھانا ہوگا وہ یہ ہے کہ فیشن انڈسٹری کی تمام تر برائیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے باقاعدہ تیاری کرنی ہوگی۔ کسی بھی بیماری کو صحیح انداز میں ایک ڈاکٹر ہی سمجھ سکتا ہے اور وہی اس کا علاج بھی کرسکتا ہے۔ اتنی منظم انداز سے فروغ پانے والی برائی کا مقابلہ بھی بڑے منظم انداز میں کرنا ہوگا۔ ہمیں اس پختہ عزم کے ساتھ فیشن ڈیزائننگ کے کورس میں داخلہ لینا ہوگا تاکہ ہم اس کے expertہوں اور جب ہماری ایک جماعت ڈیزائنرس کی تیار ہوجائے گی جو اپنے ڈیزائن کے ذریعہ سے ان باطل پرستوں کے ڈیزائن کو مارکیٹ میں مات دے دیں گے اور پھر اسلامی طرز پر فیشن انڈسٹری قائم کریں گے جو ہماری نوجوان نسل و قوم کی فیشن کی ضروریات اسلامی حدود میں رہتے ہوئے پورا کرسکے۔
کیئریر اور مواقع
جن شہروں میں یہ کورسکیے جاسکتے ہیں ان کی معلومات مندرجہ ذیل ہے:
شہر
ادارہ
ڈگری
ڈپلوما
بنگلور، حیدرآباد، ممبئی، کلکتہ، دہلی
NIFT
یو جی تین سال
پی جی دو سال
ایک سال
۲ سال
بنگلور، حیدرآباد، ممبئی، کلکتہ، دہلی
INIFD
یو جی ۳ سال
پی جی ۲ سال
ایک سال
۲ سال
حیدرآباد، دہلی، بنگلور
SID
یو جی ۲ سال
۱ سال
۲ سال
دہلی، بنگلور
ALT
یو جی ۳ سال
پی جی ۲ سال
ا یک سال
۲ سال
دہلی اور دیگر شہر
IIFT
یو جی ۳ سال
ایک سال
۲ سال
فیشن ڈیزائننگ اسلام پسند مرد و خواتین کے لیے روزگار بھی ہے اور عریانیت کے دور میں فکری جنگ کا محاذ بھی۔ یہ بات طے ہے کہ عریانیت کو رواج دینے والے خود اس عریانیت سے اکتا گئے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حجاب مشرق و مغرب میں لاکھوں نوجوان لڑکیوں اور خواتین کی پسند بن رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ساتر لباس کے مواقع بھر پور ہیں۔ ہماری طالبات جو باشعور ہوں اور اس میدان کے چیلنج کا مقابلہ کرنا چاہتی ہوں وہ اس میدان میں بھی قدم رکھ کر عریانیت کے خلاف عملی جنگ میں حصہ لے سکتی ہیں۔lll