اسلام نے عورت کو عزت بخشی اور اسنے عزت و وقار کا وہ مقام بخشا ہے جس کا تصور کسی بھی مذہب اور کسی بھی سماج میں نہیں کیا جا سکتا اور اس کی حفاظت اور وقار کے لئے پردے کو لازم قرار دیا۔
اسلام کا مقصود ایک پاکیزہ سماج اور صالح معاشرہ تیاز کرنا ہے۔ ایسا سماج و معاشرہ جس میں بے حیائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام عورت کا اصل زیور شرم و حیا کو قرار دیتا ہے۔
تاریخی مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کے اندر فیشن پرستی، بے حیائی و بے پردگی و بے شرمی کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ جب کبھی خواتین کے اندر بے حیائی و بے شرمی عام ہوتی ہے تو وہیں فیشن پرستی کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے۔
موجودہ دور میں اس کے فرو غ کے جو ذرائع ہیں وہ بہت تیز رفتار اور نہایت موثر ہے۔فلم، ٹی وی، ریڈیواور فحش لٹریچر وغیرہ کے برے اثرات سے اب شاید ہی کوئی گھر محفوظ ہو۔جان بوجھ کر عورتیں نیم برہنہ کپڑے زیب تن کئے رہتی ہیں۔ آج عیاشی و بدکاری میں جو روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس میں بے پردگی و بے حیائی کا خاص حصہ ہے۔
سب سے پہلے فلموں نے اس بے پردگی و عریانیت کو ہوا دی ہے۔ اب جو رہی سہی کسر باقی ہے تو وہ ٹیلی ویژن پوری کر رہا ہے۔
بڑے ہی رنج وافسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہماری خواتین چست اور باریک لباس پہننے میں کسی بگڑی ہوئی قوم سے پیچھے نہیں رہیں۔
مسلم خواتین کو تو ایسا لباس پہننا چاہیے جس کی وضع قطع، اور شرافت سے لوگ متاثر ہوں۔ ایسا باریک لباس نہیں پہننا چاہیے جس سے بدن صاف طور پر نظر آئے۔ ایسے باریک کپڑے کا دوپٹہ اوڑہنا بھی جائز نہیں جس کے نتیجے سے سر کے بال نظر آرہے ہوں۔
آج کل معاشرے میں باریک لباس اسقدر عام ہو گیا ہے کہ جس کو دیکھئے وہ زیب تن کئے ہوئے ہے ۔ نئے نئے فیشن بدل کر اور باریک کپڑے پہن کر عورتیں گھروں سے نکلتی ہیں۔ بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں بے حیائی و بے حیائی و بے حجابی سے غیر مردوں سے ملتی جلتی ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا۔
’’وہ عورتیں جو ظاہر میں توکپڑا پہنتی ہیں مگر حقیقت میں برہنہ نظر آتی ہیں مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والیاں، مردوں کی طرف مائل ہونے والیاں ایسی عورتیں نہ جنت میں جائیں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پائیں گی۔ (مسلم)
دوسری طرف اگر ہم ملازمت، اور کالج جانے والی لڑکیوں کو دیکھیں تو وہ بھی عجیب و غریب ہیت بنائے ہوئے ہوتی ہیں، بھنوئیں تراشی ہوئی، بالوں کو کاٹ چھانٹ کر گردن پر بکھیر دیا گیا، ہاتھوں اور پنڈلیوں کے بال نکالے جا رہے ہیں اور جلد کو چکنا کرنے کے لئے قسم قسم کے لوشن اور پاوڈر وغیرہ استعمال کر کے اور دو گھنٹے میک اپ کرکے چہرے کو گورا اجلا بنایا جا رہا ہے۔
جب کہ ابو ہریرؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا۔
ترجمہ ’’اللہ تعالیٰ تمہارے صورتوں اور مال کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘
اگر یہی عورتیں اپنے ظاھر کو سنوانے اور اپنے چہرے کو درست کرنے سے زیادہ دل و دماغ اور اپنے باطن کو خوبصورت بنانے کی کوشش کریں تو زیادہ بہتر ہوتا۔ کیونکہ دل اللہ پاک کا گھر ہے اور دماغ و سو سے پیدا کرنے کا گھر ہے یوں دل کو صاف کرلیں تو دماغ خود بخود پاک و صاف ہو جائے گا۔
عورت کو اپنا جسم ڈھانک کر رکھنا جہاں اسلامی فریضہ ہے جو خدا نے ہر مومن پر عائد کیا وہیں حجاب مسلم عورت کی شان اوراس کا وقار ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ہم خواتین مغربی تہذیب کو اپنی اسلامی تہذیب سے اعلیٰ اور اچھا سمجھ کر اس کی نقالیؔ میں مشغول ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر ہماری بہنیں قرآن و حدیث کو جاننے کے باوجود مغربی تہذیب کی طرف دوڑی چلی جا رہی تھیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہم کو اس دن کی فکر نہیں جس دن ہمارے سارے اعمال ہمارے سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔
سورۃ زلزال کی آخری آیت میں اللہ تبارک و تعالہ نے ارشاد فرمایا:‘
جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔
دنیا آزمائش کی جگہ ہے اور خدا تعالیٰ نے دنیا میں جس کو جس مقام پر رکھا ہے اور جو ذمہ داری عائد کی ہے اس کے بارے میں قیامت کے روز اس سے باز پرس ہوگی۔ اس لیے ہر مومن عورت کو اس دن کی فکر رکھنی چاہیے۔ lll