’’خدا کسی کے شوہر کو نہ مارے‘‘ یہ دکھ بھری صدا عشرت بیگم کی کٹیا سے بلند ہوتی ہوئی چیخ کی صورت میں تبدیل ہوگئی۔
’’ہائے ری قسمت‘‘ دوسری صدا، اور پھر وہی صدا، ’’خدا کسی کے شوہر کو نہ مارے‘‘ ایک بار پھر گونج گئی۔ کل شب عشرت نے اپنے خاوند کی لاش کو قبر میں اتارا تھا، اس قبر میں جس کی قیمت ابھی اسے ادا کرنی تھی۔ دلاسے دینے والے بڑے آئے، آنسو پونچھنے والیاں بڑی آئیں لیکن مدد کرنے والا کوئی نہ آیا۔
ساگرؔ اس کا شوہر، جو مزدوری کرتا تھا اور سخت مشکل زندگی کاٹ رہا تھا، اس کا اکیلا ساتھی تھا۔ نہ ماں، نہ باپ، نہ بھائی بہن۔ ان رشتوں کا فیشن گزر چکا تھا اور سب اپنے پیٹ سے رشتہ جوڑے اس کی عبادت میں ہمہ تن مصروف تھے۔
اس کی کوئی اولاد نہ تھی جس سے وہ دل بہلالیتی۔ فقط چار تنکوں کی ایک جھونپڑی تھی جو قوتِ سماعت و گویائی سے محروم تھی۔
ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی، صبح کا وقت تھا۔ سورج کی کرنیں اب اس کی دہلیز کو چھونے اور دستک دینے والی تھیں۔ اکیلی عشرت یہ سوچ رہی تھی کہ صبح کے وقت تو روٹی آجائے گی لیکن ان چار آنوں میں اتنی طاقت وہ کیسے بھردے کہ یہ دوبارہ دکاندار سے اس کے ہاتھوں میں پلٹ آئیں۔
اس نے سوچا، دوپہر، شام اور پھر کل کی روٹی کا کیا بنے گا؟؟؟
وہ اٹھی اور چادر سنبھالتی ہوئی کٹیا سے باہر آگئی۔
’’کوئی حل ہے؟‘‘ دور شہر کی جانب جاتی سڑک کے کنارے کھڑی عشرت نے شہر والوں سے پوچھا۔
کوئی جواب نہ ملا تو واپس اپنے ٹھکانے پر آگئی۔ کچھ دھوپ نکلی تو روٹی کھانے کے لیے پہلی بار نہر پار کرکے تنور پرپہنچی۔ وہاں اس نے کچھ آدمیوں کو ہاتھوں میں بڑے بڑے اوزار پکڑے دیکھا۔ تنور والی بڈّھی عورت سے پوچھنے پر اسے معلوم ہوا کہ یہ لوگ سڑک بنانے کی مزدوری کرتے ہیں اور شہر جارہے ہیں۔ اس بڈھی عورت نے اسے مزید بتایا کہ ان کے ساتھ ان کی عورتیں بھی جاتی ہیں جو روڑے وغیرہ اٹھانے کا کام کرتی ہیں اور اس طرح اپنے پیٹ کی بھوک مٹاتی ہیں۔ روٹی کھانے کے بعد وہ تیزی سے اپنی جھونپڑی میں آگئی۔
ساگرؔ نے عشرت کو کبھی باہر نہیں جانے دیا تھا۔ وہ اس سے شدید محبت کرتا تھا، ایسی محبت جو انسانی تعلقات کی معراج ہے۔ وہ ڈری ہوئی، سہمی سہمی دوپہر کی روٹی کے بارے میں پریشان ہورہی تھی۔ سوچ رہی تھی۔
اچانک کھڑ کھڑاتے اوزاروں کی تیکھی آوازیں سننے پر وہ باہر آگئی اور ان مزدور مردوں اور عورتوں کے ہمراہ چلنے لگی۔ غیر ارادی طور پر اس کے پاؤں ان کے ساتھ اٹھ گئے۔
وہ لوگ حیران تھے، یہ اکیلی عورت شہر کیا لینے جارہی ہے؟ اس کا مرد اس کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ خراب عورت ہے؟ لیکن وہ پُر اطمینان انداز سے ان کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔
وہ لوگ حیران تھے، چار روپے کی دہاڑی پر پتھر ڈھونے لگی۔ ایک سڑک بن رہی تھی جس کے ارد گرد ایک بہت بڑا شہر آباد تھا۔ عشرت کو اس شہر نے زندگی کا پیام دیا تھا، اس لیے وہ خوش لگ رہی تھی۔ اسے شہر زندگی اور بندگی کا بہترین نمونہ لگ رہا تھا۔
مزدوری کے دوران آٹھ آنے سے ایک روٹی بھی اس نے کھالی تھی۔
شام کے سائے پھیلنے ہی والے تھے۔ جب وہ ساڑھے تین روپے اور مسرت آمیز جذبات لیے اپنی جھونپڑی کی طرف چلنے لگی۔
جب وہ اپنی جھونپڑی کے قریب پہنچی تواندھیرا چھا چکا تھا اور چاند بادلوں کو دھّکے دیتا ہوا اس کے قریب آکر خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ وہ کٹیا کے اندر داخل ہوئی اور پیسے سنبھالنے لگی۔ اس دوران اس نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اسی خوشی میں وہ آج رات کا کھانا نہیں کھائے گی۔
اب روشن کیا ہوا چراغ اس پر ہنس رہا تھا۔ اس کے قہقہے عشرت نے سنے تو ایک ہاتھ رسید کرکے اسے گل کردیا۔
عشرت آباد، حسرت آباد میں تبدیل ہوگیا اور اس کا چند ساعت قبل کیا فیصلہ تقدیر بن گیا۔
اسے شہر درندگی اور شرمندگی کا بہترین نمونہ لگ رہا تھا۔ چادر کا وہ پلّو جس میں ساڑھے تین روپے بندھے تھے، کسی نے کاٹ لیا تھا۔