وہ ایک سیاہ رات تھی۔ چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپا جاتا تھا۔ ایک تیس سالہ نوجوان امید و ناامید کی کیفیت میں دل شکستہ حالات سے گھبرا کر کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ بے مقصد گلیوں میں آوارہ گردی کرتا پھر رہا تھا۔ ہاتھ میں فائل،بال گرد سے اٹے ہوئے، ٹائی کی ناٹ نیم کھلی، کف کہنیوں تک چڑھے ہوئے اور پیشانی پر ان گنت بل پڑے ہوئے۔ صبح سے خالی پیٹ وہ کوئی آٹھ دس سگریٹ پھونک چکا ہے۔ سڑک کے کنارے ایک چبوترے پر بیٹھے کچھ چرسی اسی کی طرف مدد طلب نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ شاید وہ دوچار سکے ہی ان کی طرف اچھال دے۔ وہ ان سے بے خبر سڑک پر دوڑتے ٹریفک میں گم ہے۔ آتی جاتی گاڑیوں اور ان میں بیٹھے نوجوانوں کے بے فکر اور ہنستے ہوئے چہروں کودیکھ کر بے ساختہ ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آجاتی ہے۔
٭٭٭
’’السلام علیکم سر!‘‘
’’جی تشریف رکھئے۔‘‘
’’سر یہ میری سی وی۔‘‘
’’تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ یہ کام کرسکتے ہیں؟‘‘
’’جی میرے خیال میں اس جاب کے معیار پر میں پورا اترتا ہوں۔‘‘
’’کوئی ریفرینس وغیرہ۔‘‘
’’نو سر‘‘
’’ٹھیک ہے اب آپ جاسکتے ہیں۔‘‘
اور یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ تقریباً روز ہی ایسا ہوتا تھا۔ نہ ہی اس کے پاس کوئی سفار ش تھی اور نہ وہ کسی امیر ماں باپ کی اولاد تھا۔ نہ جانے کب تک ایسا چلے گا… وہ یہی سوچتے ہوئے آفس کا گیٹ پار کررہا تھا۔
٭٭٭
’’ساجد بیٹا مجھے کچھ پیسے چاہئیں، تیری بہن کے جہیز کے لیے کچھ سامان اکٹھا کرنا ہے۔ اگلے مہینے میں تاریخ رکھنے کے لیے کہہ رہے ہیں لڑکے والے۔ میں تو خود سوچ سوچ کر ہلکان ہوئی جارہی ہوں کہ اتنی جلدی کیسے انتظام ہوگا۔ میں نے بات کی تھی، تاریخ آگے بڑھانے کے بجائے وہ لوگ منگنی توڑنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔‘‘
٭٭٭
’’ساجد بھائی! بجلی اور گیس کا بل جمع کرنا ہے۔ کل آخری تاریخ ہے۔ گھر کا راشن بھی ختم ہونے والا ہے۔ آپ جلدی آجائیں تو امی کو اسپتال لے جائیے گا۔ کل بھی ساری رات انھوں نے ایک کروٹ پر گزاری ہے۔‘‘
٭٭٭
’’چلیں امی جلدی کریں۔ میں ہاتھ منہ دھولوں۔‘‘
’’چل بیٹا میں تیار ہوں۔ گڑیا بیٹا! دروازہ ٹھیک سے بند کرلو اور کوئی آئے تو پہچان کر کھولنا۔ ہم بس ایک گھنٹے میں آتے ہیں۔‘‘
’’جی ڈاکٹر صاحب! امی کو کیا تکلیف ہے؟‘‘
’’میں آپ کو ٹیسٹ لکھ کر دے رہا ہوں، ان کے رزلٹ دیکھنے کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔‘‘
’’جی شکریہ ڈاکٹر۔‘‘
٭٭٭
’’علی یار مجھے کچھ پیسے چاہئیں۔‘‘
’’کتنے پیسے؟‘‘
’’پانچ ہزار روپے، امی کوڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ کروانے کو کہا ہے اور بجلی کا بل…‘‘
’’اوہ! پانچ ہزار روپے۔ پھر کیا کرے گا! اس سے امی کے ٹیسٹ کروائے گا، دوائیاں لائے گا یا بجلی کا بل بھرے گا، اس کے بعد کہاں سے آئیں گے پیسے! تجھے نوکری مل جائے گی یا کسی وزیر کی سفارش لگ جائے گی! تیری سمجھ میں سیدھی سی بات کیوں نہیں آتی! کب تک نوکریاں ڈھونڈکر جوتیاں گھستا رہے گا۔ میری طرح دھندا شروع کر۔ آخر کب تک زندگی کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے ترستا رہے گا!‘‘
’’تو کیا کروں؟ تیری طرح لوگوں کے مال حرام طریقے سے ہڑپ کروں؟ چوریاں کروں، ڈکیتیاںڈالوں؟‘‘
’’دیکھ میرے بھائی! یہ ان امیر وں سے پیسے نکلوانے کا واحد طریقہ ہے۔ اور اس میں غلط بھی کیا ہے۔ اگرہمیں اپنا جائز حق نہیں ملے گا تو اپنا رزق کسی نہ کسی طرح تو ان سے لیں گے ناں! بس تو پڑا رہ اس جائز او رناجائز کے چکروں میں، کچھ حاصل نہیں ہوگا تجھے، سوائے محرومیوں کے۔‘‘
٭٭٭
’’صحیح یا غلط… جائز یا ناجائز… حلال یا حرام … کیا کروں! یہ محرومیاں، دھتکاریاں، لتاڑیں یا ماں کا علاج، گڑیا کی شادی، گھر کا راشن… اف میرے خدا کیوں میرا امتحان لے رہا ہے۔ زندگی کیوں اتنی مشکل ہوگئی ہے۔ آخر کب تک ان حالات کی چکی میں پسنا ہے۔‘‘
٭٭٭
’’السلام علیکم ڈاکٹر صاحب! یہ ہیں میری والدہ کی رپورٹیں۔‘‘
’’ہوں! ساجد صاحب آپ کی والدہ کی رپورٹیں اچھی نہیں ہیں۔ انہیں خون کا کینسر ہے۔‘‘
’’اوہ… تو… پھر میرا مطلب ہے اس کا علاج…!‘‘
’’دیکھئے ساجد صاحب! اگر آپ کچھ عرصے پہلے رجوع کرتے تو ہم دوا سے قابوکرلیتے۔ لیکن اب ٹرانسپلانٹ ہوگا، جس کے لیے کم از کم پچیس لاکھ تک کا خرچہ آئے گا۔‘‘
٭٭٭
آٹھ گھنٹے کی بے مقصد آوارہ گردی کے بعد سوچ سوچ کر اس کا دماغ شل ہونے کو ہے۔ پھر ماں کا خیال آتا ہے۔ درد میں تڑپتے ہوئے اس کا سراپا سامنے آتا ہے اور فیصلہ ایک منٹ میں ہوجاتا ہے۔ وہ موبائل پر کچھ نمبر ملاتا ہے۔
’’ہیلو علی… یار تجھ سے ملنا ہے۔‘‘
’’ابھی … اسی وقت؟‘‘
’’ہاں! ابھی اسی وقت۔ بس میں آرہا ہوں۔‘‘
موبائل کی رنگ بجی، دوسری طرف میرا دوست امجد تھا، چھوٹتے ہی بولا:’’ یار شاہد! ذرا میرے گھر تو آنا ایک مشورہ کرنا ہے۔‘‘
میں ذرا بے چین سا ہوکر بولا: ’’کیا ہوا خیریت؟ کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں، تم ذرا آؤ تو سہی۔‘‘ دوسری طرف امجد نے جھنجھلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا میں آرہا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہی میں نے فون کاٹ دیا۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد میں اس کے گھر کے دروازے پر تھا۔ وہ جیسے میرا ہی انتظار کررہا تھا۔ فوراً مجھے بیٹھک کے کمرے میں لے گیا۔ صوفے پر بیٹھتے ہوئے میں نے کہا: ’’ہاں… کہو کیا بات ہے؟‘‘
امجد نے فوراً اٹھ کر دروازہ لگایا اور میرے برابر صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا: ’’یار! ایک سلسلے میں تم سے مشورہ کرنا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’بولو! ‘‘
’’یار کیسے کہوں، اصل میںاس کا مزاج چڑچڑا سا ہے۔ الٹیاں بھی بہت کرتی ہے، لگتا ہے اس بار بھی لڑکی ہوگی۔‘‘ امجد نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
میں نے نا سمجھی کے عالم میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’کس کی بات کررہے ہو؟ کیا … بھابی؟‘‘
’’ہاں ، یار۔‘‘ اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ ’’چوتھا مہینہ چل رہا ہے۔‘‘
’’تو‘‘ میں نے بے ساختہ پوچھا ’’اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے؟‘‘
’’تم سمجھے نہیں… آثار یہ بتاتے ہیں کہ اس بار بھی لڑکی ہوگی۔‘‘ امجد نے ذرا آہستہ آواز میں کہا۔
’’تو پھر…؟‘‘ میں نے کہا۔
’’اصل میں یار مجھے کسی نے بتایا ہے کہ حکیم اقبال شاہ ایک ایسی چیز دیتے ہیں، جس کو کھانے سے عورت کے پیٹ کے اندر ہونے والی اولاد کے جنین بدل جاتے ہیں۔‘‘ امجد نے بے تابی سے کہا۔
’’یہ کیا بکواس ہے۔‘‘ میں نے کسی قدر غصے اور حیرانی سے کہا۔ ’’یار پڑھ لکھ کر تو ایسی باتیں کررہا ہے؟‘‘
امجد نے فوراً کہا: ’’نہیں بھئی، ایسی بات نہیں تمہیں پتا تو ہے کہ پہلی اولاد لڑکی ہے اب اگر دوسری بھی لڑکی ہوئی… تم سمجھو نہ یار آج کل کے حالات میں اگر بیٹا ہو تو وہ بڑھاپے کا سہارا بنتا ہے، لڑکیوں کا کیا ہے وہ دوسرے گھر چلی جاتی ہیں!‘‘
’’تجھ سے مجھے یہ امید نہیں تھی کہ تم یہ شرک والی اور جاہلانہ گفتگو کروگے۔‘‘میں نے افسوسناک انداز میں کہا۔ ’’بیٹا اور بیٹی سب اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔ یہ نعمت ہے جاؤ ذرا ان گھروں میں دیکھو جہاں اولاد ہی نہیں ہے، وہ ترستے ہیں اولاد کے لیے اور بعض گھروں میں تو لڑکی تک کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی مگر اولاد ضرور ہو۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر آج کل مہنگائی کے اس دور میں لڑکیوں کو پڑھانا لکھانا اور پھر ڈھیر سارے جہیز کے ساتھ رخصت کرنا ، سوچ کر ہی پسینہ آجاتا ہے۔ لڑکا ہوتا تو کچھ سہارا ملتا۔‘‘ امجد نے مردہ سے لہجے میں کہا۔
’’یہ سہارے کی بھی تم نے خوب کہی۔‘‘ میں نے جواباً کہا: ’ذرا اپنے بھائی ماجد کی طرف دیکھو… غلط صحبت میں رہ کر نشہ کرکرکے اس نے خود کو تباہ کرلیا ہے اب وہ نشے کے بغیر ایک گھنٹہ بھی نہیں رہ سکتا، باپ کے مرنے کے بعد اس کو تمہارا بازو بننا چاہیے تھا مگر اس نے خود کو تباہ کرلیا اب وہ تمہارے کسی کام نہیںآسکتا۔‘‘
امجد نے یہ باتیں سن کر سر جھکالیا۔ کسی قدر پست آواز میں کہا: ’’وہ تو ماحول نے بگاڑ دیا ہے۔‘‘
میں نے فوراً کہا: ’’غلط … ماحول کو الزام دے کر تم بچ نہیں سکتے ہمارا بھی اپنا قصور ہے جس عمر میں ہمیں اس پر نظر رکھ کر اس کی تربیت کرنی تھی اس وقت اور موقع کو تم نے گنوادیا۔‘‘
پھر میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’اگر اس بار بھی لڑکی ہوتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرکے اس کی صحیح تربیت کی فکر اور اچھی تعلیم کا انتظام کرو اور جنت حاصل کرو… کیوں بھئی حدیث میں بھی تو یہی خوشخبری ہے۔‘‘ میرے مزاحیہ انداز پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آتوگئی مگر مجھے ابھی تک یقین نہیں کہ اس نے میری باتوں کو سمجھاتھا یا محض مجھے دکھانے کے لیے ایک مسکراہٹ سجانے کی کوشش کی تھی۔
واپسی پر راستے بھر میں سوچتا رہا کہ لڑکیوں کی پیدائش پر اس قدر فکر مند ہونے والے یا انہیں ناپسند کرنے والے لوگ کیا مصنوعی طریقے سے ایک دانہ بھی اگا سکتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو بیٹیوں کی پیدائش کو لے کر غربت و افلاس کا رونا کیوں روتے ہیں، جب کہ رزق دینے والی تو کوئی اور ذات ہے اور اس نے صاف اعلان کردیا ہے کہ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی رزق دیں گے۔
——