فیصلے کی صلیب

آسیہ بنت عبداللہ

کتنی خوبصورت جوڑی ہے، خدا سلامت رکھے۔ دونوں کو دیکھتے ہی میرے دل سے دعا نکلی۔
صحت مند، ہم عمر دونوں کے دو پیارے پیارے بچے… ایک بیٹا اور ایک بیٹی! کیا نہیں تھا ان کے پاس؟ اللہ نے ہر نعمت سے نوازا تھا۔
وہ ہمارے محلے میں نئے آئے تھے۔ ساس سسر کی فرمانبردار، گھرداری میں لگی رہنے والی سلمیٰ، ہم سب کو بے حد پسند آئی تھی۔ پھرجانے کیا ہوا وہ روز بروز کمزور ہوتی گئی، رنگ پھیکا پڑگیا، ہونٹ خشک اور آنکھیں ویران ہوتی گئیں۔
’’ارے تمہیں کیا ہوا ہے بھئی‘‘
میں نے ایک دن اس سے کہا۔ وہ گلابی رنگت، وہ غزالی آنکھیں، وہ گداز کلائیاں کچھ بھی تو نہیں رہا تھا اس کے پاس۔
’’کچھ نہیں خالہ مجھے کیا ہونا ہے!‘‘
اس نے ایک سرد آہ بھر کر کہا۔
لیکن کچھ تو تھا جس نے مجھے اور میرے ارد گرد کی خواتین کو چونکا دیا تھا۔ وہ شمع کی طرح پگھل رہی تھی، سب نے اپنے اپنے طور پر پوچھا مگر جواب ایک ہی تھا: مجھے کچھ نہیں ہوا۔ آخر ہم نے ساس سے ہی پوچھنے کا ارادہ کیا اور ایک دن ان کو گھیر لیا۔
’’یہ تمہاری بہو کو کیا ہوا ہے؟ سلمیٰ جب یہاں آئی تھی تو اچھی بھلی تھی، کسی ڈاکٹر سے چیک اپ کراؤ۔‘‘
’’اب آپ سے کیاچھپانا، پڑوسی دکھ درد کے سانجھے ہوتے ہیں، میں اکثر اس کو اپنے میاں سے لڑتے اور روتے ہوئے دیکھتی ہوں، کچھ کہتی اس لیے نہیں ہوں کہ میاں بیوی کا آپس کا معاملہ ہے، لڑبھڑ کر خود ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘
’’نہیں جمیلہ، یہ وہ والی لڑائی نہیں کہ صبح لڑائی ہوئی اور شام کوصلح ہوگئی۔ یہ تو لگتا ہے کوئی روگ ہے جو اندر ہی اندر اسے کھائے جارہا ہے۔‘‘ میں نے تشویش سے کہا۔
’’ہاں فکر مند تو میں بھی ہوں، مگرمیں کیا کروں کچھ بتاتی بھی تو نہیں۔ بس میں دعا کرتی ہوں، آپ بھی کریں اللہ خیر کرے۔‘‘ جمیلہ یہ کہہ کر اپنے گھر چل دیں۔
دن گزرتے گئے، دن، جو سب ایک جیسے ہوتے ہیں، بظاہر ایک جیسے۔ مگر کسی کے لیے اچھے اور کسی کے لیے برے۔ اس کے بھی برے دن آگئے تھے۔
’’خالہ جان آپ نے سنا سلمیٰ اپنے بچوں کو چھوڑ کر کہیں چلی گئی ہے۔‘‘ سلمیٰ کی ہمسائی نے میرے گھر آکر صبح ہی صبح یہ بری خبر سنائی۔
’’ارے ایسے نہ کہو، کسی کی عزت کا معاملہ ہے، جائے گی کہاں! اپنے میکے گئی ہوگی۔ ناں بیٹی! بغیر تحقیق ایسی بات نہیں کرتے۔‘‘
’’ارے خالہ جان! ساری گلی یہی کہہ رہی ہے، وہ میکے نہیں گئی، وہاں معلوم کرلیا ہے، میکے جاتی تو بچے ساتھ لے کر جاتی۔ سسر، دیور کسی کے ساتھ جاتی، اکیلی کیوں جاتی، بلکہ…‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے خاموش ہوگئی۔
’’ہاں ہاں کہو خاموش کیوں ہوگئیں۔‘‘ میں نے ہمدردی سے پوچھا۔
’’خالہ جی وہ … وہ…کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی کے ساتھ چلی گئی ہے ہمیشہ کے لیے۔‘‘
’’ہیں؟ کیا کہہ رہی ہو، استغفراللہ… یعنی اپنے بچے چھوڑ کر ایک ماں چلی گئی ہے، یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘
’’وہ جمیلہ باجی اور ان کے گھر والے یہی کہہ رہے ہیں اور خالہ جی! ان دونوں میاں بیوی میں لڑائیاں بھی تو بہت ہونے لگی تھیں، ہم تو ساتھ والے گھر میں رہتے ہیں، اکثر رات کو اس کے کمرے سے مار پیٹ اور رونے کی آوازیں آتی تھیں۔ روز کے جھگڑوں کا کچھ تو نتیجہ نکلنا تھا ناں۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے، لڑائی والی بات تو جمیلہ نے بھی بتائی تھی مگر کسی کے ساتھ چلے جانا…؟ نہیں نہیں وہ ایسی نہیں تھی، وہ ایک شریف عورت تھی، اپنے شوہر کو چاہنے والی، اپنے بچوں کے لیے جینے والی، اللہ اسے اپنی پناہ میں رکھے۔‘‘
پھر رفتہ رفتہ سب کچھ پتا چل گیا۔
اس محلے میں آنے کے بعد سلمیٰ کے شوہر کا دیدہ ہوائی ہوگیا تھا۔ بڑے شہر کی بڑی خرابیاں۔ ہر روز آس پاس چھمک چھلّو قسم کی اٹھلاتی بل کھاتی لڑکیوں کو دیکھتا دیکھتا ان کے جال میں پھنسنے لگا۔ تب ہی سے بیوی بری لگنے لگی اور وہ بیوی کے ساتھ ساتھ معصوم بچوں سے بھی لاپروا ہوتا گیا۔ سلمیٰ کچھ دن تو چپ رہی، مگر کب تک! ہفتوں وہ بیوی سے بات نہ کرتا، بچوں کو جھڑک دیتا۔ اور نہ ہی خرچ دیتا۔ اس کی جیب کا رخ حسیناؤں کی طرف ہوگیا تھا۔ وہ حسینائیں جن کا حسن ہزاروں روپے کے میک اپ کا کرشمہ ہوا کرتا تھا۔ مگر اس کی آنکھیں نہ کھلیں۔ گھر کی مرغی دال برابر یہ محاورہ جانے کس بدبخت کا ایجاد کردہ ہے۔
دو سال اسی تنگی اور مار پیٹ میں اس نے گزارے،اور جب دیکھا کہ شوہر کے سر سے آوارگی کا بھوت نہیں اترنے والا تو وہ چپ چاپ اس کی زندگی سے نکل گئی۔ اس کے بچے اس کے حوالے کرکے دوسرے شہر اپنی بیوہ خالہ جو بے اولاد تھیں، ان کے پاس۔ وہاں دن رات سلائی کے کپڑے سی کر گزارہ کرتی ہے اور اپنے نصیبوں کو روتی ہے، اپنے بچوں کو یاد کرتی ہے۔ وہ نہیں بھولی اپنے بچوں کو… کیسے بھول سکتی ہے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو۔
ہاں بچے شاید بھول گئے ہیں، جب ان سے کہہ دیا گیا کہ تمہاری ماں مرگئی ہے تو وہ بھولنے پر مجبور ہوگئے۔ مگر ایک دن آئے گا جب وہ حقیقت جان لیں گے اور اپنی ماں سے ملیں گے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146