فیمنزم کی اصطلاح ۱۸۸۰ کے اواخر میں سب سے پہلے ’ہبرٹائن آکلرٹ‘ نامی خاتون نے، سماج پر مردانہ غلبہ پر تنقید کرتے ہوئے اس کے خلاف اور ان حقوق و اختیارات کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کی، جس کا وعدہ فرانس کے انقلاب نے عورتوں سے کیا تھا۔ یہ اصطلاح سب سے پہلے فرانس کے جرنل میں، جس کانام La Citoyenneتھا، مذکورہ خاتون نے استعمال کی۔ اپنے استعمال کے ابتدائی دنوں میں یہ اصطلاح بہت سے معانی و مفاہیم کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال ہوئی، اور اس کے ذریعہ مردوں کے غلبہ والے سماج میں عورتوں کے حقوق و اختیارات کی کشمکش میں خواتین کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے ایک طاقتور ڈوز کے طور پر استعمال کیا گیا اور فرانس میں وہاں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی حالات میں اس اصطلاح نے خواتین کو حقوق دلانے کی کوششوں میں اہم رول ادا کیا۔ پھر بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں یہ اصطلاح برطانیہ آکر انگریزی زبان میں استعمال ہوئی اور وہیں سے ہوتی ہوئی جلد ہی امریکہ میں استعمال ہونے لگی۔ یہ ۱۹۱۰ء کے آس پاس کا زمانہ ہوگا۔ اس کے چند سالوں بعد کوئی ۱۹۲۰ء کے قریب فیمنزم کی اصطلاح فرنچ زبان کے ساتھ ہی مصر پہنچ کر عرب دنیا میں، یا کہیے، مسلم دنیا میں داخل ہوئی۔ عربی میں اس کا ترجمہ ’’نسائیہ‘‘ سے کیا گیا۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ فرنچ فیمنزم برطانوی فیمنزم نہ تھا اور نہ ہی برطانوی فیمنزم امریکہ پہنچا۔ یہ اصطلاح اگرچہ مغربی دنیا، خصوصاً، فرانس میں ایجاد ہوئی مگر ہر جگہ اس نے مقامی حالات و کوائف اور سماجی و معاشرتی تانے بانے کی مطابق شکل و صورت اختیار کی۔ یہاں تک کہ جب یہ اصطلاح ایک نظریہ کی حیثیت سے مصر میں داخل ہوئی تو وہاں بھی اس نے سماجی، سیاسی اور مذہبی و معاشرتی حالات کے مطابق اثر دکھایا۔ اس طرح ہم یہ پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اپنی تشکیل اور تاثیر میں بنیادی طور پر مغربی دنیا میں عورت کی حالت اور حیثیت کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آئی۔ اور ایک تحریک کی شکل میں پہلے پورے یوروپ میں اور پھر باقی دنیا میں پھیلتی گئی۔
فیمنسٹ تحریک کی فکر، جیسا کہ اوپر کہا گیا، بنیادی طور پر سماج میں مردوں کے غلبہ کے خلاف اور خواتین کے بنیادی قانونی، معاشی اور سیاسی حقوق کے حصول کی خاطر برپا ہوئی اور پھر ہر میدان کار، ملکیت کا حق، نوکریوں میں یکساں مواقع، جنسی تشدد سے تحفظ، سیاسی انتخاب میں ووٹ کا حق، سے ہوتی ہوئی بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کے اختیار اور جنسی آزادی، اسقاطِ حمل کا حق، بلا سبب طلاق اور شادی کی لازمیت کو ختم کرتے ہوئے سیم سیکس پر پہنچی اور ابLGBTحقوق پر آن پہنچی۔
ادوار
اس تحریک کی تاریخ لکھنے والوں کے مطابق اسے تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے جسے وہ لوگ ’’ویو‘‘ یا لہر کا نام دیتے ہیں۔ اس کی پہلی ’لہر‘ کو وہ ابتدائی دور سے بیسویں صدی کے ۱۹۶۰ء تک کا دور مانتے ہیں۔
۱۹۱۸ء میں جب یہ نظریہ امریکہ پہنچاتو وہاں کی معروف قانون داں، سوشلسٹ لیڈر اور صحافی خاتونCrystal Eastmanنے ایک مضمون لکھا۔ جس میں اس نے لکھا کہ برتھ کنٹرول عورت کا بنیاری حق ہے جو اسے بہ ہرحال ملنا چاہیے تاکہ وہ جدید دنیا میں پوری طرح سے اپنی شرکت کو یقینی بناسکے۔ اس مضمون میں اس نے امریکی خواتین کو للکارا کہ اگر فیمنزم باشعور، حوصلہ مند ذہین اور لوگوں کے مطالبوں کا حامی ہے تو یقینا اسے خواتین کی حمایت حاصل ہوکر رہے گی۔ اس نے اپنے وقت کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلے کے پرانے قانون کو فوراً تبدیل کیا جانا چاہیے۔ ان کے اس مضمون نے امریکی خواتین میں برتھ کنٹرول کے موضوع پر زبردست حمایت پائی اور پھر قوانین میں تبدیلی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وہ امریکہ میں فیمنسٹ تحریک کی پائینر تصور کی جاتی ہے اور ۸؍جولائی ۱۹۲۸ء کو انتقال ہوا۔
دوسری ’لہر‘ کا دور ۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کا کہا جاتا ہے۔ اس دور میں اس تحریک کو نظریاتی بنیادیں بھی فراہم ہوئیں اور سیاسی، سماجی اور معاشی و معاشرتی حلقوں میں تائید اور مؤید ماحول بھی میسر آیا۔ اس مدت میں عورتوں کو یکساں معاشی مواقع ملے، اور صنفی تفریق کا قانونی طور پر خاتمہ عمل میں آیا۔ اس دوران یہ نظریہ قائم ہوگیا کہ مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے اور انسانی پیدائش کا جو طبعی نظام عورت کے ساتھ لگا ہے وہ بھی صرف اسی وجہ سے ہے کہ سماجی اور تہذیبی اعتبار سے اس کام کو کرنے کے لیے عورت کی Conditioning یا ذہنی تیاری انجام دی گئی ہے۔ اس کی تائید میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو پیش کیا گیا جہاں مرد بھی عورت کی طرح معمولی جسمانی تبدیلی کے ساتھ بچے پیدا کرسکتا ہے اور سائنسی و تکنیکی تبدیلی کو انجام دے کر مرد کو عورت اور عورت کو مرد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
اس تحریک کی تیسری لہر ۱۹۹۰ کے بعد کا دور ہے جو ہنوز جاری ہے۔ اس دور میں پہلے دور کی حصولیابیوں کے منفی اثرات کے خاتمے کی کوشش پر مبنی نظریات کے ساتھ ساتھ کچھ نئے اشوز بھی شامل ہوئے۔ عورت کے بچے پیدا کرنے کے اختیار جیسے مسائل کو باقی رکھتے ہوئے ہم جنس پرستوں، ٹرانس جینڈرس کے یکساں حقوق کی بات شامل ہوگئی اور جنس ونسل کے مکمل خاتمے کے ساتھ تمام کو یکساں طور پر معاشی حقوق اور سماجی انصاف کی لڑائی بھی ایجنڈا میں شامل ہوگئی۔
اس تحریک کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے میں کلیدی رول فرانسیسی ’’مفکر و مصنف‘‘ خاتون سائمن دی بوار (Simone De Beavoir) نے ادا کیا۔ ان کی کتاب ’’دی سکینڈ سیکس‘‘ نے تہلکہ مچادیا جو ۱۹۴۹ء میں لکھی گئی۔ مذکورہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۵۳ء میں انگریزی میں ترجمہ کے ساتھ سامنے آئی۔ اس کتاب میں مصنفہ نے اپنے خیال میں، ان عوامل پر بحث کی جو مردوں کے مقابلے میں باصلاحیت خواتین کی ترقی کی راہ کا روڑا ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک ہی پیشہ یا کام میں عورت کو کم تنخواہ یا، اجرت، گھریلو ذمہ داریاں، معاشرے کی جانب سے باصلاحیت خواتین کو سپورٹ نہ ملنا یا خواتین کی کامیابی کی صورت میں شوہر سے مخاصمت یا اپنی مرضی کے شوہر کا سرے سے انتخاب نہ کرپانا وغیرہ عورت کی ترقی کی راہ کی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ بوارنے خواتین کو یہ بات پُرزور انداز میں بتائی کہ عورت اس لیے مرد سے پیچھے رہ جاتی ہے کیونکہ اس میں عزائم کی کمی ہوتی ہے اور اس کا سبب وہ سماجی و معاشرتی حالات ہیں جن میں وہ پرورش پاتی ہے۔ لڑکی کو بتایا جاتا ہے کہ اسے اپنی ماں کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں اور لڑکوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ انہیں اپنے باپ کے نامکمل مشن اور ذمہ داریوں کی تکمیل کرنی ہے۔
سائمن دی بوار کی کتاب اور دیگر سماجی، سیاسی اور معاشرتی عوامل نے مل کر ان خیالات کو ایک باقاعدہ تحریک کی شکل دی جو Le Mouvent de Liberation des Femmesکے نام سے جانی گئی۔ اس کا ترجمہ ہم ’’دی وومنس لبریشن موومنٹ‘‘ کے نام سے کرسکتے ہیں۔ اس تحریک کے بانیان میں سائمن دی بوار کے علاوہ کرسٹن روک فرٹ، کرسٹن ڈیلفی اور اینے ٹرسٹان شامل رہیں۔ اس نے باعزم خواتین کے گروپ نے نظریات کو عمل میں تبدیل کرنے کی جدوجہد شروع کردی اور ایک باضابطہ ایسی فیمنسٹ موومنٹ کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج ہم مشرق و مغرب میں دیکھ رہے ہیں۔ اس تحریک کے نتیجے میں اس زمانے میں خواتین کو مردوں کے مساوی چند حقوق ملنے کا آغاز ہوا۔ مثلاً مردوں کے مقابل یکساں تعلیم کا حق، کام کرنے کا حق اور ووٹ کا حق جیسی چیزی حاصل ہوئیں لیکن اس تحریک کے سامنے اس وقت کا سب سے بڑا اشو اسقاط حمل پر پابندی اور موانع حمل کے استعمال پر پابندی تھی۔ اس تحریک اور اس کے افراد نے اس چیز کو عورت کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا اور اس کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ انھوںنے ایک اعلامیہ جاری کیا جس کا نام ‘Le Manifests de 343’تھا۔ اس پر ان ۳۴۳ خواتین کے دستخط تھے جنھوںنے یہ اعلان کیا تھا کہ انھوںنے غیر قانونی طور پر اسقاط حمل کرایا ہے۔ یہ اعلامیہ ۵؍اپریل ۱۹۷۱ء کو فرانس کے دو مشہور اخبارات میں شائع ہوا۔ اس اعلامیہ کی اشاعت کے نتیجے میں اس گروپ کو زبردست حمایت حاصل ہوئی اور ۱۹۷۵ میں خواتین کو اسقاط حمل کرانے کی آزادی کا قانون پاس کردیا گیا۔
خواتین کی اس تحریک نے مغربی معاشرے کو تبدیل کرنے کا عمل شروع کردیا۔ اس کے نتیجے میں خواتین کی پریشانیوں (Suffrage)میں کمی آئی، طلاق کی کارروائی عورت کی جانب سے شروع کیے جانے کی قانونی اجازت ملی یہاں تک کہ اسے حق ملا کہ وہ بلا کسی وجہ (No Fault Divorce)کے بھی شوہر سے طلاق لے سکتی ہے۔ اسی طرح وہ بچہ پیدا کرنے یا نہ کرنے کے لیے بھی آزاد ہوگی۔ اب بچہ پیدا کرنا یا نہ کرنا اس کا انفرادی فیصلہ تھا اور اس کے لیے وہ تمام ذرائع اور وسائل کے استعمال کے لیے آزاد بھی جو اس راہ میں اس کی معاونت کریں۔ ساتھ ہی اسے جائیداد رکھنے کا حق یعنی حق ملکیت ملا، نوکریوں کے یکساں مواقع اور نسبتاً مردوں کے قریب قریب تنخواہیں ملنے لگیں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز تک ان کی رسائی آسان ہوگئی۔
سائمن دی بوار جو ۹؍جنوری ۱۹۰۸ء کو پیرس میں پیدا ہوئیںاس تحریک کی ایسی روح قرار پاتی ہیں جنھوںنے اسے نہ صرف نظریاتی بنیادیں فراہم کیں بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے پورے مغرب میں اور پھر مشرق میں اپنے نظریات پر مبنی خواتین کے حقوق کی ایسی خود کار تحریک برپا کی جس کے اثرات سے مغرب تو تبدیل ہوا ہی مشرق بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ ۱۴؍اپریل ۱۹۸۶ء کو جب پیرس میں ان کا انتقال ہوا تو پوری دنیا پر ان کے اثرات چھائے ہوئے تھے۔ ان کی سب سے تہلکہ خیز کتاب سکنڈسیکس تھی جس کا اوپر تذکرہ ہوا اس کے علاوہ بھی انھوںنے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں درج ذیل کتابیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتابیں فیمنسٹ موومنٹ کو خود کار تحریک بنانے میں کامیاب ہوئیں۔
(1) Ethics of Ambiguity
(2) Faminist Ethics
(3) Existanical Faminism
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ فیمنسٹ تحریک اگرچہ انقلاب فرانس کے بعد وہاں ابھرنی شروع ہوئی اور امریکہ و برطانیہ ہوتے ہوئے اس کے اثرات پوری دنیا میں نظر آنے لگے لیکن یہ تحریک ہر جگہ اپنے اپنے سماجی، معاشرتی و تہذیبی و سیاسی ماحول میں پروان چڑھی۔ البتہ دوسرا دور ایسا ہے جہاں نظریات اور اشوز میں یکسانیت نظر آنے لگی اور اس کا سبب مغرب کا ترقی یافتہ ہونا اور اس کا وسیع تر کالونیل نظام تھا جس نے آدھی سے زیادہ دنیا کو اپنی سیاسی و تہذیبی گرفت میں لے رکھا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ چین دنیا کا وہ خطہ رہا ہے جو بیرونی سیاسی و ثقافتی اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہا ہے لیکن وہاں بھی اس تحریک کے اثرات تھے اور آج بھی ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چائنا میں فیمنسٹ موومنٹ وہاں کی اپنی پیداوار ہے اور وہاں پر اس کی شروعات مغرب کی تحریک سے پہلے ہی ہوچکی تھی۔ اس کی جڑیں مورخین ۱۷۹۱ء میں تلاش کرتے ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں پر یہ تحریک خواتین کے بجائے مردوں کے ذریعے شروع ہوئی۔ اس سلسلہ میں انیسویں اور بیسویں صدی میں کئی چینی فیمنسٹ مصنّفین کا نام لیا جاتا ہے جنھوںنے خواتین کو ایسے راستے اور طریقے سجھائے جو انہیں مردوں کے مقابل یکساں مواقع فراہم کرکے انہیں مردوں کے تسلط سے آزاد کراسکتے تھے۔ان مصنّفین میں لن زونگ سو، ہی زھین اور جین زی فِن کے نام لیے جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چینی معاشرے میں آج بھی مردو عورت کے درمیان وہ کشمکش نہیں ہے جو مغربی دنیا میں ہے جہاں خاندان کا ادارہ پوری طرح تباہی و بربادی کا شکار ہے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ صنعتی ترقی اور اس میں مرد و خواتین کے یکساں طور پر شامل ہونے کے سبب کچھ نہ کچھ نقصان تو خاندان کے نظام کو وہا ںبھی جھیلنا پڑرہا ہے۔
مذہب پر اثرات
فیمنسٹ تحریک جس خطے سے برپا ہوئی وہاں بنیادی طور پر عیسائی اورچرچ کا مذہبی نظام پوری طرح معاشرے کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا۔ یہاں مذہب کی اجارہ داری تھی اور خواتین کے بنیادی انسانی حقوق تک مذہب کے نام پر غصب کیے گئے تھے۔ بعض لوگ فرانس کے انقلاب کو مذہب کے خلاف بغاوت بھی تصور کرتے ہیں اور یہ وہاں کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی و معاشرتی حالات کو دیکھتے ہوئے درست بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فیمنسٹ تحریک نے مذہبی نظریات پر بھی کاری چوٹ لگائی اور اس مذہبی و تہذیبی نظام کو بھی متاثر کیا جو اس وقت رائج تھا۔ اس تحریک کے اثرات نے جو بنیادی طورپر مذہب مخالف تھے، عوام کو اور خصوصاً خواتین کو پاپائی نظام کی گرفت سے آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور مذاہب میں بھی اصلاحِ روایات کی سوچ کو پیدا کیا۔ عوام میں مذہب کی پابندیوں سے اوپر اٹھ کر سوچنے کا خیال پیدا ہوا اور مذہب نے بھی عورت کو یکے بعد دیگرے مختلف النوع آزادیاں دینی شروع کردیں۔ یہ فیمنسٹ تحریک ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اب اکیسویں صدی کی آمد سے پہلے ہی یوروپی دنیا میں چرچ میں خواتین کو بھی وہ عہدے دیے جانے لگے جو پہلے صرف مردوں کو دیے جاتے تھے۔ اس کی مثال ہندوستانی سماج میں بھی ملتی ہے جہاں خواتین کو بہت سارے مندروں اور عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت نہ تھی لیکن اب وہاں خواتین بھی جاتی ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال کیرلا کے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے کی اجازت ہے جو سپریم کورٹ نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلے میں دی ہے۔
خواتین پر مذہب کے تسلط اور تفریق پر مبنی رویہ اپنانے کو لے کر امریکی مفکر خاتون الیزابیتھ کیڈی اسٹانٹن نے مذہب، خصوصاً عیسائیت پر بڑے تیزو تند حملے کیے۔ اسٹانٹن نے اپنی کتاب ’’دی وومنس بائبل‘‘ جو ۱۸۹۵ء میں لکھی گئی، میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عیسائیت نے عورت کو قیدی بنایا ہے اور اب اسے چاہیے کہ وہ مرد اور عورت کو یکساں قرار دے۔ انھوںنے دنیا کو یہ فکر دی کہ مذہبی کتابوں اور مذہب کی تعلیمات کو عورت کے نظریے سے پڑھا جانا چاہیے اور نئے انداز سے سمجھا جانا چاہیے۔ اس تحریک کی وہ پہلی آئیڈیالاگ ہیں جنھوںنے دنیا سے اپیل کی کہ مذہبی روایات، اعمال اور تعلیمات کو جب تک خواتین کے نقطۂ نظر سے نہیں پڑھا جاتا اس وقت تک عورت مذہب کی رسیوں سے نہیں نکل سکتی۔ الیزابیتھ کیڈی اسٹانٹن کا ۱۹۰۲ء میں نیویارک میں انتقال ہوا۔ انھوں نے اس تحریک کے لیے بڑا نظریاتی لٹریچر چھوڑا جس میں درجنوں کتابیں شامل ہیں۔
اسلامک فیمنزم: ۱۹۹۰ء کی دہائی میں مسلم دنیا میں بھی اسلامک فیمنزم کی اصطلاح استعمال ہونی شروع ہوگئی۔ سب سے پہلے یہ ترکی میں استعمال ہوئی اس کے بعد ایران اور پھر سعودی عرب میں ۱۹۹۶ء میں اس وقت سامنے آئی جب سعودی خاتون مائی یمانی نے اپنی کتاب Faminism and Islamشائع کی۔ جنوبی افریقہ کی مشہور خاتون شمیمہ شیخ نے بھی اس اصطلاح کا استعمال اپنی تقریروں اور تحریروں میں کرنا شروع کردیا اور اب تو لوگ اس لفظ کو استعمال کرتے وقت غوروفکر بھی نہیں کرتے اور اسلام کے نظریۂ عورت کو مغربی فیمنزم کے بالمقابل پیش کرنے کے لیے اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔
جن لوگوں نے اسلام کے نظریے کی تفہیم کے لیے اس اصطلاح کو وضع کیا اور اس کے استعمال کو رائج کیا ان کے بارے میں یہ کہنے کی تو ہم جرأت نہیں کرسکتے کہ وہ اسلام کے نظریۂ عورت اور اس سلسلہ کی قرآن و حدیث کی تعلیمات سے ناواقف رہے ہوںگے مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے رائج الوقت فیمنسٹ موومنٹ کے سامنے اسلام کا نظریہ پیش کرنے کے لیے انہی کی اصطلاح کو آلہ کے طور پر استعمال کیا۔ یہ ان کی نیک نیتی بھی ہوسکتی ہے اور سادگی بھی مگر اتنا تو واضح ہے کہ جن اشوز اور حقوق و اختیارات کو لے کر فرانس، برطانیہ، امریکہ اور پورے مغرب میں یہ تحریک شروع ہوئی وہ تمام کے تمام اسلام اس تحریک سے بارہ صدیاں قبل ہی عورت کو دے چکا تھا۔
فیمنزم کی اس بحث میں اس بات کا موقع نہیں کہ اسلام کے ان حقوق و اختیارات کی وضاحت کی جائے جو اس نے عورت کو دیے ہیں اور مغرب کی عورت دو صدیوں پر محیط طویل جدوجہد کے بعد ان کے حصول میں کامیاب ہوئی اور وہ بھی کس صورت میں، وہ سب دنیا کے سامنے ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں مرد و عورت جو ایک دوسرے کا تکملہ یا کمپلیمنٹ ہیں وہ ایک دوسرے کی ضد اور مدِمقابل بن گئے اور اس کے نتیجے میں سماج اور معاشرہ جس انتشار کا شکار ہے، اسلام کا معاشرہ اس سے یکسر محفوظ رہا۔ اسلام نے مرد وعورت کے حقوق و اختیارات کو مردوعورت کے درمیان کشمکش اور جنگ کا سبب بنائے بنا انہیں اولیاء بعضہم ببعض بناکر ایک مثالی معاشرہ بنادیا۔ یہاں عورت گھر کی تنظیم و ترتیب میں مثالی نظر آتی ہے تو میدان جنگ میں ملٹری اور پیراملٹری کا رول بھی نبھاتی نظر آتی ہے۔ وہ یہاں پر معاشی جدوجہد میں بھی شریک نظر آتی ہے اور تعلیم و تعلّم اور سماجی خدمت کے میدان میں بھی گراں قدر رول کے ساتھ نظر آتی ہے۔
اب ہمارے سامنے صرف دو باتیں رہ جاتی ہیں۔ ایک بات تو یہ کہ اسلام کے عطاء کردہ حقوق اور اختیارات کو ہمارے معاشرے میں بھی چلتا پھرتا نظر آنا چاہیے اور دوسری بات یہ کہ اسلام کی تعلیمات کو جو عورت سے متعلق شریعت میں دی گئی ہیں انہیں موجودہ تحریک سے مرعوب و متاثر ہوئے بنا لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ موجودہ دور کی عورت نے طویل جدوجہد کے بعد جو کچھ پایا ہے وہ کتنا معمولی ہے اور اس کی اس نے کتنی بڑی قیمت ادا کی ہے، اور اسلام نے اسے بلا کسی طرح کی قیمت وصول کیے کتنے بڑے انعامات سے نوازا ہے۔lll