[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

قابلِ غور

نکہت افروز

ایک بادشاہ کو یہ جاننے کی خواہش ہوئی کہ اس کی رعایا کا کون سا طبقہ عقل مند ہے اور کون سا بے وقوف۔ اس نے شہر کے ہر طبقے کا ایک ایک آدمی لیا اور انھیں الگ الگ کوٹھڑیوں میں بند کردیا۔ کوٹھڑیوں میں ضرورت کا ہر سامان موجود تھا۔ کھانے پینے اوڑھنے پہننے کے لیے ہر سامان موجود تھا۔ یہاں تک کہ روشنی کے لیے چراغ بھی روشن تھے۔ ان کو ہر چیز کے استعمال کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔ ایک ہفتہ تک کوٹھڑیوں میں رکھنے کے بعد سب لوگوں کو نکالا گیا۔ ان میں کچھ لوگ تو بہت ہشاش بشاش تھے اور کچھ کا حال یہ تھا کہ ان سے کھڑا بھی نہیں ہوا جارہا تھا۔ بادشاہ نے ضعف کے ماروں سے حال پوچھا تو انھوں نے کہا کہ سرکا رآپ نے زندگی کا ساراآرام مہیا کرادیا تھا لیکن آپ کے نوکر کوٹھری میں آگ رکھنا بھول گئے تھے اس لیے سامان کے ہوتے ہوئے بھی آگ کے نہ ہونے کے سبب ہم کچھ پکا نہ سکے۔ اس لیے آٹھ دن بھوکے ہی گزرے صرف پانی پی پی کر گزارے اس لیے ہماری یہ حالت ہوگئی ہے۔

دوسرے لوگوں سے جو ہشاش بشاش تھے، پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ سرکار آگ تو نہیں تھی لیکن جلتے ہوئے چراغ تو تھے۔ ہم نے اسی سے آگ جلالی اور خوب خوب کھایا پیا۔

اس امتحان کے بعد بادشاہ کو معلوم ہوگیا کہ کون عقلمند ہے اور کون بے وقوف۔ دنیا کی موجودہ آبادی کا معاملہ بھی بالکل اسی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بے حدو حساب وسائل سے دنیا کو نواز رکھا ہے لیکن آج علم معاشیات کی سب سے بڑی تھیوری یہ ہے کہ وسائل محدود ہیں اور ضروریات لا محدود۔ اس کا علاج بھی خوب کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وسائل محدود ہیں اس لیے آبادی محدود کرو۔ فیملی پلاننگ کر و ورنہ یہ اور یہ ہوجائے گا۔ کائنات میں انسانی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بے شمار سامان موجود ہیں۔ اگر وسائل کو نگاہ میں رکھا جائے تو دنیا کی کوئی بھی آبادی زیادہ نہیں ہوسکتی۔

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے زمین کی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا ہے جنگلات اور پہاڑی علاقوں کو تو ابھی قابل کاشت بنایا ہی نہیں گیا ہے۔ دلدل اور ریگستان کو سائنس کی مدد سے قابلِ استعمال بنانا اب کوئی مشکل کام نہیں رہ گیا ہے۔ سمندر میں غذا کا خزانہ موجود ہے۔ مچھلیاں، دوائیں اور دوسری بہت سی ایسی اشیاء جو غذا کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں اور کی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر سمندر میں ایسی کائی پائی جاتی ہے جو مکمل غذا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ انسان کی بھوک کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ انسانی جسم کو ضرورت بھر طاقت حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ ساری چیزیں سمندر میں محدود نہیں لامحدود ہیں۔

ان سب کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی اور اس کی بے پایاں نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے سورج۔ جس سے جسم کو حیاتین ملتے ہیں، جراثیم مرتے ہیں اور خدا جانے کیا کیا ہوتا ہے۔

آئیے سورج کی روشنی کے ایک نئے استعمال کو دیکھیں جس کی طرف اس وقت دنیا کی آنکھیں لگی ہوئی ہیں۔ وہ ہے شمسی توانائی یعنی سولر انرجی یا سورج کی شعاعوں سے طاقت حاصل کرنا۔ شمسی ٹوکری (Sun Basket) اب کافی عام ہوگئی ہے۔ اس ٹوکری کے بیچ پتیلی لٹکا کر کھانا پکایا جاتا ہے۔ ایسی ٹارچیں بنائی جارہی ہیں جن میں سورج کی شعاعوں سے چارج ہوسکنے والے سیل ہوتے ہیں۔ ایسی کاریں بنائی جارہی ہیں جن کی بیٹریاں پٹرول کے بجائے سورج سے طاقت حاصل کریں گی۔ نہانے کے تالابوں کا پانی گرم کرنے کے لیے بھی سورج کی شعاعوں کا استعمال ہونے لگا ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر مشین، ریل اور کارخانہ چلانے اور روشنی کے لیے سورج کا استعمال بہت قریب ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سورج کی شعاعوں سے زمین کی طرف ۲۰ منٹ میں جو توانائی انرجی منتقل ہوتی ہے وہ ہماری ایک سال کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ اللہ کی قدرت کا اس بات سے مزید قائل ہونا پڑتا ہے کہ صحارا کا ریگستان ایک سال میں سورج سے جو توانائی حاصل کرتا ہے وہ دنیا کے کوئلے کے سارے ذخیرے جلا ڈالنے سے حاصل ہونے والی توانائی سے کئی ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ریگستان پر پڑنے والی ان شعاعوں کو شیشوں کے ذریعے پھیلا کر رقیق اشیاء کو پکانے، بجلی پیدا کرنے اور پاور پمپ چلانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سورج کے بارے میں یہ بہت تھوڑی سی باتیں جان لینے کے بعد سورئہ النباء کی تیرہویں آیت ملاحظہ ہو: وجعلنا سراجا وہاجا۔ اور (ہم نے) ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا۔‘‘

اب ہم غوروفکرکریں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسانوں کے لیے کیا کیا نعمتیں رکھی ہیں۔ اور آج کا مادہ پرست انسان تمام ترقیوں اور علمی ایجادات کے باجود اس بات سے خوف زدہ ہے کہ آبادی بڑھنے سے وسائل ختم ہوجائیں گے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ ہر ذی نفس کو اس کا رزق ضرور فراہم کرے گا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں